حالات کے تقاضے
پاکستان میں حکمران پرانے طور طریقوں سے حکمرانی نہیں کر پا رہے ہیں۔
ہمارے بزرگوں نے بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے لیے چار صورتحال کی سیاسی پیش گوئی کی تھی، وہ یہ ہیں کہ ''حکمران پرانے طریقوں سے حکمرانی نہ کرپاتے ہوں، عوام غذائی قلت کے شکار ہوں، حالات بدلنے کے لیے عوام اٹھ کھڑے ہونے کے لیے تیار ہوں اور ایسی جرأت مند قیادت ابھر کر آئے جو مثبت رہنمائی کے ذریعے سماج کو بدل دے''۔ ان نکات پر اگر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ پاکستان میں حکمران پرانے طور طریقوں سے حکمرانی نہیں کر پا رہے ہیں۔
ایک دوسرے کو بے نقاب کررہے ہیں، اس کے نتیجے میں عوام کے سامنے برہنہ کھڑے ہیں۔ عوام غذائی قلت کا خاصی حد تک شکار ہیں، ستر فیصد عوام غربت میں مبتلا ہیں۔ مختلف مسائل پر جدوجہد کے دوران ابھرتی ہوئی قیادتیں نظر آنے لگی ہیں اور چوتھی شرط یہ کہ انقلاب کے لیے اٹھ کھڑی ہونے کے لیے عوام تیار ہوں۔ یہ شرط پوری نہیں ہورہی ہے۔ اس لیے کہ اٹھ کھڑے تو ہورہے ہیں، مگر مختلف خطوں، طبقوں اور موضوعات پر الگ الگ ہوکر جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔ جدوجہد کرنے والی قوتیں آپس میں ربط اور فکری ہم آہنگی کے بغیر لڑ رہی ہیں۔ اس لیے انقلاب برپا نہیں ہورہا ہے۔ مگر یہ لڑائی جاری رہی تو ایک روز انقلاب ضرور برپا ہوگا۔
ایک مارکسی دانشور اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ انارکسٹ براہ راست کمیونسٹ انقلاب کی بات کرتے ہیں مگر مارکس نے کہا تھا کہ جب مزدور طبقہ اپنے اہداف پورے کرلے گا، ذہنی اور مادی ضروریات عوام کو دینے کے قابل ہوجائے گا تو کمیونسٹ سماج قائم ہوگا۔ چلو انھوں نے یہ تو مانا کہ انارکسٹ کمیونزم لانا چاہتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ اہداف پورا ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ اگر صدیاں بیت جائیں تو کیا سرمایہ داری پلٹ کر واپس نہیں آئے گی؟ ماضی میں ایسا ہوچکا ہے۔
ریاست درحقیقت جبر کا ادارہ ہے، ریاست کا وجود ہی تب ہوا جب ذاتی ملکیت وجود میں آئی۔ جب ذاتی ملکیت نہیں تھی تو ریاست کا وجود بھی نہیں تھا۔ جہاں جائو، جو کھائو، جس سے ملو، جہاں رہو، کوئی پابندی نہیں تھی۔ اب جائیداد کے تحفظ کے لیے یہ پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ ریاست کے چار بنیادی ذیلی ادارے ہیں اور وہ ہیں اسمبلی، عدلیہ، فوج اور میڈیا۔ یہ سرمایہ دارانہ ریاست میں سرمایہ داروں کی، جاگیردارانہ ریاست میں جاگیرداروں کی، اور غلامانہ ریاست میں آقائوں کی ملکیت اور جائیداد کی محافظ ہوتے ہیں۔ ہماری اسمبلی کو لے لیں، کون سا ایسا اسمبلی رکن ہے جو عوام کے ساتھ رہتا ہے اور عوام کے ساتھ بس میں سفر کرتا ہے؟ یہ کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بنتے جا رہے ہیں۔ یہی صورتحال عدلیہ کی ہے۔
عدالتوں میں کسی بھی کلرک، پیشکار، پولیس، وکیل کو رشوت دیے بغیر مقدمہ آگے نہیں بڑھتا۔ حال ہی میں خدیجہ نامی لڑکی کو 23 چاقو کا وار کرنے والا لڑکا بری ہوگیا۔ اب تک عدالتوں میں صاحب جائیداد اور اعلیٰ عہدیدار اکثر بری ہوجاتے ہیں اور غریب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے۔ رائو انوار بڑی شان سے عدالت میں پیش ہوتا ہے اور نقیب اﷲ کے والد تلاشی دیتے ہوئے عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ ہاں مگر کچھ جج اور پیشکار ایماندار بھی ہوں گے مگر بحیثیت طبقہ، صاحب جائیداد طبقات کا ہی ساتھ دیتا ہے، اس کا اعتراف ہماری عدلیہ کے بعض جج حضرات خود کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ''عدالتوں کو بددیانتی سے پاک کرنا ہوگا''۔ تیسرا ادارہ ہے فوج۔ اس میں بھی ایماندار لوگ ہوں گے اور ہیں۔ مگر جب جنرل اسکندر مرزا، جنرل ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف اپنی حلف برداری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرتے ہیں تو انھیں کیونکر عوام قبول کرسکتے ہیں۔ مارشل لاء نافذ کرنا کسی بھی طور پر عوام دوست یا امن پسند عمل نہیں ہے۔ اقتدار کی پرامن منتقلی سے ہی فوج اقتدار پر قابض نہیں ہوسکتی ہے۔
اس عمل کا موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف نے بھی اقرار کیا ہے کہ ''فوج سیاست، انتخابات اور جمہوری عمل میں مداخلت نہیں کرے گی''۔ اب رہا میڈیا، میڈیا ہائوس اپنی ریٹنگ کے لیے کچھ عوام کی خبریں تو دیتا ہے مگر وہ ہمیشہ حکمران طبقات کی ہی تقلید کرتا ہے۔ ہاں مگر کچھ میڈیا، صحافی اور پروگرام عوام دوست اور غیر جانبدار ہوتے ہیں، مگر بحیثیت مجموعی میڈیا ہائوس بھی صاحب جائیداد طبقات کا ہی محافظ ہوتا ہے۔ کبھی بھی آپ نے کسی مزدور یا کسان کو سیاسی تجزیہ کرنے کے لیے نہیں بلاتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ صرف صاحب جائیداد اور پیٹی بورژوازی (ادنیٰ سرمایہ دار) کو ہی مدعو کیا جاتا ہے۔ پھر یہ ثابت ہوا کہ ریاست اور اس کے ذیلی ادارے محنت کشوں اور پیداواری قوتوں کی نمایندگی کرنے کے بجائے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی ہی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی صورتحال سیاسی جماعتوں کی ہے۔
اب جتنی بورژوا سیاسی جماعتوں نے گھونسلے بدلے ہیں اور انتخابات میں امیدوار بننے کے لیے ٹکٹ حاصل کیے ہیں، وہ سبھی صاحب جائیداد طبقات کی نمایندگی کرتے ہیں۔ جتنے بورژوا رہنما اپنی اپنی جماعتوں کے ترجمان بنے ہوئے ہیں، وہ غلطی سے بھی محنت کشوں کے مسائل پر بات نہیں کرتے۔ سب کو کم سے کم تنخواہ 15000 روپے دلوانے، پینے کا صاف پانی مہیا کرنے، مزدوروں کو حق انجمن سازی اور کسانوں میں زمین بانٹنے کی بات نہیں کرتے یا کوئی وعدہ بھی نہیں کرتے۔ عدالت قانون کی رکھوالی کرنے اور لوٹ کے مال کی بازیابی کی بات تو کرتی ہے لیکن یہ قانون مزدوروں اور کسانوں پر لاگو نہیں کرتی۔
یونان کے چودھویں صدی کے ذہین فلسفی، دانشور اور موسیقار 'سو لو نو' نے کہا تھا کہ ''قانون ایک ایسا مکڑی کا جال ہے جسے طاقتور پھاڑ کر نکل جاتا ہے اور کمزور پھنس جاتا ہے''۔ یہی آج پاکستان سمیت دنیا بھر کی قومی ریاستوں میں ہورہا ہے۔ امریکا میں ہر آٹھواں کالا آدمی جیل میں مقید ہے اور پاکستان میں اثر ورسوخ رکھنے والے، امیر اور ان کے بچوں کو جرائم کرنے پر کوئی سزا نہیں ہوتی، جب کہ اگر کوئی غریب قتل کرے تو اسے سزا ہوجاتی ہے۔ یہ تفریق سرمایہ دارانہ نظام کی برائی نہیں، بلکہ ناگزیر نتیجہ ہے۔ ابھی حال ہی میں کوئٹہ میں چار کان کنان، ٹرانسپورٹ حادثات میں چھ مزدور اور وزیرستان میں چھ محنت کشوں کی شہادتوں کا نہ خاطر خواہ تذکرہ کیا گیا اور نہ مجرموں کو کوئی سزا دی گئی، اس لیے کہ یہ سب محنت کش تھے۔ اگر کوئی وزیر، مشیر یا جرنیل مرتا تو آسمان و زمین ایک ہوجاتے۔
اس لیے ضروری ہے کہ عوام کے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد جاری رکھتے ہوئے جبر کی ریاست کے خاتمے کی کوشش کی جائے۔ ریاست جب وجود میں نہیں تھی اور سائنس کی اتنی ترقی بھی نہیں ہوئی تھی تو لوگ دنیا میں اتنے بھوک سے مرتے تھے اور نہ کوئی کھرب پتی تھا۔ سب مل کر پیداوار کرتے تھے اور مل کر پیداوار کو بانٹ لیتے تھے۔ وہ دن جلد آنے والا ہے، جب ریاستی جبر کا خاتمہ ہوگا، ساری دولت سارے لوگوں کی ہوگی۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا۔ کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ چہار طرف خوشحالی اور محبتوں کے پھول کھلیں گے۔ ایسا ایک سماج جس کا آج ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔