چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
ارب پتی پارلیمنٹیرین میں سے کسی نے بھی آج تک ہاتھ اٹھا کر یہ نہیں کہا کہ میرے پاس بہت کچھ ہے۔
گزشتہ دنوں وفاقی پارلیمنٹ کی چھٹی ہوگئی۔ پانچ برسوں میں کیا کیا،کیا لیا اورکیا دیا پرکچھ بات ہوجائے ۔ رخصتی سے قبل ایک فیصلہ ایسا کرگئے جس کا مکمل طور پر تعلق، ان کے اپنے ذات سے تعلق ہے، عوام کا اس سے کوئی سروکار نہیں ۔ فیصلہ یہ تھا کہ پارلیمنٹرین کو ساری زندگی پنشن ملے گی، بشمول خاندان کے علاج معالجے کی سہولت میسر ہوگی۔
ائیرکنڈیشن سیلون میں ٹرین کا سفر مفت ، سال میں ہوائی جہازکے 22 ٹکٹ مفت وغیرہ وغیرہ ۔اہم بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں جب بھی کوئی تجویز پیش ہوئی ہے توکچھ حمایت کرتے ہیں توکچھ لوگ مخالفت کرتے ہیں ، لیکن اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں اضافہ اور سہولیات پرکوئی اختلاف نہیں ہوتا ۔ ارب پتی پارلیمنٹیرین میں سے کسی نے بھی آج تک ہاتھ اٹھا کر یہ نہیں کہا کہ میرے پاس بہت کچھ ہے، مجھے تنخواہ اور مراعات نہیں چاہیے ۔
ہماری پارلیمنٹ میں جن کے پاس کم اثاثے ہیں یا بتائے گئے ہیں وہ بھی بس میں سفرکرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ ٹانگیں سیدھی کرنے کے لیے،کبھی کبھار عوام سے داد حاصل کرنے کے لیے سائیکل یا موٹر سائیکل پر سوار ہوجاتے ہیں ۔ بے ملکیت ، بے زمین اور بے گھر ایسا کوئی اسمبلی، سینیٹ یاصوبائی اسمبلی کا رکن نہیں ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اسمبلی ارکان کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں تو انھیں تنخواہیں لینے کی کیا ضرورت پڑی ہے، تنخواہیں تو چند لاکھ کی ہوگی جب کہ ان کا روزکا خرچہ لاکھوں میں ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بورژوا (سرمایہ دار) سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کوئی کام کاج نہیں کرتے، پھر ان کا گذارا کیسے ہوتا ہے ۔ کیا کوئی ایسا بورژوا سیاسی رہنما پاکستان میں ہے جو نوکری کرتا ہو، کھیت میں ہل چلاتا ہو، لکھنے کا کام کرتا ہو یا چوبیس گھنٹے میں چار چھے گھنٹے کی محنت مشقت کرتا ہو(خواہ جسمانی ہو یا ذہنی) جواب نفی میں ملے گا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پیداوار میں ان کا حصہ ہی نہ ہو تو یہ پیداواری قوتوں یعنی مزدوروں کسانوں کوکیونکر فائدہ پہنچاسکتے ہیں ۔
دنیا میں ایسے بے شمار پارلیمنٹرین محنت مزدوری کرتے ہیں ۔ جو انقلابی اورکمیونسٹ ہیں ۔ جیسا کہ چی گویرا، ہوچی منہ، لیزوان ، ماؤژے تنگ ، جیولیس فیوچک ،گرامچی، فیڈل کاسترو، ہوگو شاویز وغیرہ نمایاں ہیں ، جو مزدوروں اورکسا نوں کی قدر زائد کو لوٹ کر ارب پتی اورکھرب پتی بنتے ہیں وہ کیونکر محنت مزدوری کریں ۔ سرمایہ دارانہ سیاسی جماعتیں سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور صاحب جائیداد طبقات کے تحفظ کے لیے سیاست کرتے ہیں اور اسمبلی میں پہنچتے ہیں ۔
ان سے توقع رکھنا کہ وہ عام شہری اور پیداواری قوتوں کے مفادات کی تحفظ کریں گے یہ ایک غیر سائنسی اور احمقا نہ توقعات ہیں ۔ جی ہاں ، بعض سرمایہ دار دانشور سوئٹزرلینڈ کو جنت نظیر اور مثالی سرمایہ دارانہ ریاست کے طور پرگردانتے ہیں ، جب کہ دنیا بھر کے چور، لٹیرے اور ڈاکو جو اپنے ملکوں سے کھربوں ڈالر لوٹ کر سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں جمع کرتے ہیں، ان کا رکھوالا سوئیٹزر لینڈ ہے۔ سوئیٹززر لینڈ خود طبقاتی خلیج کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔سوئیٹزر لینڈ کی 50 فیصد دولت کے مالک ایک فیصد لوگ ہیں جب کہ باقی50 فیصد دولت کے مالک 99 فیصد لوگ ہیں ۔ یہ جنت نظیرکی اصلی شکل ہے ۔ ہمارے ملک میں تو انھیں مراعات، سہولت اور حق دینے کی ضرورت ہے جو فاقہ کشی اور نیم فاقہ کشی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔
مثال کے طور پر حکومت نے (وفاقی اور ساری صوبائی ) اعلان کیا ہے کہ ایک غیر ہنر مند مزدورکی کم ازکم تنخواہ15000اور اب 16000 روپے ہوگئی جب کہ 90 فیصد مزدوروں،کھیت مزدوروں،کسا نوں، چرواہوں، مچھیروں، باغ بانوں ، کارکن اور دیگر پیداواری قوتوں کو نہیں دی جا تی ہے۔ ان سب سے زیادہ استحصال زدہ بھٹہ مزدور،کھیت مزدور،کان کنان، پاور لومزکے مزدور، ٹیکسٹائل کے مزدور، ہوزری اورگارمنٹ کے مزدور، صابن اور شیشہ بنانے والے مزدور،سیکیورٹی مزدور، پیٹرول پمپ پرکام کرنے والے،گوڈاؤون اور شاپز پرکام کرنے والے مزدور ہیں ۔ انھیں 15000ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملنا تو درکنار ، یہ آئی ایل او کے طے شدہ فیصلوں کی سہولتوں سے بھی محروم ہیں ۔
کبھی شپ یارڈ ،کبھی علی انٹر پرائز میں جلا کر ماردیے جا تے ہیں، کبھی مچھلی پکڑتے ہوئے پانی میں ڈوب کر مرجاتے ہیں توکبھی یہ مچھیرے پاکستان ، ہندوستان اور ایران کے جیلوں میں زندگی گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔1886 میں شکاگوکے مزدورووں نے عظیم قربانیاں دیکر 8گھنٹے کی ڈیوٹی کروائی تھی جوکہ پاکستان کے 90 فیصد مزدوروں پر لاگو نہیں ہوتی، انھیں 10اور12 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے اورتنخواہ 8 ہزار روپے سے 10ہزار روپے ہے ۔
چونکہ اسمبلی ممبران ارب پتی ہیںِِ،انھیں جو سہولتیں ٖفراہم کی گئی ہیں یہ عیاشیوں کے لیے ہے نہ کہ ضرویات زندگی کے لیے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ جو بھوک، افلاس، غربت، لا علاجی، بے گھر اور بیروزگاری سے تڑپ رہے ہیں، انھیں یہ سب سہولتیں مہیا کی جاتیں ۔ اس ملک میں روزانہ درجنوں افراد عدم ادویات ، غذائی قلت اور پانی کی قلت کی وجہ سے خاص کر تھر، چولستان اور بلوچستان میں مر رہے ہیں، ان کی بحالی اور زندگی کو دوام دینے کے لیے یہ رقم خرچ کیے جانے کی ضرورت ہے۔
تھر پارکر، نگر پارکرر ، اسلام کوٹ اور مٹھی میں لوگ پانی کی عدم دستیابی کی و جہ سے جان سے جارہے ہیں جب کہ اسی علاقے میں دنیا کی بڑی کوئلے کی کان دریافت ہوئی ہے۔ تھری عوام اور کان کنان بھوک سے مر رہے ہیں تو دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنی، ٹھیکیدار، حکمران اور وڈیرے دولت کا انبار جمع کرتے جا رہے ہیں ۔ ہرچندکہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ہی ممکن ہے جہاں دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہونگے۔ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا۔ یعنی دنیا ایک ہوجائے گی،چہار طرف خوشحالی اور محبتوں کے پھول کھلیں گے۔