اقتدار کے کیک کا حصہ لینے کی کوشش

80 کی دہائی میں لیاری جنرل ضیاء الحق کے خلاف مزاحمتی تحریک کا مضبوط مرکز بن گیا تھا۔


Dr Tauseef Ahmed Khan June 13, 2018
[email protected]

حبیب جان بلوچ اچانک کراچی آگئے۔ انھوں نے کراچی آمد کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وہ برطانوی شہریت منسوخ کرا رہے ہیں۔ حبیب جان بلوچ نے کہا کہ وہ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے۔ حبیب جان پہلے رہنما ہیں جنھوں نے واضح موقف اختیار کیا کہ لیاری گینگ وار کے ایک اہم کردار عزیر بلوچ کا مقدمہ دوبارہ چلنا چاہیے۔ عزیر بلوچ کو دوبارہ صفائی کا موقع ملنا چاہیے۔ اگر عزیر قصوروار ہو تو اسے سزا دی جائے۔

حبیب جان کہتے ہیں کہ غنویٰ بھٹو، فہمیدہ مرزا، ذوالفقار مرزا، مصطفی کمال اور تحریک انصاف کے رہنماؤں سے ملاقات کروں گا۔ ہم سب مل کر ملک اور کراچی کو سنبھال لیں گے۔ مصطفیٰ کمال ہماری دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ حبیب جان کا کہنا ہے کہ جب تک آصف زرداری پیپلز پارٹی میں ہے، وہ اپنی اس پرانی جماعت میں شمولیت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ حبیب جان نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کا ظفر بلوچ لیاری کو تبدیل کرنا چاہتا تھا مگر جتنے کام عزیر بلوچ نے کیے ان کا اندازہ کریں۔ انھوں نے حتمی طور پر کہا کہ لیاری میں کوئی کرپشن نہیں ہوئی۔ پہلے مجھے عدالتوں پر بھروسہ نہیں تھا، اب عدالتیں اچھا کام کررہی ہیں۔

عزیر بلوچ ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کے کارکن رہے۔ انھوں نے رنچھوڑ لائن کے علاقے سے صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ جب لیاری میں گینگ وار شدت پکڑ گئی تو گینگ وار کے ایک اہم لیڈر رحمن بلوچ کے حکم پر لیاری امن کمیٹی قائم ہوئی۔ رحمن بلوچ کے ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے کے بعد عزیر بلوچ نے امن کمیٹی کی قیادت سنبھالی۔ حبیب جان اس کمیٹی کے روح رواں قرار پائے۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے لیاری میں گینگ وار کے خلاف آپریشن کیا تو پولیس کی نامور شخصیت چوہدری اسلم کو اس آپریشن کا انچارج بنایا گیا۔ چوہدری اسلم کی قیادت میں پولیس آپریشن پانچ دن تک جاری رہا۔ پولیس نے لیاری کی ناکہ بندی کردی اور لیاری میں کرفیو کی سی کیفیت پیدا ہوئی۔

عزیر بلوچ اور ان کے جنگجوؤں نے پولیس آپریشن کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ چوہدری اسلم کی قیادت میں پولیس کے دستے لیاری کے دروازے لی مارکٹ سے چند کلومیٹر دور چیل چوک سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ ایک دن اخبارات میں یہ خبریں نمایاں طور پر شایع ہوئیں کہ حبیب جان خفیہ طور پر لیاری سے لندن پہنچ گئے اور حکومت برطانیہ نے ان کی سیاسی پناہ کی درخواست قبول کرلی۔

حبیب جان، عزیر بلوچ اور ان کے بہت سے ساتھیوں کے خلاف درجنوں مقدمات قائم ہوئے۔ عدالتوں نے ان ملزمان کو مفرور قرار دیا۔ عزیر بلوچ کے دبئی پہنچنے کی خبریں آئیں۔ ایک دن عزیر بلوچ کی دبئی میں گرفتاری اور پھر ان کے پاکستان لائے جانے کے بارے میں مختلف نوعیت کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں۔ عزیر بلوچ کراچی لائے گئے۔ ان پر قتل، اقدامات قتل، لوٹ مار اور زبردستی بھتہ وصول کرنے کے سیکڑوں مقدمات قائم ہوئے۔ بعد ازاں عزیر بلوچ جیل سے لاپتہ ہوگئے۔ نامعلوم حلقوں نے بتایا کہ عزیر بلوچ محفوظ مقام پر موجود ہیں۔ پھر یہ الزامات بھی عائد ہوئے کہ عزیر بلوچ نے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں کئی وڈیو کیسٹ ریکارڈ کرائے ہیں۔

لیاری پاکستان کا سب سے زیادہ باشعور علاقہ ہے۔ ہندوستان کے بٹوارے سے قبل لیاری کانگریس اور جمعیت علمائے ہند کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ نے لیاری میں پاؤں جمائے، مگر مسلم لیگ کے دور میں لیاری میں ترقی نہ ہوئی۔ یہ علاقہ منشیات فروشوں کی آماجگاہ بن گیا۔ جب بلوچستان میں قوم پرست تحریک مستحکم ہوئی اور نیشنل عوامی پارٹی بلوچستان کی سب سے بڑی جماعت بن گئی تو نیپ لیاری میں جڑیں پکڑنے لگی۔

میر غوث بخش بزنجو، عطاء اﷲ مینگل لیاری کے مقبول رہنما بن گئے۔ کمیونسٹ پارٹی کے مختلف فرنٹ کام کرنے لگے۔ نیپ کی ملحقہ تنظیموں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، دانشوروں اور مزدوروں کی تنظیموں نے لیاری کے عوام کے حقوق کے ساتھ منشیات فروشوں کے خلاف منظم تحریکیں چلائیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں لیاری میں پیپلز پارٹی مضبوط ہونے لگی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے لیاری کے مردوں اور خواتین سے براہ راست رابطے استوار کیے۔ یہی وجہ تھی کہ 80 کی دہائی میں لیاری جنرل ضیاء الحق کے خلاف مزاحمتی تحریک کا مضبوط مرکز بن گیا تھا۔

پیپلز پارٹی کی 1988 کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں نے لیاری کے نوجوانوں کو روزگار دلانے اور ترقیاتی کام تیز کرانے میں اہم کردار ادا کیا، مگر امن و امان کی صورتحال پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی۔ جب گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع ہوئی تو اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں لیاری میں مجرموں کے گروپ متحرک ہوئے۔ اس صدی کے پہلے عشرے میں یہ گروہ انتہائی مضبوط ہوئے۔

ان گروہوں نے شہر کے اہم صنعتی مراکز پر دھاو ا بول دیا۔ پیپلز پارٹی لیاری کی وارث تھی۔ لیاری کے عوام پیپلز پارٹی پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔بد قسمتی سے پیپلز پارٹی کی قیادت نے نیشنل عوامی پارٹی اور بائیں بازو کی تنظیموں کی پیروی کرنے کے بجائے جرائم پیشہ افراد کی اطاعت کو قبول کرلیا۔ یہی وجہ تھی کہ گینگ وار نے لیاری کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ لیاری میں سیاسی، سماجی اور ادبی سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔ دانش اور نادر شاہ عادل جیسے دانشور لیاری چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ عثمان بلوچ، یوسف مستی خان اور رحیم بخش آزاد جیسے پرانے کارکن بے اثر ہوگئے۔ گینگ وار کے کارندوں نے شہر کے دیگر علاقوں میں وارداتیں بڑھادیں۔

پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر بلوچوں اور اردو بولنے والے گروہوں کے درمیان تضادات پیدا کردیے۔ ذوالفقار مرزا کی بے دخلی کے باوجود پیپلز پارٹی کی قیادت ان گروہوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے بیٹھی رہی۔ اس لڑائی میں پیپلز پارٹی اپنے کئی اہم کارکنوں کو کھو بیٹھی مگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس حد تک غلط حکمت عملی اختیار کی کہ 2013 کے انتخابات میں سب کچھ ان جنگجو سرداروں کے دباؤ پر ہوا۔ بعد ازاں لیاری میں زوردار آپریشن ہوئے۔

بہت سے جنگجو مارے گئے، کچھ فرار ہوگئے اور کچھ نے ایران اور گلف کے ممالک میں پناہ لی۔ اس دوران پیپلز پارٹی نے عمران خان کے دھرنوں کے دوران مسلم لیگ حکومت کی بھرپور حمایت کی۔ عمران خان اسلام آباد سے ناکام واپس آئے۔ کراچی میں رینجرز نے پیپلز پارٹی کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ ڈاکٹر عاصم پکڑے گئے۔ منظور کاکا فرار ہوئے۔ رینجرز والے مختلف محکموں کی ہزاروں فائلیں ساتھ لے گئے۔ اخبارات میں عزیر بلوچ کی دبئی میں گرفتاری، پاکستان میں نامعلوم مقام پر منتقلی اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی خبریں شایع ہونے لگیں۔

آصف زرداری نے وزیراعظم نواز شریف سے مدد طلب کی۔ میاں صاحب چوہدری نثار کے نرغے میں تھے، انھوں نے خاموشی اختیار کی۔ آصف زرداری نے اسلام آباد میں ایک زوردار پریس کانفرنس کی اور دبئی میں جلاوطنی اختیار کی۔ پیپلز پارٹی کی سیاست میں ایک اہم تبدیلی آئی۔ زرداری اور بلاول نے بھارت مخالف بیانات دینے شروع کیے۔ انھوں نے عدالتوں کی طرف سے نوازشریف کے احتساب کے عمل کی بھرپور حمایت کی۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف میں اسٹیبلشمنٹ کا دل جیتنے کے لیے دوڑ لگی ہوئی ہے۔ زرداری صاحب میاں نواز شریف کے سیاست سے بے دخلی کے بعد اپنا مستقبل روشن دیکھ رہے ہیں۔

پھر پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کی طرف سے اپنے سینئر کارکن رضا ربانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنانے کی تجویز کو مسترد کیا۔ پیپلز پارٹی نے سرکاری طور پر اعلان کردیا کہ سینیٹر فرحت اﷲ بابر اور رضا ربانی کے جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں بیانات ان کا ذاتی موقف ہے۔ مگر بلوچستان میں ایک نئی جماعت کے قیام، جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے تحریک انصاف میں ضم ہونے اور بعض جماعتوں کے انتخابات ملتوی کرنے کے نعروں کی بناء پر پیپلز پارٹی کی قیادت نے شاید محسوس کیا کہ سیاسی منظرنامہ دوسری طرف دھکیلا جارہا ہے۔

حبیب جان بلوچ کی سنگین مقدمات میں ملوث ہونے کے باوجود کراچی آمد، جی ڈی اے، ایم کیو ایم اور ایم ایم اے کی انتخابی اتحاد کی باتیں کئی حقائق کو ظاہر کررہی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے صورتحال کا اندازہ لگاتے ہوئے لیاری سے بلاول بھٹو زرداری کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا، یوں ایک جذباتی فضا بلاول کی مددگار ہوگی، مگر پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ کی بالادستی، سویلین کے لیے راستہ محدود کرنے کے حالات سے سمجھوتہ کرکے انتخابات کے نتیجے میں تیار ہونے والے کیک میں زیادہ حصہ لینے کی کوشش کی ہے۔ یہ کوشش کتنی کامیاب ہوگی یہ سوال ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں