’’بوجھ ایسا کہ تہوں میں اتار لایا ہے‘‘

گھروں میں کام کرنے والی8سالہ ثناء کو نشئی والدین کے لئے ہیروئن بھی خریدنا پڑتی ہے.


Rana Naseem April 28, 2013
گھروں میں کام کرنے والی8سالہ ثناء کو نشئی والدین کے لئے ہیروئن بھی خریدنا پڑتی ہے۔ فوٹو: فائل

کوئی بھی ایسی چیز جو جسم یا دماغ کی فعالیت کے انداز کو بدل دے وہ نشہ آور ہوتی ہے۔

منشیات کا استعمال انسان کی سماجی، جسمانی اور دماغی صحت کو بے حد متاثر کرتا ہے۔ بہت سارے افراد زندگی کی دشواریوں پر قابو پانے کے لئے اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لئے منشیات سے درد مخفی اور خوف دور ہوسکتا ہے۔ تاہم، یہ حل جب لت بن جائے تو زندگی از خود ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ نشہ انسان کو دنیا و مافیہا سے بے خبر کر دیتا ہے، اس لت میں مبتلا ہو کر انسان عزت نفس، اپنے اور پرائے کی تمیز تک بھول جاتا ہے۔

نشہ کی لعنت نہ صرف انسان کو دماغی طور پر مفلوج کر دیتی ہے بلکہ وہ جسمانی طور پر بھی ناکارہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے گھر اور خاندان کا معاشی نظام تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ سرگودھا کے نواحی علاقے 107جنوبی کے رہائشی محمد حسین کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ، جب وہ نشہ میں مبتلا ہوا تو اس کے گھر کا سارا معاشی نظام تباہ اور بیوی بچے دربدر ہوگئے۔ ایسے حالات میں ایک ننھی کلی، جس کے گڑیوں سے کھیلنے اور سکول جانے کے دن تھے، وہ کم عمری میں ہی اپنے پورے خاندان کی کفالت کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانے پر مجبور ہو گئی۔



سرگودھا کے نواحی علاقے 107جنوبی میں پورے خاندان کی کفالت کرنے والی 8سالہ معصوم بچی نشئی والدین کے چارپائی سے لگنے پر پورے خاندان کی کفالت کرنے کے ساتھ ساتھ والدین کے لئے منشیات خرید کر لانے پر بھی مجبور ہے۔ پل گیارہ کے چک نمبر 107 جنوبی میں 8 سالہ ثناء حسین کے والد محمد حسین کو اس کے دوستوں نے 6 سال قبل نشے پر لگا دیا، اس وقت ثناء کی عمردو سال تھی۔ نشے کا عادی ہونے سے پہلے ثناء کا والد رکشہ چلاتا تھا جس سے حاصل ہونے والی آمدن سے وہ بڑے احسن طریقے سے خاندان کی کفالت کر رہا تھا، اور اسی آمدن سے اس نے نہ صرف گھر کے لئے نئے کمرے تعمیر کروائے بلکہ گھر میں ہر قسم کا ساز و سامان بھی فراہم کیا۔ محمد حسین ہنسی خوشی اپنے پورے خاندان کے ہمراہ زندگی بسر کر رہا تھا کہ اسی دوران اس کے کچھ ایسے دوست بن گئے جو کہ نشے کے عادی تھے۔

نشے کا عادی ہونے کے بعد محمد حسین کو رکشہ چلا کر جو آمدن ہوتی تھی وہ اسے نشے میں اڑانے لگا۔ اب گھر میں وہ ایک پیسہ بھی نہیں دیتا تھا، جس کی وجہ سے اکثر اس کی بیوی نسیم بی بی اس سے جھگڑا کرتی تھی۔ محمد حسین روز روز کے جھگڑوں سے تنگ تھا جس پر اس نے ایک اچھوتا فیصلہ کیا۔ اس نے سوچاکے اگر اس کی بیوی بھی نشہ کی لت میں مبتلا ہو جائے توگھر میں ہونے والے روز روز کے جھگڑوں سے اس کی جان چھوٹ جائے گی۔ محمد حسین کی لگاتار کوششیں بالآخر رنگ لے آئیں اور 2 سال قبل وہ اپنی بیوی نسیم بی بی کو بھی نشہ کی لت میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

دونوں میاں بیوی نشے کی عادت میں مبتلا ہوئے تو گھر کے معاشی نظام کا جنازہ نکل گیا۔ دو افراد کی نشہ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے رکشہ چلانے سے ہونے والی آمدن کم پڑنے لگی تو محمد حسین نے رکشہ فروخت کر دیا، جس سے حاصل ہونے ولے پیسوں سے انہوں نے چند ہفتوں تک تو اپنی ضرورت کو پورا کیا، لیکن آخر کب تک چلنے تھے یہ پیسے، رقم ختم ہوئی تو آہستہ آہستہ میاں بیوی نے گھر کا سامان فروخت کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران دونوں میاں بیوی مسلسل نشہ سے اس قدر کمزور ہو گئے کہ وہ کسی بھی قسم کا کام کرنے کے قابل نہ رہے۔



فوٹو: فائل

محمد حسین جب نشہ میں مبتلا ہوا تو اس وقت صرف اس کی ایک بیٹی ثناء تھی، بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے اسے مزید چار بچوں سے نوازا، جن میں ثنا کے علاوہ ردا، طلعت، تصور اور ذربت رباب شامل ہیں۔ پانچ بچوں کی پیدائش کے باوجود بھی دونوں میاں بیوی کو کچھ خیال نہ آیا اور وہ بدستور نشہ میں ڈوبے رہے،گھر میں فاقے ہونے لگے تو سب سے بڑی بیٹی ثناء حسین نے پورے خاندان کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھانے کا فیصلہ کیا اور اس نے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ اب آٹھ سالہ ثناء حسین لوگوںکے گھروں میں کام کر کے اور بھیک مانگ کر اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گھر کے سارے کام جن میں کھانا پکانا، برتن دھونا، صفائی کرنا، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو نہلانا اور پینے کے لئے دور دراز سے پانی بھر کر لانا بھی ثناء کی ذمہ داریوں میں ہی شامل ہے۔ لوگوں کے گھروں میں کام کر کے ثناء کو کچھ روپے مل جاتے ہیں جبکہ جن گھروں میں ثناء کام کرتی ہے ان کے مالکان بچا کھچا کھانا اور اپنے بچوں کے پرانے کپڑے بھی اسے دے دیتے ہیں۔

یہ معصوم لڑکی نہ صرف اپنے بہن بھائیوں اور والدین کو کھانے پینے کا سامان مہیا کرتی ہے بلکہ ستم ظریفی یہ کہ وہ اپنے ماں باپ کو نشہ بھی فراہم بھی کرنے پر مجبور ہے۔ نشہ نہ ملنے سے نشئی والدین کی حالت بگڑ جاتی ہے جسے ثناء دیکھ نہیں سکتی۔ وہ ہر روز قریبی گائوں سے اپنے ماں باپ کو پچاس پچاس روپے کے ہیروئن کے دو ''ٹوکن'' بھی خرید کر لا دیتی ہے، تا کہ اس کے والدین کی زندگی کی ڈور بندھی رہے۔ اور اس کے لئے وہ کچھ بھی کرنے کو ہر وقت تیار رہتی ہے۔ نشہ کے عادی والدین سمیت پورے خاندان کی کفالت نے معصوم ثناء کو وقت سے پہلے ہی بڑا کر دیا ہے۔



خدا کی رحمت (ثناء) کے لئے زندگی ایک بہت بڑی زحمت بن چکی ہے، جس نے اس کی تمام خواہشات کا ابھی سے گلا گھونٹ دیا ہے۔ ثناء کا کہنا ہے کہ اسے تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق ہے اور وہ بھی سکول جانا چاہتی ہے لیکن گھریلو حالات اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ میں خود تو نہیں پڑھ پا رہی لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ میرے چھوٹے بہن بھائی ضرور تعلیم حاصل کریں تا کہ وہ معاشرے کے کارآمد شہری بن سکیں۔ اگر میرے والدین ٹھیک ہو جاتے ہیں تو نہ صرف اس کی بلکہ اس کے کمسن بہن بھائیوں کی بھی زندگی سنور سکتی ہے۔ میرے لئے اس دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی خوشی نہیں ہوسکتی کہ میرے والدین روبصحت ہو جائیں۔

ثناء کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ بدقسمتی سے نشہ کی لت میں مبتلا تو ہو گئے ہیں مگر وہ اب اس لعنت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے اندر یہ سکت نہیں کہ وہ نشے کو چھوڑ سکیں۔ اپنی ننھی کلی کو لوگوںکے گھروں سے مانگ تانگ کر گھر چلانے پر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ والدین نے مخیر حضرات اور حکومت سے اپیل کی ہے کہ ان کا علاج کروایا جائے تا کہ وہ اپنے معصوم بچوں کی کفالت کر سکیں۔ اگر ہمارا ایک بار علاج کروا دیا جائے تو دوبارہ اس زہر کی طرف کبھی دیکھیں گے بھی نہیں۔ اپنی بے بسی پر آہ و بکا کرنے والے محمد حسین کا کہنا تھا کہ اگر ان کا علاج کروایا جاتا ہے توٹھیک ہے، ورنہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ نشہ کی یہ عادت ان کی جان لے لے گی اور اگر وہ مر گئے تو ان کے معصوم بچے دربدر ہو جائیں گے۔

پاکستان میں ہر سال نشہ کرنے والے افراد میں 0.6 ملین یعنی 6 لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں کسی بھی قسم کے نشہ میں مبتلا افراد کی تعداد ایک کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے، جس میں15لاکھ افیون، ساڑھے7لاکھ ہیروئن، 15لاکھ چرس اور 2لاکھ افراد انجکشن کے ذریعے نشہ کرتے ہیں، جبکہ ان ہی میں سے 75ہزار افراد ایڈز کے مرض میں مبتلا ہیں۔ سرگودھا میں نشہ کے عادی افراد کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 5 لاکھ سے زائد ہے، لیکن ضلع بھر میں ایک بھی سرکاری ترک نشہ سنٹر نہیں ہے۔ ملک بھر میں ترک نشہ سنٹرز کی قلت اور پرائیویٹ علاج پر لاکھوں کے اخراجات کی وجہ سے نہ جانے کتنے لاکھ بے بس افراد نشہ چھوڑنے کی خواہش دل میں لئے سانسیں بند ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں