سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کو بچا لیا
ہمارے لیے ملک اہم ہے، آیندہ فیصلے پُرشوق امیدواروں کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوں گے۔
ہماری پارلیمنٹ کبھی عوام کی فلاح و بہبود اور سلامتی سے متعلق امور پر اتفاق رائے تک نہیں پہنچ پاتی۔ یہ یکجہتی عام طور پر اسی وقت نظر آتی ہے جب ارکان کے پیش نظر اپنے مفادات ہوں، مثلاً اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا معاملہ ہو تو سب متفق ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ برس اکتوبر میں تمام پارلیمانی جماعتوں نے آیندہ عام انتخابات کے لیے مل جل کر کاغذاتِ نامزدگی سے امیدوار کے متعلق معلومات کے 19خانے حذف کردیے، جن میں تعلیم، قریبی رشتے داروں، پیشے، مالیات، کل اثاثے اور قرضوں، نادہندگی، ٹیکس ریٹرن، ٹیکس چوری، فوجداری مقدمات اور کاروباری مفادات وغیرہ جیسی کلیدی معلومات فراہم کرنا ضروری تھیں۔ اگر کسی کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہ ہو تو اسے اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں درست معلومات فراہم کرنے سے کیا خدشہ روکتا ہے؟
گزشتہ برس نومبر میں حبیب اکرم نے لاہور ہائیکورٹ میں ان تبدیلیوں کے خلاف درخواست دائر کی۔ یکم جون 2018کو جسٹس عائشہ ملک نے احکامات جاری کیے کہ آئین و قانون کے مطابق امیدوار یا قانون ساز ادارے کے رکن کے لیے مطلوبہ معلومات فراہم کرنا ضروری ہے، اس لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان فوری طور پر تمام ضروری معلومات کے حوالے سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں امیدوار کے فارم الف اور اثاثوں کی تفصیلات کے لیے فارم ''ب'' پر نظر ثانی کرتے ہوئے مطلوبہ معلومات کا حصول یقینی بنائے۔
جسٹس عائشہ ملک کے اس قابل تحسین فیصلے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ موجودہ صورت حال میں امیدوار سے متعلق ووٹر کومکمل معلومات حاصل نہیں ہوں گی جس کا سادہ مفہوم ہے کہ ووٹر امیدوار کے بارے میں اہم اور یقینی معلومات حاصل کیے بغیر اگر ووٹ دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس میں نامکمل معلومات کی وجہ سے سقم ہوگا۔
اپنے گلو خلاصی کے لیے الیکشن کمیشن اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بلا تاخیر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ اس میں جاری کردہ احکامات عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کا باعث بنیں گے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے 3جون کو، اس یقین دہانی کے ساتھ کہ انتخابات بہر صورت 25جولائی کو منعقد ہوں گے، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا، لارجر بینچ میں زیر التوا سماعت کے بعد الیکشن کمیشن نے جاری کردہ انتخابی شیڈول میں ''جزوی تبدیلی'' کردی۔ نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک نے بھی سیاست دانوں کی طرف داری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی ہدایت جاری کی۔
لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل ہونے کے بعد سول سوسائٹی میں بڑے پیمانے پر یہ تشویش محسوس کی گئی کہ قواعد و ضوابط میں پائے جانے والے ان نقائص کے باعث دھونس اور دولت سے ووٹ خریدنے والے جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اس فیصلے کی معطلی کے بعد فوری طور پر اپنا مفہوم آپ واضح کرنے والا ایک پیغام گردش کرنے لگا جس کا کچھ حصہ یہاں نقل کیا جارہا ہے:''ہم فکر مند اور متاثرہ شہری و ووٹر اپنے بنیادی حقوق اور آزادانہ و شفاف انتخابات کے لیے ایک اپیل سپریم کورٹ میں دائر کرنا چاہتے ہیں، اس اپیل کا یہ مقصد ہوگا کہ امیدواروں کی جانب سے 2013کے الیکشن قواعد اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عائشہ ملک کے جاری کردہ حالیہ فیصلے کے مطابق کاغذات نامزدگی میں تمام ضروری معلومات فراہم کرنا لازم قرار دیا جائے۔
معزز جج صاحبہ کا جاری کردہ حکم ہمارے تحفظات کا عکاس ہے کیوں کہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے کی گئی قانونی سازی میں پارلیمنٹ نے حال ہی میں امیدواروں کی مطلوبہ معلومات کے حوالے سے قواعد کو مسخ کیا ہے اور اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام کو امیدوار اور اس کے قریبی رشتے داروں کے ذرایع آمدن سے متعلق بنیادی معلومات جاننے کے حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ عوام کا بنیادی حق ہے کہ وہ جس شخص کو اپنے ووٹ کا مستحق قرار دیں اس کے متعلق انھیں تمام ضروری معلومات بھی حاصل ہوں، مذکورہ تبدیلی نے یہ حق بھی متاثر کیا ہے، جو کہ انتخابات کی شفافیت ہی کا تقاضا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے ہمارا یہ حق بحال ہوا تھا، اس فیصلے کو معطل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں امید ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جائے گا۔ یہ تصحیح انتخابات میں تاخیر کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوگی۔ درخواست فارم میں فوری اصلاح کی ضرورت ہے، اور یہ عمل کسی صورت انتخابی عمل کی بروقت انجام دہی میں رکاوٹ کا جواز نہیں بننا چاہیے۔
تبدیل شدہ درخواست فارمز الیکش کمیشن کی ویب سائٹ پر رکھے جاسکتے ہیں جہاں سے امیدوار اسے بہ آسانی ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں، یہ کسی تاخیر کا باعث نہیں بنے گا۔ بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف یہ واویلا مچایا جارہا ہے کہ اس کی وجہ سے انتخابات موخر ہو سکتے ہیں، یہ جماعتیں دراصل اپنے مشتبہ کردار کے حامل امیدواروں کے تحفظ کے لیے اس آڑ میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہیں۔''
پاکستان کو درپیش انتہائی سنگین مسائل کے حل اور بدعنوان سیاست دانوں کے احتساب کے لیے چیف جسٹس ثاقب نثار کے فعال کردار اور اقدامات کو عوام میں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی ہے، انھوں نے متعدد مواقع پر پاکستان کے عدالتی نظام کو مستحکم کیا ہے۔ ہماری 70سالہ عدالتی تاریخ میں یہ شفافیت اور قانون کی نظر میں برابری کے حوالے سے انتہائی منفرد دورہے، چیف جسٹس نے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو بدعنوان عناصر کا تعاقب کرنے کے لیے کھلا میدان دیا ہے۔
ہمارے لیے ملک اہم ہے، آیندہ فیصلے پُرشوق امیدواروں کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوں گے۔ اگلے پانچ دنوں میں سپریم کورٹ قواعد کے وہ تمام سقم دور کردے گی جن کے ذریعے مجرموں، ٹیکس چوروں، قرض خوروں اور دوہری شہرت رکھنے والوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے ، اور قاتلوں، بھتہ خوروں، اسمگلروں اور حتیٰ کے گھناؤنے جرائم میں ملوث افراد کو پارلیمان میں داخلے کے لیے چور دروازہ فراہم کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے مزید دوراندیشی کا مظاہرہ کیا گیا اور پارلیمنٹ کے تبدیل شدہ فارم کو قابل استعمال قرار دیتے ہوئے ساتھ میں حذف شدہ معلومات سے متعلق ایک ''بیان حلفی'' جمع کروانا ہر امیدوار پر لازم کردیا گیا ہے۔ یہ حلف نامہ جمع نہیں کروایا گیا تو کاغذات نامزدگی مسترد ہوجائیں گے اور اسی طرح حلف نامے میں کوئی مطلوبہ معلومات شامل نہیں کی گئی تو اسے غلط بیانی تصور کیا جائے گا۔
یہ ''ڈیکلیریشن'' فارم سے زیادہ جامع ہے۔ کیا اب آصف علی زرداری(ان کے دوست اور سیاست میں ان کے متعلقین) کاغذات نامزدگی جمع کروائیں گے؟ کیا وہ غیر قانونی ذرایع سے حاصل کردہ دولت کے انبار ظاہر کرنے کا خطرہ مول لینے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ وقت کا دامن تنگ ہے، اس لیے راقم کے ''سکسٹی پلس نائنٹی فارمولا'' پر غور کیا جانا چاہیے، جس میں انتخابات کے ساٹھ دنوں بعد نوّے دن کی مدت میں منتخب امیدواروں کا احتساب مکمل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
ہمارے ارکانِ پارلیمان چاہتے ہیں کہ کسی کڑی نگرانی کے بغیر انھیں الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے اور ان کی دولت اور اثاثوں کے بارے میں بھی کسی کو خبر نہ ہو، جیسا نواز شریف کے معاملے میں ہوا۔ شکر کا مقام ہے کہ چیف جسٹس اور ان کے ساتھی جج صاحبان کو محض قانون نہیں بلکہ اس میں پوشیدہ حکمت اور اصل روح کا نفاذ بھی مطلوب ہے۔ پاناما گیٹ سے ہمارے سیاست دانوں کی کرپشن عیاں ہوگئی۔ اگر پارلیمنٹ میں داخلے کے خواہش مند امیدواروں کی کڑی نگرانی نہیں کی گئی تو پارلیمنٹ ''گینگسٹرز کی جنت'' بن جائے گی، سپریم کورٹ نے ہمیں کم از کم اس سے بچالیا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)