سب یوں ہی چلتا رہے گا
سیاسی اصلاحات کی مسلسل بات کی جاتی ہے مگر طریقہ انتقال اقتدار میں کوئی واضح تبدیلی دور دور تک نظر نہیں آتی۔
ملک میں پانچویں موسم یعنی موسم انتخابات کا نہ صرف آغاز ہوچکا ہے بلکہ کاغذی کارروائی تقریباً مکمل بھی ہوچکی ہے۔ ہر سیاسی جماعت اپنے متوقع امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کراچکی ہے۔ کچھ جماعتوں نے انتخابات میں پورے ملک سے تو کچھ نے صوبائی سطح پر زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی دوڑ شروع کردی ہے۔ اس ساری جدوجہد میں ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت ''کلین سوئپ'' کرے گی۔
اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ عوامی امنگوں کے برخلاف نتائج رونما ہوسکتے ہیں۔ خیر کوشش کرنا سب کا حق ہے، مگر اس ساری تگ و دو میں بے چارے عوام کے مسائل پر بات اول تو کوئی کر ہی نہیں رہا اور اگر کر بھی رہا ہے تو محض ضمنی طور پر۔ یہ جدوجہد تو کرسی اقتدار تک پہنچنے کی ہے انتخابات نام ہی اقتدار کے لیے کسی ایک جماعت کے چناؤ کا ہے مگر یہ ناقابل برداشت ہے کہ اس سارے سلسلے میں ایک دوسرے کے عیب، بشری کمزوریاں، ذاتی حوالے تو بڑھا چڑھا کر دوسروں کو انتخابی مہم سے کنارہ کش کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جائے مگر عوام جن کے ووٹوں سے اصل فیصلہ ہونا چاہیے ان کو نہ حقیقت سے آگاہ کیا جائے اور نہ ان کے بنیادی و اہم مسائل پر کوئی جماعت اپنا منشور پیش کرے۔ اگر کسی نے ایسا کیا بھی ہے تو اس کی وضاحت ''ندارد'' مثلاً پی ٹی آئی کے سو روزہ پلان میں ایک کروڑ اسامیاں پیدا کرنے کا وعدہ جو بظاہر تو ناممکن لگ رہا ہے، مگر یہ بھی ہے کہ ''ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا'' مگر عوام کو اس جادوئی عمل کی تفصیل سے بھی تو آگاہ کیا جائے کہ یہ کیسے ممکن ہوگا یا یہ محض انتخابی نعرہ ہے۔
اس بار خیال تھا کہ ہر چھوٹی بڑی جماعت عوام کے بنیادی مسائل کو اپنے منشور کا اہم حصہ قرار دے گی، پہلے یہ دیکھا جائے کہ عوام کے بنیادی مسائل ہیں کیا؟ عوام کے مسائل میں سرفہرست غربت و افلاس، اشیائے خور و نوش کا نہ ہونا (بھوک)، نامناسب غذا اور آلودہ پانی کے باعث ''بیماری''، بیروزگاری، علاج اور تعلیم کے ناکافی وسائل یعنی بھوک، بیماری، تعلیم اور صحت سے محرومی۔ تازہ انتخابات یعنی 2018ء کے تو ابھی تشنہ تکمیل ہیں مگر اس سے قبل کے انتخابات پر نظر ڈالیں تو یہ سوال سامنے آتا ہے کہ 70 برس سے اشرافیائی حکمرانوں نے ان مسائل کو حل کرنے پر کتنی توجہ دی؟ یا کیا کوشش کی۔ جانے کیا کام ہوئے کہ بنیادی مسائل جوں کے توں رہے ملک قرضے تلے دب کر رہ گیا اور ستر برس بعد بھی ترقی پذیر ہے ترقی یافتہ نہیں۔ ایسے میں اگلا سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کے یہ بنیادی مسائل کس کے پیدا کردہ ہیں؟
پاکستانی سیاست اور معاشرے نے جو خطرناک طبقاتی شکل اختیار کی اس کی وجہ پر کسی بھی سیاسی جماعت نے توجہ نہ دی۔ قائداعظم کی وفات نوزائیدہ ملک کے لیے اس لحاظ سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی کہ اگر قائد کچھ عرصہ مزید حیات رہتے اور آئین پاکستان ان کی زندگی میں تکمیل پا جاتا تو ہر صاحب عقل و دانش کو یقین ہے کہ ملک سے جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوجاتا۔ ابتدائی بے سر و سامانی کے دور میں خاصے عرصے آئین کا نہ ہونا بھی ملک میں بنیادی سیاسی خرابی کا باعث ہوا۔ 70 برس کا عرصہ کم نہیں ہوتا (چین، جرمنی، بھارت، جاپان اس کو ثابت کرچکے ہیں) اس دوران سول نہ سہی ملٹری ہی سہی، کوئی دانشمند حکمران آجاتا تو وہ سب سے پہلے جاگیرداری نظام ختم کرتا جو ملک کو دیمک کی طرح کھوکھلا کرنے کا باعث ہے۔
خدارا! غور فرمائیے کہ عام آدمی کے جن بنیادی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے کیا وہ سب اسی مہلک نظام کے پیدا کردہ نہیں ہیں؟ بدنصیبی یہ ہے کہ 70 سالہ دور میں تمام حکمران، ملکی مشینری (بیورو کریسی وغیرہ) اسی طبقے کی حمایت سے آتی رہی ہے تو ایسے میں یہ نظام کیونکر ختم ہوسکتا تھا؟ بھارت میں مستحکم جمہوریت کی اصل وجہ وہاں جاگیرداری کا خاتمہ اور مختصر مدت میں آئین تیار کرلینا ہے۔
سیاسی اصلاحات کی مسلسل بات کی جاتی ہے مگر طریقہ انتقال اقتدار میں کوئی واضح تبدیلی دور دور تک نظر نہیں آتی۔ جس قسم کی اصلاحات اگر کچھ ہوئی بھی ہیں تو ان میں سے کسی نے بھی ملک کے سیاسی نظام میں کوئی بہتری یا واضح تبدیلی پیدا کی نہ عوامی مسائل میں کمی کی۔ ہمارے قارئین کو شاید یاد ہو کہ انتخابی اصلاحات پر پہلے بھی دو کالم لکھ چکے ہیں، جن کا لب لباب یہ ہے کہ انتخابی مہم کے نام پر جو جلسے جلوس، پروپیگنڈے پر اربوں (تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے) خرچ کیا جاتا ہے تو کیوں نہیں اس طریقے کو تبدیل کیا جاتا؟ لوگوں کا مجمع لگا کر اپنی مقبولیت کے دعوے ہر انتخاب کے بعد جھوٹے ثابت ہوجاتے ہیں، نتائج نامنظور یا مشکوک قرار دیے جاتے ہیں ۔
جس کے نتیجے میں منتخب حکومت کے خلاف احتجاج (مختلف صورتوں میں) مزید قومی نقصان کا امکان رہتا ہے بلکہ ایسے ہی نتائج تسلیم نہ کرنے کی صورت میں ملک کے دو لخت ہونے کا ناقابل تلافی نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑ چکا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تلخ تجربوں کے بعد جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انتخابی مہم کو جدید انداز سے بھی روشناس کرایا جاسکتا ہے۔ ہر شامل انتخاب جماعت کو ہمارے جنگلی گھاس کی طرح اگنے والے چینلز پر عوام کے سامنے اپنا اپنا آیندہ کا لائحہ عمل (منشور، ارادے، منصوبے) پیش کرنے کا مساوی موقع دیا جائے جس سے عوام جلسے جلوس میں شرکت کی زحمت کے بجائے گھر بیٹھے ہی ہر سیاسی جماعت کے ارادوں سے زیادہ بہتر طور پر واقف ہوکر بہترین فیصلہ بھی کرسکیں گے اس طرح انتخابات پر رقم کم خرچ ہوگی۔
دوسری اہم اصلاح یہ ہونی چاہیے تھی کہ ہر جماعت ٹکٹ فروخت کرنا ممنوع قرار دیا جاتا، کچھ جماعتیں تو اپنا ٹکٹ صلاحیت کے بجائے دولت کی بنیاد پر کروڑوں میں فروخت کرتی ہیں اور بعد میں ٹکٹ کے حصول پر خرچ کی گئی دولت ہی کرپشن کا باعث بنتی ہے کہ کامیاب ہونے والا اپنی رقم بھی وصول کرتا ہے اور اس کا سود بھی دوسری جانب اتنے قیمتی ٹکٹ کے باعث بھلا باصلاحیت، تعلیم یافتہ، روشن خیال اور ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھنے والے بطور خاص متوسط اور غریب طبقے کے افراد (جوکہ ملک کے حقیقی وارث ہیں) کبھی ایوانوں کی شکل دیکھ سکتے ہیں؟
ہماری عدلیہ اور نیب بے شک بہت کام کر رہی ہے مگر اس طرح 70 برس کا گند ہرگز صاف نہیں ہوسکتا۔ اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن اور اس میں ملوث اتنے افراد پر اس مختصر مدت میں عدلیہ تحقیق کرکے کیا انتخابات سے قبل صورتحال کو بہتر کرسکتی ہے؟ بات یہ ہے کہ کرپشن پر عملی اقدام سے قبل اگر کچھ بنیادی،مختصر اور سادہ کام کر لیے جاتے تو باقی کام آسان ہوجاتا مثلاً جاگیرداری کا خاتمہ، ہارس ٹریڈنگ کی بیخ کنی، دوسرے قومی زبان کا فوری نفاذ، جس کے احکامات عدلیہ پہلے بھی جاری کرچکی تھی۔
جس چیف جسٹس نے یہ کام کردیا یقین جانیے وہی ملک کا سب سے بڑا خیر خواہ، محسن اور محب وطن اور ساتھ ہی تاریخ عدلیہ کا ہیرو ہوگا۔ملک کی تقدیر گر بدلے گی تو جاگیرداروں کو قابو کرنے سے اور عام آدمی کی باآسانی سیاست میں شمولیت سے۔ ورنہ یہ اوپر اوپر کی صفائی اور ہر پانچ سال بعد انتخابات ہونا، بلا نظام اور طرز فکر تبدیلی کے لیے کوئی بامعنی تبدیلی کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔ اور یہ ہوتا رہے گا کہ 2 فیصد 98 فیصد پر مسلط ہوتے ہیں گے۔ یعنی ڈھاک کے تین پات۔