معیشت کی بہتری کے لیے
تجارت پر مختلف نوعیت کی پابندی کا سبب دونوں ممالک کے درمیان کشمیر، سیاچن اور سرکریک کے تنازعات ہیں۔
میرے ایک دوست کا تعلق قصور سے ہے۔ وہ صنعتکار ہیں اور اسی علاقے میں ان کی دو ٹیکسٹائل ملیں ہیں، جن میں بیڈ شیٹ وغیرہ تیار کی جاتی ہیں۔ بھارتی ریاست ہریانہ کے شہرکرنال کا ایک بیوپاری ان کی مصنوعات خریدتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت وہ اپنی خواہش اور ضرورت سے بہت کم مال منگوا رہا ہے، کیونکہ مال کرنال تک پہنچنے میں وقت اور خرچ کئی گنا لگ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مال ٹرالرزکے ذریعے پہلے کراچی جاتا ہے، جہاں سے پانی کے جہازوں پر دبئی بھیجا جاتا ہے۔
دبئی سے پھر بھارتی جہاز میں لوڈ ہوکر ممبئی کی بندرگاہ تک پہنچتا ہے۔ ممبئی سے کرنال تک ٹرالر تین دن میں پہنچ پاتا ہے۔ یوں قصور سے بھیجی گئی مصنوعات کرنال تک پہنچنے میں کم و بیش ایک ماہ لے لیتی ہیں، جب کہ خطیر سفری اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر قصور فیروز پور راستہ کھل جائے تو جس مال کو کرنال تک پہنچانے میں تقریباً ایک ماہ لگتا ہے، وہ 12سے15گھنٹے میں اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے، کیونکہ فیروز پور سے ہریانہ کے راستے دہلی تک موٹر وے تعمیر ہوچکی ہے۔ جس کے ذریعے کار میں چھ جب کہ ٹرالر یا ٹرک کے ذریعے 12گھنٹے میں کرنال پہنچا جاسکتا ہے۔
میرے دوست کا کہنا ہے کہ کرنال کا آڑتھی ہر ہفتے دو کروڑ روپے کی مصنوعات خریدنے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر خریدار بھی اس کی مصنوعات خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، جس کا فائدہ پاکستان کو ہوگا۔ کیونکہ اس طرح ایک طرف پاکستانی مصنوعات کوایک بڑی منڈی ملنے کے امکانات ہیں ۔ دوسری طرف صنعت کے فروغ سے روزگار میں اضافے کے بھی قوی امکانات ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تجارت اور عام لوگوں کی آمد و رفت کے لیے صرف واہگہ اٹاری بارڈر کھلا ہوا ہے، مگراس پر مختلف نوعیت کی ان گنت بندشوں کے باعث دوطرفہ آزادانہ تجارت ممکن نہیں ہے۔ بھارتی تحقیقی ادارے (ICRIER)کے مطابق اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان رسمی تجارت کا حجم 1.96 بلین امریکی ڈالرز ہے۔ جب کہ غیر رسمی تجارت کا حجم 4.71 بلین امریکی ڈالرز ہے جو آج کی دنیا میں مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہے۔
تجارت پر مختلف نوعیت کی پابندی کا سبب دونوں ممالک کے درمیان کشمیر، سیاچن اور سرکریک کے تنازعات ہیں۔ ان تنازعات میں ایک نیا تنازع پانی کی تقسیم کا بھی کھڑا ہوگیا ہے جو کسی بھی وقت سنگین شکل اختیار کرسکتا ہے۔ایسا محسوس ہو رہا ہے ، ٹریک ٹو کے ذریعے تعلقات کی بحالی کی جو امید پیدا ہوئی تھی، اس کے بارآور نہ ہونے کے امکانات بھی کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو دنیا کے کئی خطوں میں مختلف ممالک کے درمیان مختلف نوعیت کے تنازعات موجود ہیں۔ مگر ان ممالک کی حکومتوں نے اپنے ملک کی معیشت کے استحکام اور عوام کی خوشحالی کی خاطر ان تنازعات کو اپنی جگہ برقرار رکھتے ہوئے، تجارتی تعلقات بحال کیے ہیں۔ کیونکہ ان ممالک کی حکومتیں اور منصوبہ ساز یہ سمجھتے ہیں کہ باہمی تجارت ہی صنعتی ترقی کے ذریعے معیشت کو استحکام دینے کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے تنازعات کو پس پشت ڈالتے ہوئے تجارت کے ذریعے تعلقات کو نئی سمت دے رہے ہیں۔اس نئے رجحان کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے اہم مثال چین اور امریکا کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کی ہے۔ چین اور امریکا کے درمیان گزشتہ مالی سال کے دوران دوطرفہ تجارت کا مجموعی حجم557بلین ڈالر تھا۔ امریکا کی چین میں سرمایہ کاری اس کے سوا ہے۔ امریکی تحقیقی ادارے کے مطابق چین کے ساتھ تجارت کے نتیجے میں امریکا میں 26 لاکھ نئے روزگار(Jobs) پیدا ہوئے ہیں حالانکہ تائیوان کے مسئلے پر امریکا اور چین کے درمیان شدید نوعیت کے اختلافات آج بھی موجود ہیں۔ تاریخی طور پر تائیوان چین کا حصہ ہے، جب کہ امریکی ہٹ دھرمی کے سبب تائیوان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
دوسری طرف چین کے بھارت کے ساتھ تبت کے بعض علاقوں پر شدید نوعیت کے تنازعات ہیں۔ 1962میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بھی ہوچکی ہے، مگر چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا موجودہ حجم 100 بلین امریکی ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ جس میں آنے والے برسوں میں مزید اضافے کا امکان ہے، اگر اس جواز کو تسلیم کرلیا جائے کہ پاک بھارت تجارت کے حجم میں کمی کا سبب سنگین نوعیت کے تنازعات ہیں، تو پھر دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے حجم کے کم ہونے کے کیا اسباب ہیں ، یہ سمجھ سے باہر ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی ناہمواری کے اثرات جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم SAARC پر بھی پڑ رہے ہیں۔ جواپنے قیام کے وقت سے تقریباً غیر فعال ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خطے کے یہ دو اہم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر اپنے تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ عوامی حلقوں کی جانب سے یہ کوشش کی گئی کہ تجارت اور عوام کے عوام سے روابط کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنائے جائیں ، مگرسول سوسائٹی اور متوشش شہریوںکی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکی بلکہ Statsu quo میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاک بھارت تنازعات اور تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ کی وجہ سے خطے کے دیگر ممالک کی معیشت کی تیز رفتاری گوکہ متاثر ہورہی ہے ، لیکن انھوں نے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے دیگر ذرایع کا استعمال شروع کردیا ہے۔اس کے برعکس پاکستان کی معیشت تسلسل کے ساتھ روبہ زوال ہے جس کے کئی اسباب ہیں۔ اول، غیر متوازن معاشی اور تجارتی پالیسیاں ۔دوئم، ملک میں کئی دہائیوں سے جاری توانائی کا بحران، جس کی وجہ سے صنعتی سیکٹر روبہ زوال ہے۔ سوئم، ریاست کے مختلف انتظامی شعبہ جات میں عدم تعاون ۔ چہارم، غیر مستحکم سیاسی و انتظامی ڈھانچہ۔ پنجم، ٹیکسیشن اورکسٹم ڈیوٹیزکا غیر متوازن نظام۔
ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق جولائی 2016 سے مارچ 2017کے دوران پاکستان کی برآمدات میں3.1فیصد کمی آئی اور یہ 15.1بلین امریکی ڈالر تک گرگئیں۔ اس کے برعکس درآمدات 21 فیصد اضافے کے ساتھ 48.5 بلین ڈالر کی سطح تک پہنچ گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تجارتی خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح تک جا پہنچا ہے جوکہ 2016-17کے دوران30 بلین ڈالر کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں معیشت کے استحکام کی توقع عبث ہے، جب کہ ملک تاریخ کے بدترین سیاسی انتشار میں بھی مبتلا ہو۔
ایسی صورتحال میں ملک بھر کے صنعتکاروں اور تاجروں کی خواہش یہ ہے کہ خطے کے ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے تاکہ تجارتی سرگرمیوں میں حائل رکاوٹوں کے خاتمے سے معاشی استحکام آسکے۔ یہی خواہش ملک کے متوشش شہریوں اور سول سوسائٹی کی بھی ہے۔ اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ سرد جنگ کی تزویراتی حکمت عملیوں سے باہر نکل کر دنیا کی نئی حقیقتوں کا ادراک کیا جائے اور خطے کے ممالک کے ساتھ اولین ترجیح کے طور پر تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ حال ہی میں دونوں ممالک (پاکستان اور بھارت) کے جاسوسی کے پریمئر اداروں کے سابق سربراہان نے بھی اپنی مشترکہ کتاب میں انھی جذبات کا اظہار کیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلقات میں بہتری کی تمنا دونوں طرف کے سلامتی کے اداروں میں بھی پائی جاتی ہے ۔