6 وفاقی وزرا اور اوور ٹائم
ماضی میں بہت غلط فیصلے کیے گئے جو بعد میں ان سیاستدانوں نے بھگتے بھی۔
جمہوریت کے سارے چیمپئن اپنے عالی شان گھروں میں لوٹ گئے اور عوام اپنے گھونسلوں میں خاموشی سے غربت کے انڈوں پر بیٹھے ہیں۔ ایک بات ضرور ہوئی کہ انسانیت سوز تذلیل سے وقتی طور پر جان چھوٹ گئی ہے۔
اس ملک کی سیاست پر عوام قربان کہ گزشتہ دو ہفتے قبل سیاسی طور پر یکجا نہ ہوئے، یہ نگران وزیراعظم کے انتخاب کے لیے آپس میں الجھتے رہے اور اس مرتبے کے لیے دانش مندانہ فیصلہ نہ کر سکے، ان سیاست دانوں نے ملک کو اس مقام پر لا کھڑا کر دیا کہ سارا نظام جمود کا شکار ہوگیا۔ سوچیے اس ملک میں نیک آدمی کو کسی اعلیٰ مرتبے پر لانے کے لیے جو سیاسی برائیوں سے لیس ہو کتنا مشکل کام ہے۔
اب بتائیے مصنوعیت کا راج اتنا تناور درخت بن چکا ہے کہ ضرورت کے تحت لائق عزت فرد نہیں ملتا اور پھر شاید رب کو اس مفلس قوم پر رحم آ ہی گیا کہ نگراں وزیراعظم کے لیے جسٹس (ر) ناصر الملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تجویز ہوا۔ دعا ہے اس قوم کی کہ وہ اولیا اللہ کی نیک مالا اس قوم کے گلے میں ڈال دیں تاکہ یہ بھی سکون کا سانس لے سکے اور یہ خوشی کا سفر عارضی نہ ہو۔ اب یہ قوم مرہون منت ہے محترم چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کی کہ اب عوامی چڑچڑے پن کا دور آہستہ آہستہ خاتمے کی طرف رواں دواں ہے اور فضول سیاسی شقیں دم توڑ رہی ہیں۔ یہ سیاسی لوگ عوام کو سوئی خلقت سمجھتے ہیں۔
ماضی کی پٹاریاں کھولتے ہوئے میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ 70 سال سے جمہوریت کو کچھ لوگ پستی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ نوجوان نسل تاریخ سے کوسوں دور ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے طرز زندگی میں یہ دیومالائی کہانیاں سمجھ میں نہیں آتیں اور انھیں یہ پتہ نہیں کہ جنھیں یہ خلائی مخلوق کہتے ہیں اور اس خلائی مخلوق نے پاکستان بچا کر ان کی بے ضابطگیوں کو نظرانداز کیا اور جنھیں یہ ڈکٹیٹر کہتے ہیں، ان کی انگلی پکڑ کر دریا پار کیے۔
یہ بہت غور و فکر کی بات ہے کہ یہ سیاسی حضرات اپنی ناکامی کو کامیابی کی طرف لے جانے کے لیے بھونڈے دلائل دیتے ہیں۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ مگر تاریخ اکثر سچائی کی مرہون منت ہوتی ہے۔ 1977ء میں جب سیاستدانوں کی ناز برداریاں حد سے زیادہ بڑھیں اور یہ ایک دوسرے سے اخلاقی تقاضے ختم کرچکے تو پھر جنرل ضیا الحق نے سب سے اظہار معذرت کرکے ان سب کی چھٹی کردی اور ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی ترجیحات کیا تھیں تو سب سے پہلے خلائی مخلوق کہنے والے ضیا الحق کے دامن سے لپٹ گئے اور غیر جماعتی الیکشن میں جیت کر صوبائی وزیر بنے، اس کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے اور اس کے بعد وزیراعظم بنے اور تین مرتبہ بنے۔ 1987ء سے لے کر 2009ء تک کئی مرتبہ برسر اقتدار رہے اور پرویز مشرف کے دور میں بھی انھی کے رفقا ان کے ساتھ تھے۔ پھر 2013ء میں یہ دوبارہ وزیراعظم بن گئے۔ تو ایسا محسوس ہوا کہ جمہوریت کا حسن اب دوبالا ہوگا، مگر وہی ڈھاک کے تین پات، یعنی لوٹا ماری، کرپشن، داداگیری، قتل و غارت گری، یعنی گدھوں کی اڑان پھر اپنے عروج پر پہنچ گئی، جب کہ ماضی میں ایک نعرہ اس ملک کے موثر نظام کے لیے لگا کر قوم کو پارہ پارہ کیا گیا کہ ''قرض اتارو ملک سنوارو'' اور عوام جوق در جوق اس نعرے کے پیچھے چل کر عمل پیرا ہوئے۔ نہ قرض اترا نہ ملک سنورا، جب کہ اس کا حساب ابھی باقی ہے۔
یہ سیاسی جادوگر بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ جمہوریت نے مدت پوری کرلی، مگر وعدے پورے کیوں نہیں کیے۔ ووٹ کو تو حقیر و ذلیل یہ سیاست دان کر رہے ہیں۔ جانے والی حکومت نے عوامی مینڈیٹ کی جو توہین کی اسے بھی تاریخ کا حصہ ایک نہ ایک دن بننا ہوگا۔ وزیروں کی کارکردگی دیکھ کر عوام میں تشویش کی لہر برف کی طرح جم گئی ہے۔ جمہوری قوالیاں گانے والے وزیروں کا حال دیکھیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور اس کے بعد ایک اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جب اس مملکت خداداد سے گئے تو 32 وفاقی وزرا، 15 وزرائے مملکت، تین مشیر اور 8 معاونین عوام کی طرز زندگی میں کوئی تبدیلی لائے بغیر چلتے بنے۔
ادھر نگران حکومت کے 6 وفاقی وزرا نے حلف اٹھا لیا ہے، جن میں حسین ہارون، ایم اعظم خان، ڈاکٹر شمشاد اختر، علی ظفر خان، روشن خورشید اور یوسف شیخ قابل ذکر ہیں، کسی بھی سیاستدان نے افراتفری کا شور نہیں مچایا کہ کراچی سے لے کر خیبر تک یہ 6 وفاقی وزرا مختلف شعبہ ہائے زندگی کو کس طرح چلائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام کی طرف سے یہ 6 افراد واجب الاحترام ہیں اور اعزاز و اکرام کے لائق ہیں۔ کیا اتنی مختصر سی کابینہ کو اوور ٹائم دیا جائے گا۔ ایم اعظم خان وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ الیکشن میں فوج کو خوامخوا نہیں بلائیں گے۔ یہ وزیر داخلہ کی ایک سنگین غلطی ہوگی۔
(ن) لیگ کہتی ہے کہ ووٹ کو عزت دو، پی پی پی کہہ رہی ہے کہ اگلی حکومت ہم بنائیں گے اور چاروں صوبوں میں وزیراعلیٰ ہمارا ہوگا، پی ٹی آئی اپنے لیے 25 جولائی کے بعد اپنے فقیدالمثال استقبال کی منتظر ہے۔ جب تینوں جماعتیں خواب و خیال کے گھوڑے پر سوار ہیں تو یہ سب سے بہتر ہوگا کہ الیکشن فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں۔ پاکستان میں تین ادارے ہیں فوج، سپریم کورٹ اور نیب، جس پر عوام تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔ لہٰذا اعظم خان کو چاہیے کہ سپریم کورٹ سے دانشمندانہ فیصلہ لے اور پوری کوششیں کریں الیکشن کمیشن بھی کہ فوج کی نگرانی میں الیکشن کرائے تاکہ سب سیاسی جماعتیں قواعد و ضوابط کے حصار میں رہیں۔
ماضی میں بہت غلط فیصلے کیے گئے جو بعد میں ان سیاستدانوں نے بھگتے بھی۔ میاں صاحب اور زرداری نے مل کر 58-2B ختم کی، تاکہ سیاستدان کھل کر اپنی من مانی کرسکیں اور اختیاراتی دستانے پہن لیے، مگر قدرت کا مکافات عمل دیکھیے کہ 58-2B کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور اس کے بغیر ہی پی پی پی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف نااہل ہوئے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار، نگران وزیراعظم اور الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ الیکشن 25 جولائی کو ہی ہوں گے، جب 32 وفاقی وزرا کی جگہ 6 وفاقی وزرا اچھی منصوبہ بندی کے تحت کام کریں گے اور سہولتوں کے فقدان کا دروازہ کھولیں گے جو زنگ آلود ہوچکا ہے اور 6 وفاقی وزرا والہانہ کام کریں گے، قانون کی افادیت کا احترام، حرص و لالچ، چوری، کرپشن، رشوت ستانی، قتل و غارت گری سے برملا ہوکر بے لگاموں کو لگام ڈال کر قانون کی افادیت کا پرچار کرتے ہوئے عوام کو ہر اچھی بات میں فریق بناتے ہوئے تاریخی ناانصافیوں کا خاتمہ کرنے کی کوششیں کریں گے، عوام اب تک جمہوریت کے نام پر جمہوریت کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، تو ان کا بھی دل چاہتا ہے کہ وہ شادمانی اور مسرت کے کچھ دن دیکھ لیں۔
رب ذوالجلال پاکستان کو سلامت رکھے، کراچی سے لے کر خیبر تک وہی صوبے ہیں، وہی عوام ہے، وہی ادارے ہیں، تو پھر 65 کی جگہ 6 وفاقی وزیر کیوں ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ نگران حکومت، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ نے کمر کس لی ہے کہ اس ملک کو برائیوں کی دلدل سے نکالنا ہے۔
کون سی کتاب میں لکھا ہے کہ مصائب اور آزمائشوں کے باوجود الیکشن وقت پر ہوں، اگر ماضی میں کی جانے والی شاطرانہ چالوں کو دفن کردیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے کہ الیکشن میں تاخیر ہوجائے، ویسے بھی محب وطن نیک اور پاکستان سے محبت کرنے والے عوام جو تھوڑا بہت بھی تعلیمی شعور رکھتے ہیں اور اس بات پر پرعزم ہیں کہ ہر حال میں الیکشن فوج کی سخت نگرانی میں کرائے جائیں تاکہ ہار جیت کے بعد تشویش ناک صورتحال نہ ہو۔ اب اس سلجھی ہوئی قوم میں برداشت کا دم خم نہیں ہے، بھلا بتائیے 20 کروڑ عوام کے ملک میں قابل ستائش اقدام صرف فوج اور ملکی عدلیہ ہی اٹھاتی ہے، آخر کیوں؟ اس کا جواب کسی کے پاس ہے؟