اپنے حصے کا پانی لیں گے مائی جوری کو ووٹ دیں گے

بلوچستان کے ایک حلقے میں ہونے والے ضمنی الیکشن کی روداد، جن میں ایک غریب عورت نے سردار سے مقابلہ کیا۔


Zuber Niazi April 28, 2013
بلوچستان کے ایک حلقے میں ہونے والے ضمنی الیکشن کی روداد، جن میں ایک غریب عورت نے سردار سے مقابلہ کیا۔ فوٹو: فائل

اگرچہ بلوچستان کے اس نہایت پسماندہ گاؤں کے باسیوں کا اپنے قبائلی سرداروں کے خلاف ووٹ دینے کا یہ پہلا تجربہ تھا، جس میں اُنہیں کام یابی نہ مل سکی، لیکن اس الیکشن نے گوٹھ غلام محمد کے کسانوں میں وہ شعور بیدار کیا، جس کی آج پورے ملک کو اشد ضرورت ہے۔

یہ 2008ء کے عام انتخابات تھے جب گوٹھ غلام محمد نئی تاریخ رقم ہوئی۔ اس افلاس زدہ گائوں کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں یہاں مڈل اسکول بن سکا اور نہ ہی لوگوں کو علاج معالجے کی مناسب سہولتیں میسر ہیں۔ اسکول کی عمارتیں وڈیروں کے اوطاق کے طور پر استعمال ہوتی ہیں اور اساتذہ سے کمدار کا کام لیا جاتا رہا ہے۔ خواتین صبح سویرے سروں پر مٹکے اُٹھائے پانی بھرنے نکلتی ہیں، دو میل کا فاصلہ طے کرکے ایک ہینڈ پمپ سے پانی بھرتی اور گھر لوٹ کر پورا دن کام کاج اور کھیتی باڑی میں صرف کردیتی ہیں۔

بنیادی ضروریات زندگی سے محرومی نے گائوں والوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ ہر مرتبہ جمالی سرداروں کو ووٹ دے کر کام یاب کرواتے ہیں، لیکن اُنہوں نے کبھی بھی یہاں کے مسائل کو حل کرنے میں دل چسپی نہیں لی۔ کیوں نہ اس مرتبہ اپنا ووٹ جمالی سرداروں کے نام زد کردہ امیدوار رستم خان جمالی کے بجائے پیپلزپارٹی کے امیدوار سردار عطاء اللہ بُلیدی کو دیا جائے۔ اس سوچ کے ساتھ گائوں کے کچھ نوجوان میدان میں کودے۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر سرداروں کے خلاف انتخابی مہم چلائی۔

اگرچہ سردار عطاء اللہ بلیدی یہ الیکشن جیتنے میں کام یاب نہ ہو پائے، لیکن گوٹھ غلام محمد کے تمام پولنگ اسٹیشنز سے اُنہیں کام یابی حاصل ہوئی۔ گوٹھ والوں کے اس طرز عمل پر اُن کے خلاف سرداروں کی جانب سے انتقامی کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ ان کے ذرائع معاش پر قدغن لگائی جانے لگی۔ ان کے حصے کا زرعی پانی بند اور چوری ہونے لگا۔ معاشی بدحالی سے نمٹنے کے لیے گوٹھ کے کچھ لوگوں نے نقل مکانی کرلی تو کچھ اپنی زمینیں ہونے کے باوجود دوسروں کی زمینوں پر بزگری اورکھیت مزدوری کرنے لگے۔

گاؤں کی زمین پر تبدیلی کا بیج بونے والے باشعور نوجوانوں پر مشتمل گروہ میں مومن جمالی، صاحب ڈنو، عبدالکریم، صدورو جمالی اور دیگر شامل تھے۔ ان کے آبائو اجداد ماضی کی مختلف سیاسی تحریکوں میں پیش پیش رہے تھے، لیکن ان نوجوانوں کا رجحان عوامی پارٹی پاکستان کی طرف رہا۔ یہ بائیں بازو کی ایک جماعت تھی جو گذشتہ برس ورکرز پارٹی پاکستان میں ضم ہو گئی۔ گوٹھ غلام محمد میں بیداری کی لہر سے لے کر مائی جوری کی انتخابی مہم تک تمام حکمت عملی عوامی پارٹی ہی کی مرتب کر دہ تھی۔

گوٹھ غلام محمد کے تمام پولنگ اسٹیشنوں میں سرداروں کی ناکامی نے نہ صرف گائوں والوں کے حوصلے بلند کردیے بلکہ اُنہیں یہ سوچنے پر بھی مجبور کر دیا کہ کیوں نہ اگلی بار وہ اپنوں میں سے کوئی ایسا امیدوار کھڑا کریں جو نہ صرف اُن کے مسائل کا ادراک رکھتا ہو بلکہ اُنہیں حل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہو۔ بظاہر خواب جس قدر حسین تھا، اس کی تعبیر بھی کچھ آسان نہ تھی۔ انتخابی مہم کے لیے سرمایہ تو درکار تھا ہی لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ تھا کہ بھلا کون ان وڈیروں اور سرداروں کے سامنے الیکشن لڑنے کی جرأت کر ے گا؟

پورا علاقہ جمالی سرداروں کے کنٹرول میں ہے اور اگر کچھ وڈیرے اُن کے کنٹرول میں نہیں بھی ہیں تو اُن پر دیگر سرداروں کا اثر و رسوخ ہے۔ اپنی دہشت قائم رکھنے کے لیے اُن کے پاس خطرناک ہتھیار، ڈاکو اور اغواء کار تو ہیں ہی، ساتھ ہی ساتھ قبائلی جھگڑوں میں اُلجھا کر عمر بھر کورٹ کچہری کے دھکے کھلانے پر مجبور کرنے والے غنڈوں کی بھی اُن کے ہاں کمی نہیں۔ علاقے کی پولیس، تعلیم، صحت اور تمام سرکاری اداروں کے افسران سرداروں کے مقرر کردہ ہیں، جو ہر الیکشن اُنہیں جتوا کر اُن کے احسانوں کا بدلہ چکاتے ہیں۔ بھلا ایسی صورت حال میں سرداروں کی مخالفت کا کوئی سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟

''تو پھر جیو اسی طرح گھٹ گھٹ کر، کرتے رہو عمر بھر ان کی غلامی۔ کچھ بھی ہو ہم اپنے حالات بدلنے کے لیے ان کا مقابلہ کریں گے۔'' نوجوانوں کا یہ گروہ اپنی بات پر ڈٹا ہوا تھا اور ہر حال میں جمالی سرداروں کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کرنے پر بضد تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ بھلے اُن کا امیدوار کام یاب نہ ہو پائے لیکن گاؤں میں سیاسی عمل کے آغاز سے ایک ایسا ماحول ضرور بن جائے گا جس میں اُن کے لیے کسی سیاسی جماعت کا دفتر کھولنا ممکن ہو جائے گا۔



فوٹو: فائل

عام انتخابات کے بعد کچھ عرصہ حالات معمول کے مطابق رہے، لیکن 6 اگست 2009 ء کو مسلم لیگ ق کے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی رستم خان جمالی کے کراچی میں قتل کے بعد بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی نشست PB-25 جعفرآباد 1-خالی ہوگئی اور یہاں آئندہ برس یعنی 10مارچ 2010ء کو ضمنی الیکشن کا اکھاڑا سج گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اس مرتبہ ٹکٹ نہ ملنے پر سردار عطاء اﷲ بلیدی آزاد الیکشن لڑ رہے تھے تو دوسری طرف جمالی سرداروں نے سردار ناصر خان جمالی کو اپنا امیدوار نامزد کیا۔ جمالی سرداروں نے پیپلزپارٹی کی حکومت ہونے کی وجہ سے پارٹی میں شامل ہوئے بغیر پاکستان پیپلز پارٹی سے ٹکٹ حاصل کیا، تاکہ الیکشن کے موقع پر ریاستی مشینری اُن کے ساتھ رہے۔

عوامی پارٹی کی جانب سے ابھی تک کوئی نام سامنے نہیں آیا تھا۔ یہ بات طے تھی کہ اگر زمینداروں کے خلاف ایک عام کسان یا کھیت مزدور کو کھڑا کیا گیا تو وہ اُسے پلک جھپکتے ہی منظر سے غائب کرا دیں گے۔ چناں چہ سوچا گیا کہ کسی عورت کو یہاں سے کھڑا کیا جائے۔ نوجوانوں کا خیال تھا کہ بلوچ معاشرے میں سرداروں کے لیے کسی عورت کے خلاف کھل کر انتقامی کارروائی کرنا آسان نہیں ہوگا، خاص طور پر ایسے موقع پر جب میڈیا گوٹھ غلام محمد کی سیاست کو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہوگا۔ ایک اور دل چسپ پہلو یہ بھی پیش نظر رکھا گیا کہ اُس خاتون کا شوہر ایسا شخص ہو جو زمینداروں کے جبر یا اُن کے اشاروں پر پولیس کے ممکنہ عتاب کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو، اور وہ کسی بھی مرحلے پر انتخابی عمل سے دستبردار نہ ہونے پائے۔ کافی سوچ بچار کے بعد قرعۂ فال مائی جوری کے شوہر نیاز حسین عرف نیازو کے نام نکلا۔

نیازو پر سندھ اور بلوچستان میں کئی مقدمات قائم تھے۔ ماضی میں نیاز حسین جلد دولت مند بننے کے شوق میں کچھ منفی سرگرمیوں میں ملوث رہا تھا، لیکن جب اُسے احساس ہوا کہ اُس کے والد کی چھوڑی ہوئی ساری دولت جرگوں اور تھانہ کچہریوں کی نذر ہو چکی ہے، تو اُس نے توبہ کرلی اور نیازو سے نیاز حسین بن گیا۔ وہ بنیادی طور پر ایک نڈر آدمی تھا۔ علاقے کے وڈیرے، سردار اور جرائم پیشہ گروہوں میں نیازو کا نام مشہور تھا، چھوٹے موٹے وڈیرے نیازو کی دلیری سے ڈرتے تھے۔ نیازو کی بیوی مائی جوری گھریلو کام کاج کے علاوہ کھیتوں میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ وہ بھی دیگر عورتوں کی طرح روزانہ دو میل پیدل چل کر اپنے گھر والوں کے لیے پانی کا بندوبست کر تی۔ اس کے علاوہ 9 بچوں کی پرورش بھی اُس کی ذمہ داری تھی، جن میں ایک بیٹی معذور ہے۔

''لیکن بابا وہ تو ان پڑ ھ ہے، اُس کو تو اردو بھی نہیں آتی۔'' نیاز حسین نے کہا۔ اُسے بتایا گیا کہ الیکشن لڑنے کے لیے تعلیم یافتہ ہونے کی شرط ختم ہوچکی ہے اور جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے تو وہ اپنی مادری و علاقائی زبان میں اپنی مہم چلائیں گی اور اگر وہ کام یاب ہوگئیں تو اسمبلی میں بھی یہی زبان استعمال کریں گی۔ گائوں کے ایک شخص نے مذاق میں کہا ''بتائو وہ محلے والوں اور تم سے لڑنا جھگڑنا جانتی ہے؟''،''اڑے بابا اس کام میں تو وہ نمبر ون ہے۔'' نیاز حسین کے اس جواب نے گائوں والوں کو بتایا دیا کہ وہ اپنی بیوی مائی جوری جمالی کو بلوچستان پی بی 25 جعفر آباد۔1 کے ضمنی انتخابات میں اپنے سردار کے بیٹے ناصر خان جمالی کے مد مقابل امیدوار بنانے کے لیے تیار ہے۔

ابتدائی طور پر تو گوٹھ کی ان انتخابی سرگرمیوں کا مخالف امیدواروں نے کوئی خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا۔ اُن کے نزدیک بھلا ایک غریب کسان کی ان پڑھ بیوی کو کون ووٹ دے گا، اور پھر الیکشن لڑنے کے لیے بہت بھاری سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سو چ کے وہ لمبی تان کر سو گئے۔ اس طرف عوامی پارٹی کے کارکنوں، جن میں خواتین کی بھی کثیر تعداد شامل تھی، ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکٹھایا۔ نوجوانوں بالخصوص خواتین کو متحرک کیا گیا۔ گائوں کے لوگوں ہی سے اس مہم کے لیے چندہ اکٹھا کیا گیا۔ چوں کہ علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ زرعی پانی کی چوری تھا اس لیے یہ نعرہ جلد ہی زبان زد عام ہو گیا:

اپنے حصے کا پانی لیں گے

مائی جوری کو ووٹ دیں گے

عوامی پارٹی کے کارکنوں نے لاڑکانہ اور حیدرآباد کے صحافیوں کو انتخابی مہم کی کوریج کے لیے متحرک کیا۔ سرداروں کی بڑی بڑی گاڑیوں اور اُن میں مسلح محافظوں کے مقابلے میں مائی جوری کی مہم میں گدھا گاڑیاں، سائیکلیں اور موٹر سائیکلیں استعمال ہو رہی تھیں۔ اسی اثناء میں میڈیا کو اس الیکشن کی بھنک پڑ گئی۔ خبر چلنے کی دیر تھی کہ بلوچستان کے اس پسماندہ ضلع کا یہ ضمنی الیکشن قومی میڈیا کا موضوع بن گیا۔ عوامی پارٹی کے کارکنوں نے اس سلسلے میں جو حکمت عملی تیار کی تھی وہ بڑی کارگر ثابت ہو رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ مائی جوری کو یہ نشست نہیں جیتنی تھی لیکن انتخاب میں اُس کے حصہ لینے سے جہاں ایک طرف فیوڈل ازم کا زور ٹوٹتا دکھائی دے رہا تھا تو دوسری طرف لوگوں کو یہ حوصلہ بھی مل رہا تھا کہ اگر وہ ہمت اور جرأت سے کام لیں اور اپنے اپنے علاقے کے معروضی حالات کا ٹھیک ٹھیک جائزہ لے کر سیاسی کام کو آگے بڑھائیں تو آج کے بڑے بڑے بت بھی مستقبل میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ان کے سامنے سرداروں اور وڈیروں سے ٹکرانے کی ایک مثال پہلے بھی موجود تھی۔ اس کا نام محمد عرس سیلرو تھا، جو پیشے کے اعتبار سے ایک عام مزدور تھا، لیکن اس نے 1988ء کے انتخابات میں سردار نادر مگسی کے خلاف الیکشن لڑ کر اُنہیں اس قدر ٹف ٹائم دیا کہ خود محترمہ بے نظیر بھٹو کو اُن کی حمایت کے لیے شہداد پور آنا پڑا۔ محترمہ کی وجہ سے عرس سیلرو کام یاب تو نہیں ہو سکا مگر تقریباً گیارہ ہزار ووٹ لے کر اُس نے سردار نادر مگسی کی ہیبت توڑ دی۔

ایک طرف عوامی پارٹی کے کارکن گھر گھر جاکر لوگوں سے ووٹ کی درخواست کر رہے تھے تو دوسری طرف میڈیا کی بدولت مائی جوری کی شہرت دنیا بھر میں پھیل چکی رہی تھی۔ دنیا کے کونے کونے سے اُس کی حمایت میں آوازیں اُٹھنے لگیں۔ سول سوسائٹی، مزدور اور کسان طبقے نے کھل کر اُس کا ساتھ دیا۔ الیکشن سے دو روز قبل یعنی 8 مارچ کو ہالینڈ کی مشہور صحافی سوزان، مائی جوری کے انٹرویو کے لیے خصوصی طور پر گوٹھ غلام محمد پہنچیں۔ واضح رہے کہ مائی جوری کے حلقۂ انتخاب ہی میں ایک شہر اوستہ محمد بھی ہے، جہاں کچھ عرصے قبل تین عورتوں کو کاری قرار دے کر زندہ درگور کیا گیا تھا اور یہاں کے منتخب نمائندوں نے بڑے فخر سے اس واقعے کو اپنی قبائلی روایت قرار دیا تھا۔ عالمی میڈیا میں اس انتخاب کو اس خبر کے تناظر میں دیکھا جارہا تھا۔

مخالفین نے مائی جوری کو اپنی حمایت میں بٹھانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کوئی بھی صورت کارگر اس لیے ثابت نہ ہوسکی کہ نیاز محمد پوری برادری کے سامنے یہ وعدہ کر چکا تھا کہ اگر اُن کا منتخب کردہ امیدوار کسی بھی مرحلے پر انتخابی عمل سے دستبردار ہوا تو وہ اُسے گولی مار دے گا، اور اگر وہ امیدوار وہ خود ہوا تو وہ اپنے آپ کو گولی مارلے گا۔

یکم مارچ 2010ء کو باقاعدہ طور پر مائی جوری کی انتخابی مہم شروع ہوئی۔ اُن کی پہلی ریلی کو ''حقوق مارچ'' کا نام دیا گیا۔ ریلی کی منزل گوٹھ غلام محمد سے گنداخہ شہر تھی۔ ریلی کے لیے لوگوں نے اپنی گاڑیاں اور ٹریکٹرز دینے کے وعدے بھی کیے تھے، لیکن کئی لوگ سرداروں اور وڈیروں کے خوف سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس کے باوجود بھی کثیر تعداد میں لوگ سائیکلوں، موٹر سائیکلوں اور گدھا گاڑیوں میں اس ریلی میں شریک ہوئے۔ ریلی جب گنداخہ شہر کے قریب پہنچی تو لوگوں نے دور سے کاروں کی بڑی تعداد کو مخالف سمت سے آتے ہوئے دیکھا۔ گاڑیاں جب قریب آئیں تو پتا چلا کہ ان میں سے کچھ ٹیکسی ڈرائیور ہیں، کچھ ٹیکسی مالکان، کچھ چھوٹے زمیندار اور کچھ مزدور جو مائی جوری کے پانی چوری روکنے کے مطالبے پر اُس کی حمایت کو آئے ہیں۔



فوٹو: فائل

عوامی مہم کا تیسرا بڑا اور اہم جلسہ 3 مارچ کو باگ ٹیل میں تھا۔ باگ ٹیل کے بزرگوں کے مطابق یہ علاقے کی تاریخ کا پہلا سیاسی جلسہ تھا جو غریبوں نے خود کیا تھا، جس میں نہ کرسیاں تھیں اور نہ ہی شامیانے، لیکن اس کے باوجود لوگوں نے کھڑے ہو کر پورے جلسے کی کارروائی سُنی۔ 6 مارچ کو متحدہ قومی موومنٹ نے مائی جوری کی حمایت کا اعلان کیا اور اپنے حامیوں کو ہدایت کی کہ وہ مائی جوری جمالی کے حق میں انتخابی مہم چلائیں اور ان کو ووٹ دیں۔ اُدھر سندھی اور اردو چینلز میں بھی مائی جوری جمالی کی حمایت میں خبریں آنے لگیں اور یوں بلوچستان کے اس چھوٹے سے حلقے کے انتخاب پر پورے ملک کی نظریں جم گئیں۔

اوستہ محمد میں کام یاب جلسے کے بعد جمالی سرداروں کے کیمپ میں کافی غصہ اور بے چینی پیدا ہوگئی تھی۔ اُنہوں نے قبائلی روایتی حملوں سے لے کر نقلی مائی جوری بنا کر اور پورے گائوں میں اُس سے اپنے حق میں دست بردار ہونے کے اعلان کروانے تک کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

3 فروری کو مائی جوری پریذائڈنگ آفیسر کے سامنے پیش ہوئی۔ پریذائڈنگ آفیسر نے مائی جوری سے پوچھا کہ کیا آپ PB-25 جعفرآباد کے ضمنی انتخاب میں کھڑی ہونا چاہتی ہیں؟ مائی جوری سمجھی کہ وہ پوچھ رہا ہے کہ کیوں کھڑی ہونا چاہتی ہو۔ وہ جوش میں اپنی کرسی سے کھڑی ہوئی اور کہا ٹیل تک پانی نہیں آتا، وڈیروں نے پانی بند کروایا ہے۔ گائوں میں پینے کے پانی کا نلکا وڈیرے کی اوطاق کے سامنے ہے، جہاں عورتیں پانی بھر نے نہیں جاسکتیں۔ سو سال سے زیادہ پرانا اسکول ٹوٹ پھوٹ گیا ہے، اس کی مرمت نہیں کروائی جاتی، اسکول کو بڑا نہیں کرتے، میں نہیں پڑھ سکی تو کیا میرے بچے بھی نہیں پڑھ سکتے ہیں۔

میں کوشش کروں گی کہ میرے علاقے کے مسئلے حل ہوں۔ پریذائیڈنگ آفیسر اور اس کا عملہ پہلے تو دل چسپی اور حیرت سے مائی جوری کی تقریر سنتا رہا، پھر اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسر نے بلوچی میں کہا، صرف یہ بتائو کہ تم اس انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہو؟ مائی جوری نے اس کا جواب بھی مختصر نہیں دیا بلکہ کہا کہ ہم غریبوں کا بھی حق ہے کہ الیکشن میں مقابلہ کریں اور اپنے حق کے لیے لڑیں۔ پریذائڈنگ آفیسر نے کہا آپ کے کاغذات منظور کیے جاتے ہیں۔

10مارچ کو الیکشن ہوا۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک ( فافین) کی رپورٹ کے مطابق حلقے میں انتخابی عمل انتہائی کشیدگی کے ماحول میں ہوا۔ میر ناصر خان جمالی اور سردار عطاء اللہ بلیدی کے مسلح حامی تمام پولنگ اسٹیشنز پر دندناتے رہے۔ رپورٹ کے مطابق مختلف پولنگ اسٹیشنز پر دونوں گروپوں میں تصادم بھی دیکھنے میں آیا۔ الیکشن سے ایک روز قبل مخالفین کی جانب سے نقلی مائی جوری سامنے لاکر پورے حلقے میں یہ اعلانات کروائے گئے کہ مائی جوری سرداروں کے حق میں دست بردار ہو چکی ہے۔ علاوہ ازیں دونوں مقابل امیدواروں کی جانب سے مائی جوری کا ووٹ بینک متاثر کرنے کے لیے شاید ہی کوئی ایسا حربہ تھا جو استعمال نہ کیا گیا ہو۔

بالٓاخر مخالفین کی کوششیں رنگ لائیں اور پی پی کے امیدوار میر ناصر خان جمالی 27,516 ووٹ حاصل کرکے کام یاب قرار پائے۔ ان کے مد مقابل سردار عطاء اللہ بلیدی نے 8915 ووٹ حاصل کیے جب کہ مائی جوری کے حصے میں صرف 491 ووٹ آسکے۔

اگرچہ مائی جوری یہ الیکشن نہیں جیت پائی، لیکن اُس غریب خاتون کی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد نہ صرف پاکستان بھر کے استحصال زدہ لوگوں کے لیے مثال بن گئی، جو کئی مرتبہ دھوکا کھانے کے باوجود آج بھی اس امید پر خاموش بیٹھے ہیں کہ اُن کا وڈیرا یا سردار اسمبلی میں جا کر اُن کی آواز بنے گا اور اُن کے مسائل حل کر ے گا۔ حالاں کہ وہ جانتے ہیں کہ اُن کا سردار الیکشن میں کروڑوں روپے اس لیے خرچ نہیں کر رہا کہ وہ اسمبلی میں جاکر اُن کی بات کر ے۔ اُس کی کوشش ہو گی کہ وہ اسمبلی پہنچ کر پہلے الیکشن میں جھونکا گیا سرمایہ سود سمیت وصول کرے اور پھر سرداری اور جاگیرداری مضبوط کرے۔ مائی جوری نے بتا دیا کہ عوام ان جاگیرداروں اور وڈیروں کے چنگل سے نکلنا چاہتے ہیں تو اُنہیں میدان میں نکلنا ہوگا، اور اپنے حقوق ان سے مانگنے کے بجائے چھیننا ہوں گے کیوں کہ ؎

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں