پاکستان میں شعبۂ صحت کی دگرگوں صورت حال

 حکمرانوں کی بے حسی کے باعث سرکاری اسپتالوں میں غریب عوام ذلت اٹھانے پر مجبور


 حکمرانوں کی بے حسی کے باعث سرکاری اسپتالوں میں غریب عوام ذلت اٹھانے پر مجبور۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں شعبہ صحت کے شعبے کی صورت حال خاص طور سے دگرگوں ہے۔

چند روز قبل لاہور میں واقع پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر میں بے ضابطگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی سلطنت تھی جس کے سلطان ( سابق) وزیراعلیٰ پنجاب تھے کہ جسے مرضی چاہیں بھرتی کرکے لاکھوں کی تنخواہ دیتے رہیں، واضح رہے کہ مذکورہ ادارے کے سربراہ ڈاکٹر اخترسعید ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ڈاکٹر اختر سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ صرف ایک سرجن ہیں، ( بہ طور سربراہ) آپ کا تقرر کیسے ہوگیا؟ آپ نے ایسا کون سا قابلیت بڑھانے والا انجکشن لگوالیا کہ آپ کو سیدھا بارہ لاکھ روپے ( کی تنخواہ) پر تعینات کردیا گیا۔

چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہ آپ کا نام ای سی ایل میں ڈلوا دیتے ہیں، احتساب کے لیے تیار رہیں، آپ کو قوم کی ایک ایک پائی واپس کرنی ہوگی۔ بعدازاں عدالت نے انسٹیٹیوٹ میں بیس ارب روپے کے اخراجات کے فرانزک آڈٹ کا حکم جاری کرتے ہوئے تین ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی۔

چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس وطن عزیز کی جڑوں میں بیٹھ جانے والی کرپشن، بدعنوانی، اقرباپروری کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے کی حالت زار کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔ صحت اور تعلیم دو اہم ترین شعبے ہیں جن پر ترقی یافتہ ممالک میں خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

درحقیقت ان ممالک کے اوج کمال پر پہنچنے کی وجہ ہی تعلیم و صحت کو دیگر شعبوں پر ترجیح دینا ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں یہ شعبے حکومتوں کی ترجیحاتی فہرست میں سب سے نیچے رہے ہیں۔ اس کا اندازہ ہر سال بجٹ میں مختص رقم سے بہ خوبی ہوجاتا ہے۔ ان شعبوں کے لیے برائے نام بجٹ رکھا جاتا ہے اور اس کا بھی بیشتر حصہ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔



صحت کے شعبے کی صورت حال خاص طور سے دگرگوں ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ملک میں سرکاری اسپتالوں کی تعداد قطعی ناکافی ہے۔ پھر وہاں جانے والوں کو اپنے پیاروں کے علاج معالجے کے لیے جن ذلت آمیز مراحل سے گزرنا پڑتا ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔ گنجائش نہ ہونے کے باعث اسپتالوں کے برآمدوں میں مریض اور ان کے لواحقین بے یارومددگار پڑے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پھر انھیں ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے درشت رویے کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

وفاقی اور صوبائی بجٹ میں، اسپتالوں مریضوں کو دواؤں کی فراہمی کے لیے کروڑوں روپے رکھے جاتے ہیں مگر مریضوں کے اہل خانہ میڈیکل اسٹوروں سے دوائیں خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ادویہ فراہمی کی مد میں رکھی گئی رقم ارباب اختیار کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ برائے نام رقم سے خریدی گئی ادویہ اسپتال کی ڈسپنسری کے بجائے میڈیکل اسٹوروں پر فروخت ہورہی ہوتی ہیں۔

صحت کے شعبے میں کرپشن کا ایک اور پہلو مہنگی ادویہ ہیں۔ پاکستان میں ادویہ ساز کمپنیوں نے کارٹل بنارکھا ہے جو اتنا طاقت وَر ہے کہ جب جی چاہے دواؤں کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں، اور کوئی ان سے بازپُرس کرنے والا نہیں۔ عدالت اس کارٹل کے خلاف کوئی فیصلہ دے تو فوراً حکم امتناعی حاصل کرلیا جاتا ہے اور پھرکیس شیطان کی آنت کی طرح طویل ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس دوران قیمتوں میں گاہے بگاہے اضافے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

مہنگی دواؤں کے علاوہ ادویہ کی بلیک مارکیٹنگ ایک اور تکلیف دہ پہلو ہے۔ موسمی امراض کی وجہ سے جس دوا کی طلب میں اضافہ ہونے لگے اس کی مصنوعی قلت پیدا کردی جاتی ہے۔ پھر وہی دوا کئی گنا زائد قیمت پر بیچی جاتی ہے۔

گزشتہ دورحکومت میں حکمرانوں کی جانب سے بارہا دعوے کیے گئے کہ انھوں نے ملک میں عالمی معیار کے اسپتال قائم کردیے ہیں جہاں مریضوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں دستیاب ہوں گی مگر ان ' عالمی معیار' کے اسپتالوں میں وہ اپنا علاج کروانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ انھیں چھینک بھی آئے تو علاج کے لیے لندن اور واشنگٹن کا رُخ کرتے ہیں۔

عوام کے غم میں' گُھلنے' والے سیاسی رہنماؤں کو کیا پتا کہ غربت کی چکی میں پستے لوگ اپنے لخت جگر، اپنے پیاروں کے علاج معالجے کے لیے سرکاری اسپتالوں میں کس قدر ذلت، تکالیف اور مصائب اٹھاتے ہیں۔ جب تک پاکستان کے عوام کو مخلص اور ہمدرد حکمران میسر نہیں آئیں گے کرپشن کے دریا بہتے رہیں گے اور عدالتوں میں بدعنوانی کے مقدمات سُنے جاتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں