رمضان اور نمود و نمائش
اس ماہ کو تو زیادہ سادگی اور زیادہ عبادت میں بسر کرنا ہی اس کی رحمت و برکت کے حصول کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔
گزشتہ ماہ ایک ماہنامہ (رسالے) میں استقبال رمضان المبارک پر مضامین ، فیچر، سروے، انٹرویوز شایع ہوئے جن کا مطالعہ کرتے ہوئے احساس ہوا کہ ہر شخص اس ماہ مبارک کو برکت، رحمت اور مغفرت کے علاوہ خوشنودی کے حصول کا مہینہ صدق دل سے مانتا ہے، مگر یہ احساس بھی ہوا کہ دراصل ہم ان میں سے کسی بھی امر کی روح سے شاید ابھی تک ناواقف ہیں۔
ہم میں سے اکثر کو اندازہ ہی نہیں برکت، رحمت و مغفرت تو عطیہ خداوندی ہے مگر خوشنودی رب کا حصول کس طرح ممکن ہے اور یہ کہ آخر اس ماہ مبارک کی اللہ تعالیٰ اور دین اسلام میں کیا غرض و غایت ہے۔
لکھنے اور کہنے کو تو ہم بہت کچھ لکھتے اور کہتے رہتے ہیں، ہر ادارہ صدقے، خیرات اور زکوٰۃ کے حصول کے لیے بڑے بڑے اشتہارات شایع اور نشر کراتا ہے اور ہر شخص دل کھول کر خدمت خلق اور بہبود انسانی کے لیے بڑھ چڑھ کر خطیر رقم کے عطیات دیتا ہے جس میں سفید پوش طبقہ بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر حصہ لیتا ہے نیت ان کی خلق خدا کے کام آنے اور اپنے رب کی رضا کا حصول ہی ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس ماہ میں راہ خدا میں دی گئی رقم سے بہت سے انسانی بھلائی کے کام ممکن ہوجاتے ہیں، مگر گزشتہ دنوں ایک تحریر نظر سے گزری اور اس کے بارے میں بچپن سے سنتے بھی آئے ہیں کہ یہ نیک کام کے لیے دی گئی رقم بطور خاص زکوٰۃ کے بارے میں یہ تسلی ضرور کرلی جائے کہ یہ واقعی درست جگہ خرچ کی گئی ہے یا نہیں۔
اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ نے ہر نیکی کا اجر ستر گنا (لامحدود) بڑھا کر دینے کا وعدہ فرمایا ہے آخر کیوں؟ جب کہ ہر انسان پر تمام عمر امربالمعروف اور نہی المنکر کو بھی فرض قرار دیا ہے، اگر اس زاویے سے غور و فکر کیا جائے تو اس ماہ مبارک کے احکامات و عبادات کا مفہوم بے حد وسیع اور بڑی حد تک واضع بھی ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مہینے میں ہم سے کیا چاہتا ہے اور کیا توقعات اس کے پیش نظر ہیں۔ یوں بھی دین اسلام دین وسط ہے اس دین میں افراط و تفریط دونوں سے بچنے کی تاکید ہے۔اب آتے ہیں رمضان المبارک کے روحانی پہلو کی طرف فرمایا گیا ہے کہ ''اے ایمان والو! تم پر رمضان کے روزے فرض کیے گئے ہیں ۔
جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے۔'' اس فرمان خداوندی میں مسلمان یا ایمان والوں کے کسی خاص طبقے کو مخاطب نہیں کیا گیا کہ اے دولت مندوں، اے صاحبان اقتدار و حکومت یا صنعتکار یا جاگیرداروں کو بطور خاص مخاطب فرمایا گیا جو بلکہ تمام ایمان والوں سے ارشاد ہو رہا ہے جن میں امیر و غریب سب شامل ہیں۔ جب کہ ہمارے یہاں بڑے جید علما کی جانب سے اس کی وضاحت یہ کی جاتی ہے کہ روزہ رکھنے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسے نادار افراد جن کو پیٹ بھر کر کھانے کو یا پیاس بجھانے کو پانی میسر نہیں ان کی جانب متوجہ کرنے کے لیے روزہ رکھ کر یہ احساس پیدا کرتا ہے۔
مگر روزہ صرف ان لوگوں پر فرض نہیں جو عمر بھر اچھا کھاتے پیتے ہیں ایک وقت میں کئی اقسام کے کھانے کھاتے ہیں بلکہ روزہ تو ہر اس شخص پر جو بیمار، کمزور، ضعیف ہو یا جس کو روزہ رکھنے سے کسی قسم کا طبی نقصان ہو سکتاہو کے علاوہ فرض ہیں اس میں امیر و غریب کی کوئی تخصیص نہیں یعنی جو عام دنوں میں بھی بمشکل صرف ایک وقت پیٹ بھر سکتا ہو وہ بھی سخت محنت و مشقت کے بعد روزہ تو اس کو بھی رکھنا ہے بلکہ وہ زیادہ خشوع و خضوع سے روزہ رکھتا ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ روزے کی غرض و غایت محض ناداروں کی ناداری کا احساس دلانا نہیں بلکہ ایسے معاشرے کا قیام ہے کہ جس کا نظام مساوات پر مبنی ہو، جہاں دوسروں کا خیال اسی طرح رکھا جاتا ہو جسے انسان خود اپنا رکھتا ہے۔ خیرات، صدقہ و زکوٰۃ کی اہمیت یہ ہے کہ ضرورت مندوں کو باعزت طور پر بنیادی ضروریات مہیا کی جائیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ سفید پوش طبقہ تو واقعی ضرورت مندوں کی مدد اس طرح کرتے ہیں کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے کو پتا بھی نہ چلے مگر جن کو اللہ تعالیٰ نے وسائل سے نوازا ہے وہ اگر چند لاکھ یا کروڑ کا چیک بھی کسی ادارے کو بطور عطیہ دیں تو باقاعدہ تقریب میں اسٹیج پر ادارے کے ذمے دار کو تمام اخبارات کے فوٹو گرافر اور تمام چینلز کے نمایندوں کے سامنے اور اس چند کروڑ سے وہ اس سے کئی گنا اخراجات کی پبلسٹی بھی مفت میں حاصل کرلیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کہا گیا کہ عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔ بات نکلی تھی ایک ماہنامے کے استقبال رمضان کی نگارشات پر اس میں ایک سروے میں دس سے پندرہ ہزار ماہانہ آمدنی والے گھرانوں کی رمضان میں افطار و سحری سے متعلق مشکل صورتحال پر گفتگو کی گئی ہے۔
ان میں سے زیادہ تر افراد نے مہنگائی اور اپنی بے حد محدود آمدنی کے تناظر میں جو کچھ بتایا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صاحبان ثروت کی طرح باہر جاکر افطاری یا سحری کرنے کو بڑی حسرت سے دیکھتے ہوئے اس احساس میں مبتلا ہیں کہ ان کے بچے تو گھر کی روٹی سبزی وغیرہ سے سحری اور گھر پر تیار کیے گئے پکوڑوں، آلو چنے کی چاٹ، سموسے اور رولز اور روح افزا یا پھر سادہ ٹھنڈے پانی سے افطار کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک دو گھرانے کی خواتین نے اس فہرست میں پھلوں کی چاٹ، جلیبیاں اور کبھی کبھی بازار کے قیمہ بھرے سموسے بھی شامل کیے ہیں، اتنے سب کے باوجود ہر بات سے حسرت ٹپک رہی ہے کہ وہ کچھ زیادہ لوازمات سحر و افطاری کے لیے اپنے گھر والوں کو مہیا نہیں کرسکتے۔
تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی افطار پارٹی میں بھی بڑا اہتمام کرتی ہیں اور اس میں معززین شہر کے علاوہ مذہبی شخصیات بھی شرکت کرتی ہیں، مگر ان مذہبی شخصیات کی جانب سے بھی کبھی یہ بیان سامنے نہیں آتا کہ روزہ تو ایک چٹکی نمک اور ایک گلاس سادہ پانی سے بھی افطار کیا جاسکتا ہے یا ایک کھجور سے بلکہ اور شعبہ زندگی کی طرح ان افطار پارٹیوں میں بھی ایک دوسرے سے آگے نکلنے پر زیادہ زور ہے۔
ایک روایت جو آج کل (گزشتہ چند عشروں سے) سڑکوں پر ہزاروں کی موٹر سائیکل سوار اور کروڑوں کے کار سوار اور بسوں میں ٹھنسے ہوئے لوگوں کو روزہ افطار کرانے کی شروع ہوئی ہے ان میں مشروبات پلائے کم اور ضایع زیادہ کیے جاتے ہیں۔ اس صورتحال کی بنیاد روزہ دار کا روزہ کھلوانے کے ثواب کو بنایا گیا ہے یہ سوچے بنا کہ وہ روزہ دار جو افطار کے لیے کچھ بھی پاس نہ رکھتا ہو نہ کہ وہ روزہ دار جن کو اس لیے گھر جانے کی جلدی ہوتی ہے کہ گھر کی میز کی طرح کے مشروبات اور کئی طرح کی دیگر اشیا سے لدی ہوئی ان کی منتظر ہوں گی۔ یہ مہینہ عبادات کا بطور خاص مہینہ ہے۔
اس میں تلاوت قرآن کا ثواب دوسرے مہینوں سے کئی گنا زیادہ ہے گھر کی خواتین روزہ رکھتی ہیں اور جلدی جلدی نماز پڑھ کر شام چار بجے سے افطاری بنانے میں مصروف ہوجاتی ہیں اور ہر روز نت نئے پکوان بناکر گھر والوں سے داد حاصل کرتی ہیں۔ اگر وہ اپنا زیادہ وقت تلاوت و عبادت میں بسر کریں تو کتنا کچھ زاد آخرت جمع کرسکتی ہیں۔ کھانا تو پورے سال کھایا جاتا ہے۔
اس ماہ کو تو زیادہ سادگی اور زیادہ عبادت میں بسر کرنا ہی اس کی رحمت و برکت کے حصول کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عبادات کو بھی نمود و نمائش اور دوسروں سے مقابلے کے لیے استعمال کے باعث ہم بحیثیت قوم اس ماہ کی برکت و رحمت سے محروم ہی رہ جاتے ہیں۔اس سلسلے میں زیادہ ذمے داری ہمارے علمائے کرام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو سادگی کی طرف متوجہ کریں اور بتائیں کہ اس ماہ میں کم سے کم اخراجات کیے جائیں نہ کہ گیارہ ماہ سے زیادہ کا بجٹ صرف رمضان کا ہو۔ دوسری بڑی ذمے داری ذرایع ابلاغ خصوصاً برقی ذرایع پر عائد ہوتی ہے کہ وہ رمضان کے پروگراموں سے لوگوں کو دینی آگاہی، شرعی معلومات اور سیرت و سنت نبویؐ کے ساتھ اخراجات میں کمی اور سادگی کو خاص کر موضوع بنائیں، مگر ہم نے تو زیادہ کھانے کے مقابلوں کو مقصد رمضان قرار دے رہا ہے۔