کیا پاکستان مزید جمہوریت افورڈ کرسکتا ہے
مسلسل دو جمہوری حکومتوں میں قرضے 6 کھرب روپوں سے بڑھ کے 14 کھرب سے بھی زیادہ ہوگئے۔
ہم تقریباً ہر معاملے میں ہی بھیڑچال والی قوم ہیں۔ جس طرف کو بھی کوئی ہانک دے پورا ریوڑکا ریوڑ اس طرف کو ہو لیتا ہے۔ اپنی سوچ اور غور و فکر یہاں عنقا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک کاپی ماسٹر آپ کو یہاں ملے گا۔ مثلاً آپ نے ڈیڑھ دو سال پہلے لفظ Narrative یا بیانیہ شاید ہی میڈیا میں کہیں سنا ہو۔ یہ لفظ حالیہ ڈیڑھ دو سال میں کسی نے استعمال کرلیا بس پھرکیا تھا تقریباً تمام ہی سیاستدان، کالم نگار، ٹی وی اینکر ایسے ہاتھ دھوکر اس لفظ کے پیچھے پڑے کہ اب جسے دیکھو اسی لفظ کی جگالی کرتا نظر آتا ہے۔
اب گو کہ ملک میں پچھلے دس سال سے رائج این آر او مارکہ اور دھاندلی زدہ انتخابات کی پیداوار اس ''جمہوریت'' کو جمہوریت گرداننا کھلی دھوکا دہی کی واردات سے کم نہیں مگر چلیے آپ اگر اسے جمہوریت مان بھی لیجیے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان اس ''جمہوریت'' کو مالی اور انتظامی طور پہ مزید افورڈ کرسکتا ہے؟ 2008ء میں 60 سال میں پاکستان پہ چڑھے قرضوں کی مالیت 6 کھرب روپے تھی۔ 2008ء سے 2013ء صرف 5 سال میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے 8.136 کھرب روپوں کے قرضے لے کے کل قرضوں کا بوجھ 60 سال میں لیے گئے قرضوں سے دگنے سے بھی زیادہ کردیا، یعنی قرضے 6 کھرب روپوں سے بڑھ کے 14 کھرب سے بھی زیادہ ہوگئے۔
جب کہ ان پانچ سالوں میں ملک میں کوئی نمایاں ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد بننے والی نواز لیگ کی حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 23 اگست 2013ء کو پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر وعدہ کیا کہ حکومت پتہ لگائے گی کہ یہ کھربوں روپے گئے تو کہاں گئے۔ یہ وعدہ کبھی بھی پورا نہیں ہوا غالباً دونوں جماعتوں کے بیچ موجود میثاق جمہوریت المعروف میثاق کرپشن کی بنا پہ۔ ستمبر 1999ء میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ ڈویلپمنٹ پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں کرپشن کا سالانہ حجم 100 ارب روپے تھا جب کہ دسمبر 2012ء میں اس وقت کے نیب کے چیئرمین جنھیں خود صدر آصف زرداری نے اکتوبر 2011ء میں نیب کا چیئرمین لگایا تھا نے ملک میں کرپشن کا تخمینہ کوئی 13 ارب روپے روزانہ یعنی کوئی پانچ ہزار ارب روپے یعنی 5 کھرب روپے سالانہ لگایا۔ 2013ء میں نواز لیگ نے حکومت میں آکر بڑے پیمانے پہ میگا پروجیکٹس کا آغاز کیا تاہم اس کی کارکردگی پہ وسیع پیمانے پہ کرپشن، غلط ترجیحات اور بے تحاشا قرضوں کے بڑے بڑے سوالیہ نشان لگ گئے۔ 2017ء میں روزانہ کی جانے والی کرپشن کے تخمینے بڑھ کر 21 ارب روپے یعنی سال کے کوئی ہوگئے 7665 ارب روپے۔
جمہوریت کے ان دس سالوں میں قومی اداروں پہ کیا گزری آئیے اس کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔ 10 اکتوبر، 2017ء کو وزیر اعظم کے مشیر برائے ہوا بازی سردار مہتاب خان نے بتایا کہ ان دس سال میں صرف پی آئی اے نے ہی 1400 ارب روپے کے نقصانات اٹھائے۔ ادھر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی 2016-17ء کی آڈٹ رپورٹ میں 400 ارب روپوں سے بھی زیادہ کی بے ضابطگیاں پائی گئیں۔ یہ محض دو مثالیں تھیں جمہوریت کی مثالی کارکردگی کی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے فروری 2018ء کے اعداد وشمار کے مطابق ملک پہ چڑھا قرضہ بڑھ کر 26.814 کھرب روپے ہوگیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جمہوریت نے پاکستان پہ صرف 10 سال میں 20 کھرب روپوں سے بھی زیادہ کا قرضہ لاد دیا جو 1947ء سے 2007ء تک 60 سال میں لیے جانے والے 6 کھرب روپوں کے قرضوں سے تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔ 2013ء میں حکومت میں آتے ہی نواز لیگ نے 480 ارب روپوں سے توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور اس خاتمے کو اپنی بہت بڑی کامیابی ظاہر کیا تھا۔ اب آپ ظلم دیکھیے کہ یہ گردشی قرضے نومبر 2017ء کے آخر تک پہنچ کے 922 ارب روپوں سے بھی آگے نکل گئے۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ساٹھ سال میں لیے گئے قرضوں سے 3 گنا سے بھی زیادہ کے یہ قرضے آخر کہاں گئے؟ خود جمہوری حکومت نے ستمبر 2016ء میں سینیٹ کو بتایا کہ 80 فیصد پاکستانی آلودہ اور غیر محفوظ پانی پینے پہ مجبور ہیں۔ نوزائیدہ بچوں میں اموات کی شرح پہ اپنی فروری 2018ء کی رپورٹ میں یونیسف نے پاکستان کو پیدا ہونے والے بچوں کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہرکراچی دیہی سندھ کی نمایندہ پیپلز پارٹی کے کرپٹ دور حکومت میں کچرے میں ڈوبا کھنڈر بن چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے کراچی جیسے کئی ملکوں سے بھی بڑے شہرکو اس کی با اختیار شہری حکومت سے محروم رکھا۔
دنیا کے معتبر ترین معاشیات کے ادارے دا اکنامسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کے گلوبل شہری معیار زندگی کے 2016ء اور 2017ء کے انڈیکس کے مطابق کراچی دنیا بھر میں چھٹا بد ترین ناقابل رہائش شہر بن گیا۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس نے ملک کے سب سے بڑے اور بہترین شہر کو کچرے کا ڈھیر، کھنڈر بنادیا؟ ادھر خود جمہوری حکومت کے اپنے (MPI) Multi Dimensional Poverty Index جو جون 2016ء میں وفاقی حکومت نے جاری کیا کے مطابق 40 فیصد پاکستانی انتہائی غربت کا شکار ہیں، مگر اسی پاکستان میں ایف بی آر اکتوبر 2017ء میں قومی اسمبلی کو بتاتا ہے کہ پچھلے صرف 4 سال میں پاکستانیوں نے دبئی میں 8 ارب ڈالر کی جائیدادیں خریدی ہیں۔
امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی مارچ 2017ء کی رپورٹ کے مطابق اسی پاکستان سے جہاں 40 فیصد لوگوں کو پیٹ بھر کے کھانا نصیب نہیں ہر سال 10 ارب ڈالر یعنی کوئی 1200 ارب روپوں کی منی لانڈرنگ کی جاتی ہے۔ سوئس نیشنل بینک کی جون 2016ء کی رپورٹ کے مطابق اسی پاکستان کے پاکستانیوں نے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں مال چھپانے کے معاملے میں بھارتیوں پہ بھی سبقت حاصل کرلی ہے۔ تو لگتا ہے کہ اس طرح سے کچھ ہے کہ یہ کھربوں کے قرضے ٹھکانے لگے ہیں۔
پاکستان کا تجارتی خسارہ بڑھتے بڑھتے 2016-17ء میں 30 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پہ پہنچ گیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر گرتے گرتے مارچ 2018ء میں 12.35 ارب ڈالر کے رہ گئے۔ مئی 2008ء میں این آر او جمہوریت کے آغاز کے وقت ایک ڈالر 67 روپوں کا تھا۔ مئی 2018ء میں یہ 117 روپوں تک پہنچ گیا۔ یعنی جمہوریت کے صرف دس سالوں میں روپیہ ایک دو نہیں پچاس روپے گرگیا ڈالر کے مقابلے میں۔ اس وقت ملک میں سپریم کورٹ سے لے کر فوج تک ہر ادارہ 25 جولائی کو الیکشن اور جمہوریت کے تسلسل کا یقین دلا رہا ہے۔ کرپشن خصوصاً میگا کرپشن کے خلاف قانونی کارروائیاں تقریباً ختم ہوچکی ہیں ۔
دیہی سندھ کے کرپٹ حکمراں طبقے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مبینہ ایک اور این آر او دیے جانے کا جشن جاری ہے۔ میگا کرپٹ خاندانوں کے فیملی کالم نگار ٹی اینکر سمیت ہر ہماشا باآواز بلند جمہوریت کے تقدس کی تسبیح پڑھ رہا ہے۔ ایک ہنگامہ مچا ہے اور اس ہنگامے میں اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ جناب دس برسوں میں ملک پہ 60 برسوں سے تین گنا زیادہ قرضہ لادنے والی اس جمہوریت کا تقدس اپنی جگہ مگر کوئی یہ بھی تو بتا دے کہ پاکستان اس جمہوریت کو مزید افورڈ کیسے کرے گا اورکب تک کرے گا؟