فلمی دنیا کی تاریخ ساز شخصیت ولی صاحب
فلمی دنیا کی سدا بہار شخصیت کہلاتے تھے، یہ ہمہ وقت فلمی دنیا کی ترقی کے خواہاں رہتے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب نئی نئی گراموفون کمپنیاں منظر عام پر آئی تھیں اور گراموفون ریکارڈ گھرگھر بجا کرتے تھے۔ بعض فلموں کے ریکارڈز ان کی ریلیز سے پہلے مارکیٹ میں آجاتے تھے اور فلموں کی کامیابی میں معاون ثابت ہوتے تھے، کبھی کسی فلم کا ایک گیت گرامو فون کمپنی کے ذریعے مارکیٹ میں آتا اور وہ اتنا مقبول ہوجاتا تھا کہ ایک گیت کی مقبولیت فلم کے لیے کامیابی کی ضمانت بن جاتی تھی۔اس دور میں سارے برصغیر میں بھجن، قوالیوں اور نعتوں کے ریکارڈز بھی خوب فروخت ہوا کرتے تھے، اسی زمانے میں ایک نعت بڑی مقبول ہوئی تھی یہ 1932ء کی بات ہے۔
مشہور شاعر ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی خان جو بعد میں بمبئی فلم انڈسٹری میں ولی صاحب کے نام سے بحیثیت ہدایتکار بڑے مشہور ہوئے تھے ان دنوں وہ لاہور میں ایک گراموفون کمپنی سے ایک شاعرکی حیثیت سے وابستہ تھے اور لاہور ریڈیو کے لیے بھی لکھتے تھے۔
ماسٹر غلام حیدر موسیقار کے طور پر آل انڈیا ریڈیو کے لیے بھی کام کرتے تھے اورگراموفون کمپنی کے لیے دھنیں کمپوزکیا کرتے تھے اسی دوران انھوں نے شاعر ولی صاحب کی ایک نعت گراموفون کمپنی کے لیے ریکارڈ کی جب وہ ریلیز ہوئی تو اسے بڑی پذیرائی ملی تھی، وہ نعت ریڈیو کی گلوکارہ امراؤ ضیا بیگم نے گائی تھی اور امراؤ بیگم جو اس وقت ریڈیو کی مقبول گلوکارہ تھیں وہ موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی پھر شریک حیات ہوگئی تھیں، نعت کے بول تھے:
میرا سلام لے جا
یثرب کے جانے والے
وہ جان لیں گے سب کچھ
پہچان لیں گے سب کچھ
جا دیر ہو نہ جائے
تقدیر سو نہ جائے
یہ اِک پیام لے جا
میرا سلام لے جا
اس دور میں اس نعت کی شہرت اک سند بن گئی تھی اور آل انڈیا ریڈیو پر پہلی بار ابھرتی نامور گلوکارہ شمشاد بیگم کی شہرت کا آغاز بھی سب سے پہلے ایک نعت ہی سے ہوا تھا، وہ نعت بھی ولی صاحب ہی نے لکھی تھی اور اس کے بول تھے:
پیغام صبا لائی ہے گلزارِ نبیؐ سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبیؐ سے
اور اس نعت نے بھی سارے ہندوستان میں اک دھوم مچا دی تھی اور اس نعت کے بعد شمشاد بیگم کی رسیلی آواز فلموں کی زینت بنتی چلی گئی تھی۔ ولی صاحب بمبئی کی فلم انڈسٹری میں جانے سے پہلے جب لاہور میں ایک طالب علم تھے تو ان کے ساتھیوں میں بعد کے نامور اداکار ایم۔اسمٰعیل مشہور فلمساز و ہدایت کار اے آر کاردار بھی تھے۔
ولی صاحب نے بحیثیت رائٹر اس دور کے نامور ڈرامہ نگار، ہدایت کار و اداکار آغا حشر کی کمپنی میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور جس کو آغا حشر کی تربیت میسر ہوجاتی تھی وہ اپنی کامیابی کی راہیں پھر خود تلاش کرلیا کرتا تھا۔ بمبئی میں جب ولی صاحب کی ملاقات مشہور فلمساز و ہدایت کار روپ کے شوری سے ہوئی تو انھیں ولی صاحب کی فنی صلاحیتوں نے بڑا متاثر کیا اور انھوں نے ولی صاحب کو اپنی پروڈکشن میں شامل کرلیا اور پھر ولی صاحب نے پہلی بار ہدایت کار روپ کے شوری کی فلم ''مجنوں'' کی کہانی مکالمے اورگیت تحریر کیے تھے فلم ''مجنوں'' 1935ء میں ریلیز ہوئی اور اس فلم کو ہندوستان بھر میں بے مثال کامیابی حاصل ہوئی اس فلم میں ولی صاحب کی ایک غزل نے بڑا تہلکہ مچایا تھا جس کا مطلع تھا:
بہت بے ادب ہیں نگاہیں کسی کی
تصور میں لے لیں بلائیں کسی کی
فلم ''مجنوں'' موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی بھی پہلی فلم تھی، ولی صاحب جس طرح اردو کے رائٹر تھے اسی طرح وہ پنجابی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے اور پنجابی میں بھی شاعری کرتے تھے۔ اس دوران دو پنجابی فلمیں بڑی مشہور ہوئی تھیں جن میں ایک کا نام تھا ''پردیسی ڈھولا'' اور دوسری فلم تھی ''گل بکاؤلی'' ان دونوں فلموں کے مصنف اور شاعر ولی صاحب ہی تھے۔اور یہاں میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ فلم ''گل بکاؤلی'' میں ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی میں بے بی نور جہاں (بعد کی ملکہ ترنم نور جہاں) کی آواز میں ایک گیت گوایا تھا۔ جس کے بول تھے:
شالا جوانیاں مانیں اکھاں نہ موڑیں
بے بی نور جہاں نے کمسنی ہی میں موسیقی کا میدان مار لیا تھا۔ پھر ایک اور پنجابی فلم ''یملا جٹ'' میں بھی بے بی نورجہاں کا گایا ہوا ایک اور گیت سپرہٹ ہوا تھا جس کے بول تھے:
پنجرے دے وچ قید جوانی
کنکاں دیاں فصلاں پکیاں
فلم ''یملاجٹ'' کے موسیقار بھی غلام حیدر اور شاعر ولی صاحب تھے۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ولی صاحب کی شہرت بلندیوں کو چھونے لگی تھی۔ وہ جو بھی فلم لکھتے اسے کامرانی و کامیابی نصیب ہوتی چلی گئی اب ولی صاحب خود بطور فلمساز اور ہدایت کار منظر عام پر آگئے تھے اور اس دوران اپنی ذاتی فلم ''سوہنی کمہارن'' کا آغاز کیا تھا اس فلم میں ولی صاحب نے ایک نئی لڑکی ممتاز شانتی کو متعارف کرایا بطور ہیروئن ممتاز شانتی ایک کامیاب ہیروئن قرار دی گئی اور پھر ممتاز شانتی اس دور کی ہر دوسری فلم میں کاسٹ کی جانے لگی تھی اسی دوران ممتاز شانتی ولی صاحب کی زندگی میں شامل ہوگئی تھی۔
''سوہنی کمہارن'' کے بعد فلم ''خزانچی'' نے بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دیے تھے اور پھر بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ہر طرف ولی صاحب بطور ہدایت کار چھاتے چلے گئے۔ ممتاز شانتی ولی صاحب کی زندگی میں بڑی بھاگوان عورت بن کر آئی تھی وہ دور ممتاز شانتی اور ولی صاحب کا ایک شاندار اور کامیاب ترین دور تھا، ولی صاحب اور ممتاز شانتی پر فلموں کی بارش ہونے لگی تھی اس دوران کئی سپرہٹ فلمیں بنائی گئیں جن میں نئی کہانی، دوسری بیوی، منگتی، قسمت اور گھرکی عزت نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ فلم ''قسمت'' میں ممتاز شانتی کے ہیرو اشوک کمار تھے اور فلم ''گھر کی عزت'' میں ہیرو دلیپ کمار تھے اور فلم ''قسمت'' میں ولی صاحب کا لکھا ہوا ایک اور گیت اس دور کا مقبول ترین گیت تھا جس کے بول تھے:
بستر بچھا دیا ہے ترے در کے سامنے
فلم ''بیوی'' میں ولی صاحب کے ایک اور گیت کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی اس گیت کو محمد رفیع نے گایا تھا اور اس کے بول تھے:
اکیلے میں وہ گھبراتے تو ہوں گے
مٹا کے مجھ کو پچھتاتے تو ہوں گے
اس فلم کے موسیقار شرما جی ورماجی تھے جو بعد میں موسیقار خیام اور موسیقار ورما ملک کے نام سے مشہور ہوئے اور فلم انڈسٹری میں اپنا بڑا نام پیدا کیا تھا۔ ولی صاحب لاہور فلم انڈسٹری سے لے کر بمبئی فلم انڈسٹری تک ایک کامیاب ترین رائٹر کے ساتھ ایک کامیاب فلمساز اور ہدایت کارکے طور پر ایک طویل عرصے تک فلمی دنیا میں اپنی شہرت کے ڈنکے بجاتے رہے۔ ولی صاحب کو ایک کریڈٹ یہ بھی جاتا ہے کہ انھوں نے فلم انڈسٹری کو ممتاز شانتی جیسی باصلاحیت ہیروئن دی جب کہ موسیقار خیام، موسیقار رحمان ورما اور موسیقار طفیل فاروقی کو بھی فلمی دنیا سے روشناس کرایا۔ ولی صاحب لاہور کی فلم انڈسٹری میں جب ہندوستان سے واپس آئے تو انھوں نے کئی فلمیں پروڈیوس کیں جن میں پنجابی فلمیں 'لکن مٹی، گڈی گڈا'کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ فلم 'گڈی گڈا' میں ان کا لکھا ہوا ایک گیت زبان زد خاص و عام ہوا جس کا مکھڑا تھا:
نئی ریساں شہر لہور دیاں
اور ایک زمانے میں یہ گیت سارے پنجاب میں گلی گلی گایا جاتا تھا۔ اس گیت کو گلوکارہ منور سلطانہ اور عبدالشکور بیدل نے گایا تھا اس کی موسیقی بابا جی۔اے چشتی نے دی تھی۔ ولی صاحب ایک صاحب طرز ادیب، شاعر، ہدایت کار کے ساتھ فلمی دنیا کے ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی فنی صلاحیتیں بے پناہ تھیں اور فلمی دنیا میں وہ ایک جوہری کی پرکھ رکھتے تھے۔
فلمی دنیا کی سدا بہار شخصیت کہلاتے تھے، یہ ہمہ وقت فلمی دنیا کی ترقی کے خواہاں رہتے تھے انھوں نے فلمی سفر کا آغاز اس طرح کیا کہ کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا تھا جب میں 1975ء میں لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوا تھا تو پتہ چلا تھا کہ وہ شدید بیمار ہیں اور پھر وہ اسی بیماری کی حالت میں 10 اپریل 1977ء کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے تھے فلمی دنیا کو ایسے تاریخ ساز لوگ بہت کم نصیب ہوئے ہیں۔