پانی کا خوفناک بحران

پاکستان کے حصے میں آنے والے دریا پانی کی شدید کمی کا شکار ہیں۔


Zamrad Naqvi June 11, 2018
www.facebook.com/shah Naqvi

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملک میں پانی کی شدید قلت کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر اسے سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے اس حوالے سے کہا کہ پانی کا تعلق ہماری بقا سے ہے۔ یہ معاملہ ہمارے لیے واٹر بم والا ہوگیا ہے۔ اس ضمن میں تازہ ترین انتہائی الارمنگ خبر یہ ہے کہ پانی کی قلت کے شکار ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر آگیا ہے جس کی بنیادی وجہ پانی کے ذخائر میں کمی اور اس کا نامناسب استعمال ہے۔

منصوبہ بندی کمیشن کی رپورٹس کے مطابق ملک میں صرف 30 دن کے استعمال کے لیے پانی کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے جوکہ انتہائی پریشان کن ہے۔کسی بھی ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم از کم 120 دن کے لیے ہونی چاہیے۔ پاکستان میں دریائوں اور بارشوں کی صورت میں سالانہ 110 ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہے جس کا 93 فیصد زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے جب کہ 5 فیصلہ گھریلو اور 2 فیصد صنعتی مقاصد کے لیے ہے۔

رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ جہاں قلت آب میں پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے وہاں پانی کا ضیاع 70 فیصد تک ہے۔ ہم بحیثیت قوم اپنے وسائل کو کتنی بیدردی سے استعمال کررہے ہیں، یہ لمحہ فکریہ ہے۔

ایک اور رپورٹ بتاتی ہے کہ گلگت بلتستان کے سات ہزار گلیشر اگلے بیس سے تیس سال میں پگھل جائیں گے۔ یعنی میٹھے پانی کے حصول کا ایک سب سے بڑا ذریعہ ختم ہوجائے گا۔ یعنی ایک طرف پینے کا پانی نایاب ہوجائے گا تو دوسری طرف جب یہ گلیشیر پانی کی شکل میں بلندیوں سے نیچے کی طرف اترے گا جس کے نتیجے میں بڑے بڑے سیلاب آئیں گے۔ جنگلات اور فصلوں کی تباہی کی وجہ سے قحط کی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ قلت آب کا اندازہ اس سے لگائیں کہ نہ صرف پینے کا پانی بلکہ فصلوں کے لیے بھی پانی دستیاب نہیں ہو گا۔

پاکستان کے حصے میں آنے والے دریا پانی کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ پچاس سال ہونے کو آرہے ہیں ہم نے کوئی نیا ڈیم نہیں بنایا جب کہ چین اور بھارت اس عرصے میں سیکڑوں چھوٹے بڑے ڈیم بناچکے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان راوی، ستلج، بیاس دریائوں کو ایوب خان دور میں بھارت کے حوالے کرچکا ہے۔

کالا باغ ڈیم کا منصوبہ کئی دہائیوں سے لٹکا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کالا باغ ڈیم اس لیے نہیں بن سکتا کہ اس کا کنٹرول پنجاب کے پاس ہوگا۔ سندھ اور خیبرپختونخوا اس ڈیم کے خلاف اپنی صوبائی اسمبلیوں میں قراردادیں منظور کراچکے ہیں۔ ادھر دوصوبے کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو اپنی زندگی و موت کا مسئلہ بنائے ہوئے ہیں۔ جہاں تک بھاشا ڈیم کا تعلق ہے اس کی کاغذی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔ ابتدائی فنڈز بھی منظور ہوچکے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی کام ابھی تک شروع نہیں ہوا۔

قلت آب صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ بہت سارے ڈیم بنانے کے باوجود پانی کے مسئلے پر بھارتی صوبے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ حال ہی میں وہاں شملہ جیسے صحت افزاء پہاڑی مقام پر پانی کی راشن بندی ہوگئی ہے۔ جنوبی افریقہ کو بھی اسی صورت حال کا سامنا ہے۔ کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے چلے جانے سے بہت سارے باغات اس لیے کاٹ دیے گئے ہیں کہ ان کے لیے پانی میسر نہیں۔

ماحولیاتی آلودگی ہماری فصلوں اور صحت پر ہی اثر انداز نہیں ہورہی بلکہ اپنے ساتھ زلزلوں کی کثرت بھی لارہی ہے۔ پہلے زلزلے کم شدت کے ہوتے تھے اب یہ بھی ترقی کرگئے ہیں۔ 8,7,6 ریکٹر اسکیل کے درجے اب معمول بنتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف میٹھے پانی کی نایابی دوسری طرف سیلاب، زلزلے، طوفان شدید اور بے وقت کی بارشیں صحرا میں برف باری مستقبل قریب میں طوفان نوح کا پیغام لارہی ہیں۔

پاکستان زلزلے کی پٹی پر واقع ہے۔ اسلام آباد اور کراچی انتہائی خطرناک ہیں۔ کراچی پورا زلزلے کے زون میں ہے لیکن اس کے باوجود وہاں سب سے زیادہ بلند و بالا عمارتیں بن رہی ہیں۔ یہی حال اسلام آباد کا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بیچارے عوام خطرات سے بالکل بے خبر ہیں، اپنا قیمتی سرمایہ ان جگہوں پر لگارہے ہیں جن کی کوئی گارنٹی نہیں۔ اس کے علاوہ کراچی دنیا کے ان شہروں میں شامل ہے جس کے بارے میں بار بار کہا جارہا ہے کہ سمندر کی سطح بلند ہونے سے یہ شہر ڈوب سکتا ہے۔

پچھلے کئی سال سے پاکستان میں معمول سے کم بارشیں ہورہی ہیں۔ موسم سرما میں برف باری جتنی ہونی چاہیے وہ نہیں ہوپارہی۔ پاکستان اس وقت خشک سالی کا شکار ہوچکا ہے۔ اس سال کے شروع سے اب تک معمول سے 45 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں۔ بین الاقوامی ماہرین آئی ایم ایف سمیت عالمی اداروں نے کہا ہے کہ اگلے سات سال میں اس وجہ سے پاکستان ریگستان بن سکتا ہے۔

ماحولیاتی تباہی کی سب سے بڑی وجہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس ہے۔ دنیا کی سات ارب سے زائد آبادی کی سرگرمیوں کے نتیجے میں سالانہ 37 بلین میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس فضا میں شامل ہوجاتی ہے۔ یعنی ہر منٹ میں سیکڑوں ٹن زہریلی گیس فضا میں شامل ہورہی ہے۔ ان زہریلی گیسوں کی وجہ سے جنگلات حیوانات ہر طرح کی آبی حیات اور انسانی زندگی شدید خطرے سے دوچار ہے۔ آلودگی کی وجہ صنعتی انقلاب اور انسان کی ایجاد کردہ ہر چیز ہے۔

خوفناک بات یہ ہے کہ ماحولیاتی بگاڑ اور قلت آب دنیا کے ملکوں کا جغرافیہ تبدیل کرسکتی ہے یعنی ملکوں کے درمیان جنگیں اور ملکوں کے اندر پانی کے قحط پر آبادیوں کے درمیان خانہ جنگی۔ اس صورتحال میں پاکستان سرفہرست ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دمشق میں قحط پڑا تو لوگ عشق بھول گئے۔ آلودگی اور پانی کی کمی نفسانفسی کا ایسا سماں پیدا کرے گی کہ لوگ ہر تعلق ہر رشتہ بھول جائیں گے۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے جو بہت عرصہ پہلے، پہلے ہی گزرچکا ہے ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہوجانا چاہیے۔

پس تحریر:۔ دلاور علی ولد نیامت علی عمر 42 سال ڈسٹرکٹ سینٹرل جیل میانوالی میں سزائے موت کا قیدی ہے اور گزشتہ 18 سال سے قید ہے۔ ٹیلیفون پر مجھے بتایا کہ دوران قید والدین فوت ہوچکے ہیں۔ جوانی کے بہترین دن جیل کی نذر ہوچکے۔ اس کی اپیل 9 سال سے زیر سماعت ہے۔ اس کی انسانیت کے نام پر اپیل ہے کہ اس کے کیس کی جلد از جلد سماعت کرکے فیصلہ سنایا جائے۔

٭... جون کے آخر سے جولائی کا آخر جس کے اثرات اگست ستمبر تک پھیلیں گے پاکستان اپنی تاریخ کے انوکھے حالات و واقعات کو دیکھے گا۔

سیل فون: 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔