جدید دنیا کے تعلیمی ادارے اور تعلیمی نصاب
ہمارے طالبعلم سرمایہ دارانہ نظام میں ایک اچھے پرزے کے طورپر توضرورفٹ ہوسکتے ہیں مگر معاشرے کے اچھے انسان نہیں بن سکتے۔
امریکی ریاست ٹیکساس میں شہر ہیوسٹن کے نزدیک سانٹافے ہائی اسکول میں ایک طالبعلم کی فائرنگ سے پاکستانی طالبہ سبیکا عزیز شیخ سمیت دس افراد ہلاک، دس زخمی ہوئے تھے۔ حملہ کرنے والے سترہ سالہ طالب علم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ امریکا کی تاریخ میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، اس سے قبل بھی اس قسم کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔
اپریل 2007 میں 23 سالہ طالبعلم کی ورجینیا ٹیک یونیورسٹی میں فائرنگ سے 7 طلبا اور 5 استاد ہلاک ہوئے۔ دسمبر 2018 کنیکٹی کٹ کے شہر نیو ٹائون میں 20 سالہ شخص نے اپنی ماں کو مار کر ایلیمنٹری اسکول میں فائرنگ کرکے 20 بچے اور 6 دیگر لوگ ہلاک کردیے۔ فروری 2018 میں مارجری اسٹون میں ڈگلس ہائی اسکول کے ایک سابق طالبعلم کی فائرنگ سے 14 طلبا اور تین اسٹاف ممبر ہلاک ہوئے۔ کولوراڈو کے اسکول میں 1999 میں دو طالبعلموں کی فائرنگ سے 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اپریل 2017 میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ایک پرائمری اسکول میں دو قتل ہوئے، اسی طرح 15 دسمبر 2012 کو امریکی اسکول میں فائرنگ سے 20 بچوں سمیت 27 ہلاک ہوئے تھے۔ بی بی سی رپورٹ کے مطابق عوامی مقامات پر اس دہائی میں چار سو لوگ امریکا میں قتل ہوئے، یہ تعداد گزشتہ دہائی سے دگنا ہے۔ 2018 کے آغاز سے 15 مئی تک ایسے 18 واقعات ہوچکے ہیں۔
پاکستانی طالبہ سبیکا عزیز شیخ کے واقعے میں فائرنگ کرنے والے طالب علم کے والد کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا ایسا نہیں تھا، مگر یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے، مختلف واقعات کا تسلسل ہے اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات تعلیمی اداروں میں کیوں ہو رہے ہیں؟ جب کہ ہمارا خیال ہے کہ تعلیم تو انسان کو مہذب اور پرامن بناتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ماضی میں تعلیمی اداروں میں پرتشدد واقعات ہوئے ہیں، مگر ان کی نوعیت طلبا تنظیموں کے مابین جھگڑوں پر مبنی تھی۔
بہرحال ہمارے ہاں بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں، لیکن یہ دینی مدارس میں نہیں ہوا بلکہ سیکولر تعلیمی طرز کے اداروں میں ہوا۔ ہم اگر اپنے ہاں نظم و ضبط کے حوالے سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ دینی مدارس میں بھی ہزاروں کی تعداد میں طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر وہاں کبھی کوئی ایک چھوٹا سا واقعہ بھی رونما نہیں ہوا، حتیٰ کہ جب ہم امتحانات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بڑی حیرت انگیز حقیقت سامنے آتی ہے کہ دینی مدارس میں دوران امتحان طلبا کو نقل سے روکنے کے لیے مدارس کی انتظامیہ کو کوئی خاص انتظام نہیں کرنا پڑتا، طلبا خود ہی ایمانداری سے بغیر نقل کے امتحان دیتے ہیں، جب کہ ہمارے غیر دینی تعلیمی اداروں میں خواہ وہ نجی ہوں یا سرکاری، امتحانات میں نظم وضبط کا معاملہ بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔
نقل روکنے کے لیے پولیس اور بعض اوقات رینجرز تک کو طلب کرلیا جاتا ہے، مگر پھر بھی ذرائع ابلاغ میں نقل ہونے اور پرچہ آئوٹ ہونے کی خبریں آتی ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسلحہ کے زور پر نقل کی جاتی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ دینی مدارس میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، جب کہ ہمارے اور ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی اداروں میں اس قسم کی بدنظمی کھلے عام ہورہی ہے، جس میں انسانی جانوں کا نقصان بھی معمول کی بات بن چکا ہے۔ کہنے کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب سیکولر تعلیمی اداروں کا ہی ہوتا ہے، جب کہ ہم دینی مدارس پر تنقید کرتے ہیں کہ ان کا نصاب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
اگر ہماری یہ بات درست ہے تو پھر کون سا ایسا فرق ہے کہ جس کے سبب دینی مدارس میں دوران امتحان نقل روکنے کے لیے بھی کسی خاص انتظام کی ضرورت نہیں پڑتی اور کوئی طالب علم نقل کرکے قانون کو نہیں توڑتا، جب کہ سیکولر تعلیمی اداروں میں نقل تو دور کی بات، پرامن ماحول کے لیے انتہائی سیکیورٹی کے باوجود طلبا کہیں آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کی جان لے لیتے ہیں تو کہیں امریکا جیسے ملک میں آئے دن فائرنگ کرکے خود ایک طالب علم ہی اپنے ان ساتھیوں کی جان لے لیتا ہے جو اس کے جگری دوست ہوتے ہیں، نیز اپنے ہی اس استاد کو بھی نہیں چھوڑتا جو اسے تعلیم سے آراستہ کرکے ایک اچھا اور کامیاب انسان بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ فرق دراصل اس تعلیمی نصاب اور تربیت کا ہے جس میں مذہب اور اخلاقیات کی کوئی جگہ نہیں ہوتی، بلکہ اس مواد کی جگہ ہوتی ہے جو ایک طالبعلم کو پیسہ کمانے کی غرض سے ایک ایسا کامیاب پرزہ بناتا ہے جو عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی کسی بھی انڈسٹری میں نصب (فٹ) ہوکر پیسہ کمانے میں اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے لوگ بھی ایسا ہی چاہتے ہیں، اسی لیے آج جب بھی کسی مضمون کے نصاب کی بات ہوتی ہے تو عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں تبدیلیاں لاکر اس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، یعنی مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق کیا جائے، مگر ہم نے کبھی سوچا کہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ کیا ہے؟ یہی کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ سرمایہ حاصل کیا جاسکے؟
اب اس تمام چکر میں نصاب سے مذہب ہی نہیں معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کے تمام پہلوئوں کو نکال باہر کیا جاتا ہے۔ یوں تعلیمی اداروں میں موجودہ نصاب میں صرف پیسہ کمانے کی مادہ پرست روح ہی رہ جاتی ہے اور یہی روح طالبعلموں میں اتر جاتی ہے، چنانچہ جب کسی طالب علم میں مذہب اور اخلاقیات سے عاری روح گردش کرے گی تو اس کے اعمال میں بھی کسی قسم کی اخلاقیات کا مظاہر ممکن نہ ہوگا، خاص کر جب ایک طالب علم جذبات کی رو میں بہے گا تب۔ چنانچہ جدید دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی اداروں کے واقعات کے اعدادو شمار اٹھا کر دیکھ لیں، وہاں صرف فائرنگ کے لاتعداد واقعات ہی نہیں ملیں گے بلکہ جنسی تشدد کے بھی بے شمار واقعات ملیں گے۔
یوں دیکھا جائے تو ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کو محض پیسہ کمانے والے طلبا پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک اچھا اور نیک انسان بنانے کے لیے ترتیب دینا چاہیے۔ اپنے تعلیمی نصاب کو اپنے نظریات سے ہم آہنگ رکھنا چاہیے، صرف سرمایہ دارانہ مقاصد اور مادہ پرستی کو ترجیح دینے سے ہمارے طالبعلم سرمایہ دارانہ نظام میں ایک اچھے پرزے کے طور پر تو ضرور فٹ ہوسکتے ہیں مگر معاشرے کے اچھے انسان نہیں بن سکتے اور جب وہ ایک اچھا انسان نہیں بنیں گے تو پھر اسکولوں کی سطح پر بھی فائرنگ اور جنسی تشدد جیسے واقعات بھی ہوں گے، طلبا تنظیمیں لڑتے ہوئے ایک دوسرے کی جان بھی لیں گی اور تعلیمی اداروں میں بھی امن قائم کرنے کے لیے سیکیورٹی فورس کی ضرورت رہے گی۔ ہم کہتے ہیں کہ تعلیم انسان کو ایک اچھا انسان بناتی ہے، مدارس اور سیکولر اداروں کے طلبا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں کیسا تعلیمی نصاب چاہیے، آیئے غور کریں۔