ہم کیوں پیچھے رہ گئے
1971ء سے قبل ہماری حکمران اشرافیہ سابقہ مشرقی پاکستان کو پاکستانی معیشت پر بوجھ تصور کیاکرتی تھی۔
لوگ سوال کرتے ہیں کہ تمامتر انسانی وقدرتی وسائل اور ہنرمند افرادی قوت کی بہتات باوجود وطن عزیز ترقی کی راہوں پر گامزن کیوں نہیں ہو پا رہا؟ لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ وہ کیا اسباب ہیں کہ بنگلہ دیش جو کل تک ہمارا حصہ تھا، 47 برس بعد ہم سے بہت آگے کیوں نکل گیا اور ہم پیچھے کیوں رہ گئے؟ جب کہ 1971ء سے قبل ہماری حکمران اشرافیہ سابقہ مشرقی پاکستان کو پاکستانی معیشت پر بوجھ تصور کیاکرتی تھی۔
ان سوالات کا جواب معروف دانشور، سابق چیف سیکریٹری سندھ اور کئی دہائیوں تک ڈائریکٹر جنرل کچی آبادی رہنے والے تسنیم صدیقی نے دیا ہے۔ تسنیم صدیقی کا مزید تعارف یہ ہے کہ وہ معروف Philanthropist اختر حمید خان مرحوم کے معتقدین میں سے ہیں۔ جب کہ حیدرآباد اور کراچی میں کم آمدنی والے شہریوں کے لیے خدا کی بستی نامی کالونیاں بنانے میں عالمگیر شہرت رکھتے ہیں۔ اس اظہاریہ میں ہم نے ان کے خیالات کو اپنے الفاظ کا پیرہن پہنانے کی کوشش کی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد نوآبادیاتی نظام ٹوٹنے لگا۔ نوآبادیات اپنی جدوجہد اور استعماری قوتوں کے کمزور ہوجانے کے باعث تیزی کے ساتھ آزاد ہونے لگیں۔ آزاد ہونے والے ایشیائی ممالک نے معاشی استحکام اور انسانی ترقی کے لیے شدید بیتابی کا مظاہرہ کیا۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اس تگ و دو میں سب سے آگے تھے۔ 1950ء سے 70ء کی دہائیوں کے دوران ان ممالک نے اپنی معیشت کے استحکام اور عوام کی خوشحالی کے لیے مربوط منصوبہ بندی کی۔ 1964ء میں آسیان (ASEAN) کے نام سے مشترکہ جدوجہد کا آغاز کیا۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور ترقی کے لیے لگن موجود تھی۔
پاکستان اپنے قیام کے ابتدائی برسوں میں مختلف نوعیت کے سیاسی، سماجی، معاشی اور انتظامی مسائل سے دوچار ہونے کے باوجود ابتدائی تین دہائیوں تک 6 فیصد شرح نمو کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ جو آزاد ہونے والی نوآبادیات میں سب سے زیادہ تھی۔
جنوبی کوریا پاکستان کی اس پرفریب شرح نموسے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے ہمارے ماہر معاشیات اور منصوبہ سازی ڈاکٹر محبوب الحق کی خدمات مستعار لے کر ان کے مشوروں پر معاشی ترقی کا ماڈل تیار کیا۔ لیکن بعد میں اندازہ ہوا کہ ایوب خان کے دور میں ہم معاشی نمو کی جس شرح کو ترقی سمجھ بیٹھے تھے، نام نہاد ترقی کا وہ ''سنہری دور'' دراصل ایک سراب تھا۔ کیونکہ یہ ماڈل عام شہریوں کی زندگیوں میں خوشحالی لانے کے بجائے امارت و غربت میں اضافے کا سبب بنا۔ اس کے علاوہ اس ماڈل نے مختلف نوعیت کے امتیازات کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں بالآخر ملک دولخت ہوا اور باقی ماندہ پاکستان میں نسلی و لسانی تفریق گہری ہوئی۔
تسنیم صدیقی کہتے ہیں کہ چند روز قبل بنگلہ دیش کے ماہر معاشیات وحید الدین محمود نے پیش گوئی کی ہے کہ ان کا ملک اگلا ایشیائی ٹائیگر بننے والا ہے۔ یہ وہی ملک ہے، جو 1971ء تک پاکستان کا حصہ تھا اور یہاں اسے ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا جاتا تھا۔ چنانچہ حکمران اشرافیہ کی اکثریت نے پاکستان کے دولخت ہونے پر کسی غم اور تاسف کا اظہار کرنے کے بجائے ملکی ترقی کے لیے نیک شگون قرار دیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ اب پاکستان زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کرے گا۔ لیکن بنگلہ دیش کی آزادی کے 47 برس بعد اگر ہم دونوں ممالک کا تقابلی جائزہ لیں، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جن بنگالی عوام کو ہم ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے رہے تھے، وہ ہر لحاظ سے ہم سے بہت آگے جاچکے ہیں۔
بنگلہ دیش کو بھی آزادی کے بعد ان ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جن سے ہر غریب ملک دوچار ہوتا ہے۔ یعنی سیاسی و معاشی عدم استحکام، بری حکمرانی، جس کے نتیجے میں فوجی مداخلتیں اور ادارہ جاتی کرپشن اور بدعنوانیاں۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کو ڈیلٹائی ملک ہونے کی وجہ سے قدرتی آفات کا بھی تسلسل کے ساتھ سامنا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر چند برس بعد قحط اور غربت میں اضافہ جاری رہا۔ لیکن بنگلہ دیش میں ان تمام مسائل ومصائب کے باوجود مختلف ریاستی ادارے تندہی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ جس کی وجہ سے اس کی معیشت میں استحکام آنے لگا۔ 2017ء کے مالیاتی سال کے دوران اس کی معاشی نمو کی شرح 7.28 تک جا پہنچی، جو خطے کے تمام ممالک بشمول بھارت سے بھی زیادہ ہے۔
بنگلہ دیش کی معاشی نمو کی شرح 2008ء میں پاکستان سے آگے نکل گئی۔ اس وقت ہمارے بعض ماہرین معاشیات نے اسے وقتی تغیر قرار دیا تھا۔ جب کہ حقیقتاً یہ اس کی معاشی ترقی کا اہم ترین موڑ تھا۔ کیونکہ GDP کی شرح میں اضافہ کے ساتھ سماجی ترقی کے اشاریے بھی مائل بہ ترقی چلے آرہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے سماجی ترقی میں بھی پیشرفت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ دو دہائیوں سے آبادی میں اضافے کی شرح 1.1 فیصد سالانہ برقرار رکھی ہے، جو پاکستان میں آبادی کی شرح میں اضافے کا نصف ہے۔
اسی طرح 1990ء کے بعد سے پرائمری اور ثانوی تعلیم کے درمیان صنفی فرق میں بھی نمایاں کمی آئی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی صحت (Child health)، مختلف بیماریوں کے خلاف حکومتی سطح پر مدافعتی اقدامات کے نتیجے میں Life expentancy میں اضافہ ہوا ہے، جو سماجی ترقی کے اہم اشاریے تصور کیے جاتے ہیں۔ اس میدان میں بنگلہ دیش نے پاکستان اور بھارت دونوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ میگا پروجیکٹس پر نہ تو خطیر رقوم خرچ کی جارہی ہیں اور نہ ہی اندرون یا بیرون ملک سے بھاری قرضے حاصل کیے جارہے ہیں۔ بلکہ متوشش شہریوں اور اہل دانش کے ذریعہ عوام کو موبلائز کرکے معاشرے کی نچلی ترین سطح پر موجود وسائل کو بروئے کار لایا جارہا ہے۔ بنگلہ دیش میں ابتدائی معاشی نمو کا ذریعہ تیارشدہ گارمنٹس کی صنعت بنی۔ جس کی وجہ سے خواتین کو روزگار ملا اور ان کی معاشی اور سماجی بااختیاریت میں اضافہ ہوا۔ یہاں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ بنگلہ دیش کپاس پیدا کرنے والا ملک نہیں ہے۔ جب کہ پاکستان دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ مگر اس کے باوجود گارمنٹس کی صنعت میں کوئی نمایاں کارکردگی دکھانے میں ناکام ہے۔
اب واپس پاکستان کی طرف آتے ہیں، جس نے اپنے قیام کے ابتدائی برسوں کے دوران معاشی نمو میں تیزی ضرور دکھائی تھی، لیکن معاشی استحکام اور انسانی ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں شروع ہی سے مسلسل ناکام رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بظاہر نظر آنے والی ترقی مخصوص مراعات یافتہ طبقہ تک محدود ہے۔ اس صورتحال کا پریشان کن پہلو یہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام پر کوئی ڈھائی کروڑ بچہ اسکولوں سے باہر ہے، جب کہ 40 فیصد سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ حصول تعلیم کے حوالے سے صنفی فرق میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ تعلیم کا معیار بھی مائل بہ پستی ہے۔
بنگلہ دیش کی مثال سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ترقی کے لیے نہ تو بھاری قرضوں کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی قومی وسائل کے بدترین انداز میں تصرف کی۔ اگر معاشرے کی نچلی سطح پر عوام کو موبلائز کرکے قدرتی وسائل کو سلیقے کے ساتھ استعمال کیا جائے اور معاشی نمو کے ساتھ سماجی ترقی کو ہم آہنگ کرلیا جائے تو ترقی کے ثمرات مخصوص حلقوں اور طبقات تک محدود رہنے کے بجائے معاشرے کی نچلی ترین سطح تک پہنچ سکتے ہیں۔ جس پر توجہ دینے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ عوام مسلسل بدحالی کا شکار ہیں اور ایک مخصوص طبقہ خوشحالی کی نئی منزلیں طے کررہا ہے۔