نفاق اور دو رنگے
اس خطرناک دھوکے میں ہماری قوم کئی بار آچکی ہے، کوئی بیٹھ کر دو رنگا ہی ظاہر کرتا ہے، تو کوئی اتر کر۔
KARACHI:
پاکستان رمضان المبارک کے آخری عشرے میں آزاد ہوا تھا، ایک مبارک مہینے کا مقدس ترین عشرہ پاکستان کے نصیب میں لکھ دیا گیا تھا، یہ ہماری قوم کی خوش نصیبی ہے کہ اسی مبارک عشرے میں مسلمانوں اور اقلیتوں نے مل کر قوم پاکستانی کو جنم دیا، اسی مبارک مہینے میں ان دنوں بہت کچھ ہورہا ہے، سیاسی اونچ نیچ اور کرداروں کا ایک میلہ جاری ہے اور اس میلے میں سب بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں، گروپس بنے ہوئے ہیں، جن پر مذہبی، انسانی اور مختلف انداز کے لیبل لگے ہیں، سب نے اپنی اپنی زنبیل میں ایسے ایسے ایشو سنبھال کر رکھے ہیں کہ جن سے وہ ڈائس پر کھڑے ہوکر سامعین کے دل گرمارہے ہیں اور اس گرم گرم تقریر سے کیا حاصل ہوتا ہے خدا جانے۔ بہرحال سب اپنے اپنے تئیں بظاہر نیک اور خوبصورت باتیں کہہ رہے ہیں کہ جیسے بس وہ ہی نیک اور انتہائی اچھے ہیں اور باقی سب۔ الیکشن سر پر ہیں جی۔
ایک حدیث شریف ہے ''منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے'' (بخاری و مسلم)
اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں ذرا اپنے اردگرد دیکھیے تو سمجھ میں آتا ہے کہ ہم کس قسم کے ماحول میں رہ رہے ہیں، ایک دوسرے پر اپنے آپ کو اچھا اور بہتر ثابت کرنے کی کوشش ہمیں کس حد تک لے کر دلدل کی گہرائی میں لے جارہی ہے۔ ہم اگر اس کی روشنی میں اپنے سیاسی ماحول کو ہی دیکھیں تو بہت کچھ عیاں ہوجاتا ہے کہ کون کیا ہے، کیا چاہتا ہے اور اس کے پیچھے اس کے اپنے مفاد کیا ہیں اور قوم کے حق میں یہ کس طرح بہتر ہوسکتا ہے۔ سورۂ آل عمران، سورۂ النساء اور سورۂ مائدہ میں منافقین کی خصوصیات کو واضح کیا گیا ہے۔
''منافقین اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں، یہ لوگ اپنے نفاق کی بیماری کے چکر میں ہی ساری دوڑ دھوپ کرتے رہتے ہیں، کیونکہ انھیں اپنی اس دو رخی اور فریب کاری پر پورا بھروسا ہوتا ہے اور دیانت دارانہ طور پر کام وہ اس لیے نہیں کرتے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دیانت دار بننے سے کہیں وہ کسی مصیبت میں پھنس جائیں، لیکن جب اﷲ ان کے دل میں چھپی ہوئی بات ظاہر کردیتا ہے تو دوسرے اہل ایمان تب حیران ہوکر کہتے ہیں کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو فلاں فلاں نیکی اور دیانتداری کے دعوے کیا کرتے تھے؟'' یعنی نفاق آخر کھل کر ہی رہتا ہے، پھر ان سے دوستی کی ممانعت ہے، کیونکہ یہ دوسروں کو بھی کفر میں مبتلا کرکے اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں، ان منافقوں کی پالیسی بڑی عجیب قسم کی ہے، یہ دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، اگر فائدہ اپنی طرف ہو تو یہ بھی ادھر اور اگر فائدہ دوسری طرف ہو یہ بھی ادھر اور اگر فائدہ دوسری طرف ہو تو یہ بھی دوسروں کے بھائی، حقیقتاً یہ لوگ کفر و ایمان کے درمیان ڈانواں ڈول ہوتے ہیں، نہ پورے اس طرف اور نہ پورے اس طرف۔
اس خطرناک دھوکے میں ہماری قوم کئی بار آچکی ہے، کوئی بیٹھ کر دو رنگا ہی ظاہر کرتا ہے، تو کوئی اتر کر، تو کوئی ادھر ادھر ہوکر، لیکن سب کے اپنے ہی رنگ ہیں۔ ان خطرناک رنگوں سے اب تک پاکستان نے کس حد تک کامیابی حاصل کی ہے، اس کا ایک بازو 1971 میں الگ ہوگیا، کشمیر کا مسئلہ جسے نہرو نے کچھ عرصے کے لیے ٹالنے کی کوشش کی تھی، ہماری اپنی نااہلیوں کی وجہ سے پختہ ہوتا گیا اور آج اہل کشمیر پوری دنیا کے سامنے مظلومیت کی تصویر بنے کھڑے ہیں، اپنے ہی خون میں نہائے ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
جس طرح بھارت اپنی غلط پالیسی کو اچھی طرح رنگ بھر کے کامیاب تصویر بنانے کی کوشش کرسکتا ہے تو ہم کیوں اپنی نیک نیتی سے ایک ایسے وجود کو اپنے سے جوڑنے کی بھرپور کوشش نہیں کرسکتے جو ہمارے بھائیوں کو سکھ اور چین سے زندگی بسر کرنے کی آزادی سے نوازے۔ بہرکیف ان دنوں جب پاکستان میں پانی کے آبی ذخائر بری طرح متاثر ہورہے ہیں ایسے میں بھارت کا اپنے نئے آبی پروجیکٹس کو کسی نہ کسی طرح مکمل کرنا، بنانا اور اپنی قوم کے لیے ترقی کے سفر کو جاری رکھنے کا عمل کرسکتے ہیں تو پھر ہم کیوں رل رہے ہیں۔
ایک جانب عدالتی کارروائیوںسے نیوز چینل بچ رہے ہیں تو دوسری جانب عوامی مشکلات جن کی طرح اپنی قد نکال رہی ہیں، اس تمام صورتحال میں کون سے عناصر فائدہ اٹھارہے ہیں، ان تمام معاملات کو ذرا دیکھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پچھلے گزرے ہوئے چند برس ہم نے کسی کوہ میں گزاردیے۔ یہ درست ہے کہ پنجاب حکومت نے عوامی سطح پر کام کیے ہیں لیکن ان کاموں کی نذر ابھی ایک سلسلے کی پکار ہے، اسے کیا کہیے۔ ہم در اصل بہت کھلے دل کے ہیں، خرچ کرتے ہیں تو بہت کھلے دل سے اور نہیں کرتے تو بھی بہت کھلے دل سے کہ جائو جی ایک پائی بھی نہیں استعمال کرنی۔
اس بار لوگ عمران خان کی جماعت میں بھی بڑے جوش سے داخل ہونے کے متمنی ہیں کہ اب کی بار نیا چہرہ شاید چڑھ جائے۔ بات پھر وہیں کی وہیں رہتی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، ہمارے لیے تو سارے ایک جیسے ہیں، اگر واقعی کوئی لیڈر ایسا بھی ہو جو کہے اس پر عمل بھی کرے اور اپنی قوم کی ترقی اور اصلاح کے لیے بھرپور عمل کرے تو بات بنتی بھی نظر آتی ہے، لیکن اگر ہمارے حکمران اپنے قومی خزانے کو بھرنے اور عوام پر خرچ میں کنجوسی محسوس کریں یا آنکھیں بند کرکے خرچ کریں تو دونوں صورت میں نقصان ہمارا ہی ہے۔
آج ہماری عدالت کے حوالے سے نیوز چینلز کے نمائندے، کیمروں کی کھٹاکھٹ اور خبروں کی بریکنگ کیوں چل رہی ہے، ایسے کام کیوں ہوتے ہیں کہ جن کی صفائیوں اور دھلائیوں کے لیے عدالت میں صفائیاں دینی پڑیں اور جو لوگ اس سعادت سے محروم رہ کر ڈائس پر چڑھ کر تقریریں داغتے ہیں، وہ کیوں ایسی زبان اور دھمکیاں استعمال کرتے ہیں کہ جن کے بارے میں ان کے دلوں سے بغض چھلکتا محسوس ہوتا ہے، کیا ماضی سے انھوں نے کچھ بھی نہیں سیکھا۔
آج کا ایک اٹھارہ برس کا نوجوان ایک مسلم انسان کے ماضی کے بارے میں کیا جانتا ہے، اسے تو نعروں کے جواب دینا آتے ہیں، کیونکہ اس کے لیے یہ ایک انجوائے منٹ کا ذریعہ ہے، اس میں مزہ ہے، چارم ہے، ایک ریلے کے ساتھ چلنا، آوازیں بلند کرنا، پتھرائو، اور سڑکیں جام کرنا کس قدر تفریح ہے، طاقت کا مظاہرہ ہے، پر ہمارے دلوں میں کیا ہے، یہ تو وہی جانتا ہے کہ جس نے یہ دل بنایا۔ اس دل کی کتاب پر دو رنگوں سے ہم کیا لکھے جارہے ہیں، خدارا ذرا سوچیے اور اس کے بدنما رنگوں سے ہماری قوم کو بچائیے۔