تین تصویریں ایک کہانی
شہرکراچی کے اکثر مضافاتی علاقوں کے بچّے ان کھلونا نما خطرناک ہتھیاروں سے کھیلتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
زندہ قومیں ہمیشہ اپنی حیات کی بقا کے لیے پیش بندی کرتی ہیں تاکہ ان کا مستقبل تابناک ہو اور ترقی و کامرانی کی راہیں ان کا استقبال کرسکیں۔ اس وقت میرے سامنے تین تصویریں ہیں جو بچّوں اور ان کے کھلونا نما ہتھیاروں کے متعلق ہیں۔ پہلی تصویر: جس میں کچھ بچّوں کو دِکھایا گیا ہے۔ اس کے کیپشن میں لکھا ہے، ''لیما: پیرو میں کھلونا اسلحے کے خلاف مہم کے دوران اسکول کے بچّے اپنی نقلی بندوقیں ڈبّے میں ڈال رہے ہیں جن کے بدلے انھیں دیگر کھلونے دیے جائیں گے۔''
دوسری تصویر: جس کا عنوان ہے امریکا:3 ہزار 8 سو افراد نے پانی کی بندوقیں تان لیں۔ اس تصویر کا کیپشن یہ ہے ''نیویارک... این جی ٹی... کھلونا پستولوں سے کھیلنا بچّوں کا پسندیدہ کھیل ہوتا ہے لیکن امریکی ریاست ایری زونا میں تو ہزاروں افراد (بچّوں) نے ایک دوسرے پر پانی کی پستولیں تان لیں۔ ایری زونا کے شہر ماریکوپا میں 3 ہزار 804 افراد (بچّوں) نے کھیل ہی کھیل میں کھلونا واٹر پستولوں سے ایک دوسرے پر فائر کرکے دنیا کی سب سے بڑی واٹر پسٹل فائٹ کا عالمی ریکارڈ قائم کردیا ہے۔
ایک بڑے سے گرائونڈ میں جمع تمام افراد نے کھلونا پستولوں میں پانی بھر کر 10 منٹ تک مسلسل ایک دوسرے پر پانی برسایا۔ ان افراد (بچّوں) کی اس منفرد کاوش کو سراہتے ہوئے اس انوکھی لڑائی کو دنیا کی سب سے لمبی واٹر پسٹل فائٹ کی حیثیت سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرلیا گیا۔'' تیسری تصویر شہر کراچی کے ایک بازار کی ہے، جہاں کچھ دکانوں میں بڑی تعداد میں بچوں کے کھیلنے کے لیے کھلونا نما جدید ہتھیار فروخت کیے جارہے ہیں۔ اس تصویر میں ایک بچّے کے ہاتھ میں گن ہے اور وہ نشانہ لگا کر حملہ کررہا ہے۔
اس تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ: ''اقدار کی تیز رفتار تبدیلی کے سبب لاڈلے (بچّے) اب کھیلنے کے لیے چاند نہیں، بندوق مانگتے ہیں! جہاں عہدِ جدید کے نونہال جگنو کو روشنی میں پرکھنے کی ضد کرنے لگے، وہیں انواع و اقسام کے اسلحے کی بے جا نمود و نمایش، معاشرے میں تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے میں حکومتی ناکامی کے باعث یہ بچّے نہ صرف اے کے 47، کلاشنکوف، رپیٹر، ٹی ٹی کے ناموں سے بخوبی واقف ہیں بلکہ کھیل کے لیے والدین سے ان ہی ''ہتھیاروں'' کی فرمایش کرتے ہیں، عید سے قبل شہر (کراچی) کے مختلف بازاروں اور فٹ پاتھوں پر یہ کھلونا ہتھیار بڑے پیمانے پر فروخت کیے جارہے ہیں۔''مختلف النوع مسائل میں گِھرا ہوا وطنِ عزیز پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔
ایسے میں ایک اور فکر انگیز سماجی مسئلے نے سر اٹھایا ہے۔ مستقبل کے معمار معصوم بچّوں کے ہاتھوں میں کھلونا نما ایئر گن، کلاشنکوف اور پستول نظر آنا بالکل نیا رجحان ہے۔ اگرچہ پہلے بھی یہ کھلونے بازاروں میں بکتے تھے اور محدود پیمانے پر چند بچّوں کے ہاتھوں میں دیکھے جاتے تھے لیکن شدّت کے ساتھ یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ جیسے بڑے پیمانے پر بیوپاری حضرات بازاروں میں جان لیوا نہ سہی لیکن نقصان دہ کردار پر مبنی کھلونوں کا انبار لگایا جارہا ہے اور ان کی قیمت انتہائی کم رکھی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے بھی ان تک رسائی آسان ہے۔
شہرکراچی کے اکثر مضافاتی علاقوں کے بچّے ان کھلونا نما خطرناک ہتھیاروں سے کھیلتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔سماج میں تشدد کے فروغ میں اسلحہ نے جو منفی اور ہولناک کردار ادا کیا ہے اس پر مغرب نے کتابوں اور تحقیقی مقالوں کے انبار لگا دیے ہیں مگر ایشیائی ممالک اور خاص طور پر انڈو پاک کلچر اور فلم انڈسٹری میں تشدد اور اسلحہ کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو تشویش ناک ہی کہا جاسکتا ہے۔ نوجوان نسل ہتھیاروں کے استعمال میں ایک قسم کی رومانویت میں مبتلا ہے،اسلحہ کے گلیمر نے اس کی معصومیت اور رحم دلی کے سر چشمے خشک کردیے ہیں، معاشرے میں ضد ،ہٹ دھرمی، اضطراب، اشتعال ،غصہ اور غضبناکی نے قتل وغارت گری اور ٹارگٹ کلنگ کا ایسا جنون پیدا کیا ہے کہ شہر کراچی میں انسانی جان لینا اب معمول بن چکا ہے۔ہر غربت زدہ نوجوان اس سوچ میں گم ہے کہ اس بے سمت معاشرے میں اس کے ہاتھ میں ایک گن اور کچھ مسلح ساتھی ہوں تو وہ ریمبو اور ٹرمینیٹر بن کر ہنگامہ برپا کرسکتا ہے۔
یہ سوچ معاشرے میں گینگ وار اور بھتہ خوری کے ناسور کی صورت پھیل چکی ہے اور درجنوں دہشت گرد اور تشدد پسند گروپ اور مافیائیں منی پاکستان کو تاراج کررہی ہیں۔اس لیے یہ امر باعثِ فکر ہے کہ ایسے کھلونے نہ صرف سماجی طور پر بچّوں کے معصوم ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں بلکہ بچّوں کو زخمی کرنے کا بھی باعث بنتے ہیں جو بسا اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ شہر کراچی کے اکثر اسپتالوں میں ایسے کیسز سامنے آئے کہ جن میں کھلونا ایئرگن اور پستول کے چھروں سے بچّوں کی آنکھیں ضایع ہوگئیں یا جسم کے دیگر حصّوں میں چوٹ لگ گئی تھی۔یہ ایک ایسا سماجی مسئلہ ہے جسے مشترکہ طور پر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں عوامی نمایندے، سماجی ادارے، حکومتی حلقے اور سب سے بڑھ کر والدین اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ رائے عامہ کے نمایندے اس منفی رجحان کو آگے بڑھنے سے روکیں، شعوروآگہی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ حکومتی حلقے ایسے خطرناک کھلونے کی خرید و فروخت پر پابندی عاید کریں۔ والدین بچّوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں کہ بنیادی طور پر یہ مسئلہ والدین کی لاپروائی سے شروع ہوتا ہے جو آگے چل کر علاقائی و قومی مسئلہ بن جاتا ہے۔خیال رہے کہ بچپن زندگی کا سب سے خوبصورت حصّہ ہوتا ہے، اسی میں بچّے سیکھنے کے عمل سے گزرتے ہیں اور اس میں کردار سازی ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے شرح خواندگی میں کمی ہونے کے باعث ہم اپنے مستقبل کے معماروں کے ذہن میں کچھ ایسی تلخ یادیں چھوڑ دیتے ہیں جو تمام عمر آسیب کی طرح انسان کا پیچھا کرتی ہیں اور اسے ایک کامیاب انسان بننے سے روکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ والدین بچّوں کو ایک قابل اعتماد اور سلجھا ہوا بچپن دیں اور انھیں نقصانات سے بچائو کے اقدامات کریں تاکہ یہی بچّے بڑے ہو کر کہہ سکیں کہ:
میرے بچپن کے دن
کتنے اچھے تھے دن