جو جیب کو گرما دے

ہر روز کتنی ہی بے قاعدگی سے بجلی آئے لیکن بجلی کا ماہانہ بل بڑی باقاعدگی سے آتا ہے


Shehla Aijaz April 26, 2013

حکمرانی کی کرسی ہی نرالی ہے ۔ اچھے بھلے انسان اس پر بیٹھتے ہی نجانے کیوں ایسی ایسی حرکات سر انجام دے جاتے ہیں جن کا ان کے کردار سے دور پرے کا بھی واسطہ نہیں ہوتا، اب نگراں حکومت کو ہی لیجیے، اس حکومت کے آنے کے لیے بڑے تانے بننے پڑے تب کہیں جاکر یہ بیٹھی، اب دیکھیے اوپر والا کب تک انھیں بٹھاتا ہے ورنہ تو وہی بٹھانے والا اور اٹھانے والا ہے، بھلا بندے کی بھی اوقات ہے، خود ہی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں۔

آرڈر پر آرڈر چل رہے ہیں اسے بٹھاؤ، اسے اٹھاؤ، اسے کیوں بٹھادیا ہے، میرا تو اس اٹھک بیٹھک کا صفر بھی تجربہ نہیں ہے لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک دن کی بادشاہت کسی بھی بھائی بندے کو ملے گی تو وہ انکار نہیں کرے گا کیونکہ کہتے ہیں ناں کہ گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے، تو درست ہی ہے کیونکہ اس دور میں اب ہمارے جیسے سادہ و شریف ہی گیدڑ کہلائے جاتے ہیں۔

نگراں حکومت پر اب اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ ایک اہم مسئلہ بجلی کی کمی۔۔۔۔ ویسے تو ہمارے یہاں سیاستدانوں کی زبانوں میں خیر سے ہزار ہزار وولٹ کی بجلی دوڑتی ہے جو نیوز چینلز کو چلانے کے لیے کافی ہے، لیکن اتنے تھوڑے سے دنوں میں ہی اس بجلی نے ایسے کھیل کھیلے کہ خدا کی پناہ، حالانکہ ہمارے معزز نگراں وزیراعظم نے تو آتے ہی اربوں روپے اسی ضرورت کے تحت دینے کا اعلان کیا تھا تو لوگوں کے دلوں میں سکون اتر آیا تھا کہ پچھلی حکومت عوام پر پیسہ خرچ کرنے سے جی چراتی تھی، دیکھا نئے نگراں وزیراعظم کو آتے ہی کتنی فیاضی سے بجلی کی آسانی کے لیے خزانے کا منہ کھول دیا لیکن پھر کیا ہوا، منہ تو کھل گیا لیکن اس سے صرف ہوا ہی خارج ہوتی رہی یعنی رہی سہی بجلی نے تھوڑی بہت شرارت سے بھی توبہ کرلی اور بات اب محض اس کے سانس لینے کی حد تک رہ گئی۔

تجارتی و صنعتی ادارے ویسے ہی پریشان تھے لیکن صنعتی اداروں کی تو قسمت ہی پھوٹ گئی اور بلبلا کر بول ہی اٹھے کہ اتنے سال جیسے بھی گزرے پر اس سال تو لگتا ہے کہ گزرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ یعنی پچھلے پانچ برسوں میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ اتنی حد تک نہیں ہوئی جتنی نگراں حکومت کے دور میں ہوئی اور اب احتجاج اور دھرنوں کا شور بھی ابھر رہا ہے اور گھریلو صارفین کا کیا حال ہے نہ پوچھیے۔

ہر روز کتنی ہی بے قاعدگی سے بجلی آئے لیکن بجلی کا ماہانہ بل بڑی باقاعدگی سے آتا ہے، جن اچھے اچھے صارفین کے بلوں پر ایک پیلے سے رنگ کا ستارہ بنا ہوا ہو خدارا اسے فیملی پلاننگ کا اشتہار نہ سمجھا کریں وہ تو بجلی کے محکمے کا شکریہ ہوتا ہے کہ آپ کتنے معصوم ہیں ہماری لاکھ شرارتوں کے باوجود آپ ہر مہینے یہ بل جو کبھی کبھی آپ کو بلبلا بھی دیتا ہے باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی کہیں یہ بھی تحریر ہوتا ہے کہ بجلی چوری کرنیوالوں کی نشاندہی کریں اور اپنا قومی فرض ادا کریں، ساتھ ساتھ ٹی وی پر اشتہارات بھی چلتے رہتے ہیں کہ بجلی چوری کرنیوالوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔

ظاہر ہے عوام کا حشر تو برا ہی دکھانا ہے ویسے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ کیونکہ الیکشن نزدیک ہیں لہٰذا ٹی وی پر اس قسم کے اشتہارات بھی دکھانے چاہئیں کہ اگر ان منتخب امیدواران نے الیکشن جیت کر کام نہ کیے اور صرف دام ہی دام وصول کرنے کا پروگرام ہے تو ان کا کیا حشر ہوگا؟ لیکن نہیں سارا نزلہ تو عوام پر ہی گرتا ہے۔ خیر بات ہورہی تھی بجلی کی چوری کی نشاندہی کرنیوالوں اور چوری کرنے والوں کے حشر کی، تو جناب! نگراں حکومت کے انداز دیکھ کر یا خالی میدان جان کر اب ہمارے قومی ادارے بھی پھیل گئے، ان ہی اشتہارات سے متاثر ہوکر ہمارے ایک جاننے والے صاحب میں جذبہ حب الوطنی جاگ اٹھا اور انھوں نے اپنی قومی ذمے داری کو نبھانے کی کوشش کی۔

دراصل انھوں نے کسی کو بجلی چوری میں ملوث دیکھا تو نمبر گھما ڈالا، دوسری جانب سے جواب ملتا ہے کہ کارروائی پندرہ بیس دنوں میں ہوتی ہے اب چاہے بجلی چوری کرنے والا پندرہ بیس دن ہی چوری کرتا ہو پھر یہ کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ بجلی کیسے چوری کرتے ہیں، کہاں سے تار لے رکھا ہے؟ اور ساتھ میں اور بھی سوالات جس سے محب وطن شہری کے اپنے دماغ کے سارے بلب روشن ہوگئے۔ تو یہ ہے کرامت بجلی کے محکمے کی، ویسے اس اہم قومی فریضے کو انجام دینے کے بعد تو ان صاحب نے توبہ کرلی کیونکہ توبہ کروانے والوں کا انداز ہی ایسا تھا، اب بھلا بتائیے کہ جب ایک ادارے کا یہ حال ہے کہ ہم نے تو آنکھیں بند کر رکھی ہیں سرکار! آپ بھی ذرا چین کی نیند سوجائیے۔۔۔۔!

سارا الزام بجلی کے محکمے کو دینا کچھ ٹھیک نہیں، ذرا اور اداروں کی جانب نگاہ ڈالیے، سب لنکا میں باون گز کے ہیں، صفائی ستھرائی کے انتظامات دیکھ لیں، حال ہی میں ایک بڑا سا ٹرالر دیکھا جس پر ایک بینر لگا تھا ''صفائی مہم کا آغاز '' جس ٹرالر پر یہ بینر چسپاں تھا اس سے پھدک پھدک کر کچرے کے ساتھی دوست بڑی سی سڑک پر اپنی رونمائی کرواتے جارہے تھے۔ پاسپورٹ کے حوالے سے اتنا کچھ لکھا اور بولا جاچکا ہے کہ نہ پوچھیے لیکن کچھ حاصل نہیں، ذرا پاسپورٹ آفس(کراچی) جاکر تو دیکھیے۔

آخر عوام سے ٹیکس کس مد میں اور کیوں وصول کیا جاتا ہے؟ سب سے برا حشر خواتین کا ہوتا ہے، پرانے پاسپورٹ کی تاریخ اجرا بڑھوانے کے لیے پہلے دو مرکز تھے لیکن اب ایک پر ہی اکتفا کیا گیا، پہلے ڈسٹرکٹ کے حوالے سے کام الگ الگ ہورہا تھا عوام کو ذرا سہولت تھی لیکن تمام ڈسٹرکٹ ایک ساتھ ہی بھگتائے جارہے ہیں، اس قسم کے پاسپورٹ کے لیے کن کاغذات کی ضرورت ہے کہیں بھی تحریر نہیں انفارمیشن کے حوالے سے دو آدمی بٹھا کر بات ختم کردی گئی، ویسے ان پر خدا ہی کرم کرے۔ ایک ہی بات وہ ہر دوسرے آدمی سے دہراتے ہیں، ذاتی طور پر مجھے خود اس عمل سے گزرنے کا اتفاق ہوا۔

خواتین جو بے چاری اپنے گھروں کے دھندے چھوڑ کر بھوکی پیاسی، دھوپ میں لمبی قطاروں میں لگی تھیں انفارمیشن نہ ہونے کے باعث بار بار کاغذات کو مکمل کرانے کی غرض سے قطار سے نکلتیں اور پھر نئے سرے سے قطار میں لگتیں۔ کاش! کہ ہمارے ادارے اپنی ذمے داریاں پہچان لیں۔ نگراں حکومت تو آئی ہی جانے کے لیے ہے لیکن جو ادارے پچھلے پانچ برسوں سے زیادہ مدت سے کام کر رہے ہیں کیا وہ بھی نگراں حکومت کی چال دیکھ کر اپنی چال بھول گئے؟ (ویسے ان کی اپنی چال بھی کبھی ٹھیک نہ تھی)۔

چال سے یاد آیا ہمارے بہت سے معزز صحافی حضرات کے مطابق بھی کچھ چال ڈھال کی افواہیں گردش میں ہیں اور موضوع ہے ''جیبیں گرم کرنا'' حالانکہ اتنا شدید گرم موسم ہے اور پچھلے پانچ برسوں میں بھی موسم گرم ہی رہا۔ علامہ اقبال کا ایک شعر تضمین کے ساتھ بہت یاد آرہا ہے:

یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے

جو روح کو تڑپا دے جو 'جیب' کو گرما دے

یہ شعر کس قدر موزوں ہے یہ تو اہل قلم ہی جان سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں