عام انتخابات کا آغاز
ووٹ دینے والے عوام چاروں طرف سے بڑی بڑی باتیں اور دعوے سن رہے ہیں۔
ملک میں انتخابات کا بگل تو سبکدوش ہونے والی تمام حکومتوں کی موجودگی ہی میں بج چکا تھا اور ملک کی سیاسی حالت میں شکوک و شبہات کا اظہار توگزشتہ سال ہی ہوگیا تھا مگر سینیٹ کے انتخابات کے بعد انتخابی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے نیب اور عدالتوں کے معاملات، عدلیہ کے اہم فیصلوں کے باوجود گزشتہ حکومتوں میں ہی 25 جولائی کے روز انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوگیا تھا اور ہر جماعت اپنی انتخابی تیاریوں اور سیاسی لوٹے اپنی وفاداریوں کی تبدیلی شروع کرچکے تھے ۔
پارٹیاں تبدیل کرنے والوں کا زیادہ رجحان پی ٹی آئی کی طرف تھا اور نئے پاکستان کے دعویدار عمران خان بھی اپنے تبدیلی کے دعوؤں کے برعکس پی ٹی آئی کے دروازے مبینہ بد عنوانوں، ماضی میں کرپشن ودیگر معاملات میں ملوث سیاست دانوں کے لیے کھولنے کے لیے مجبور ہوئے اور انھوں نے ماضی میں تین تین بار بازیاں لینے والی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں مفادات اٹھانے والوں کو پارٹی پرچم پہنا کر تبدیلی کا نشان سمجھ کر قبول کرنا شروع کیا تو غیر توکیا اپنے بھی حیران ہوگئے کہ عمران خان اپنے ماضی کے دعوے اور اصول کیوں بھول رہے ہیں ۔
ایسے دعوے اور اصول نواز شریف اور آصف زرداری بھی اپنے وقت میں بھلاتے رہے تھے اور ماضی میں ان دونوں ہی کی پارٹیوں میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ق لیگ بھی ان دونوں پارٹیوں والوں سے مل کر بنی تھی جس کا اقتدار غروب ہوتا دیکھ کر پرائے ہونے والے پھر اپنے ہوگئے تھے اور اقتدار کے لیے پھر اپنے گھروں میں لوٹ آئے تھے اور اب انھیں پی ٹی آئی میں اقتدار نظر آنے لگا تو پی پی اور ن لیگی رہنما اورالیکشن لڑنے والے تیر، تلوار، سائیکل اور شیرکے بعد بلے کے ذریعے اپنی پرانی پارٹیوں کو شکار کرنے کے لیے پی ٹی آئی میں آکر عمران خان کی قیادت میں تبدیلی لانے کی منصوبہ بندی اور ذاتی مفاد کے حصول کے لیے تیار ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں اور ان کے سربراہوں سے وفاداری کے دن رات گن گاتے اور وفاداری نبھاتے نہ تھکتے تھے۔
یہ پہلی بار نہیں ہورہا ایسے لوگ اپنے گھروں میں لہرانے کے لیے پی پی اور ن لیگ کے جھنڈے پہلے سے تیار رکھتے تھے اس بار انھوں نے پی ٹی آئی کے نئے پرچم پہلی بار بنوائے اور عمران خان کے ہاتھوں سیاسی طور پر تبدیل ہوکر اب نئے ٹکٹوں کے حصول کے لیے کوشاں ہیں ۔ تیس جون کو انتخابی نشان الاٹ ہونے پر انتخابی دنگل میں پی ٹی آئی کے ساتھ وفاداری دکھائیںگے اور جنھیں بلا نہ ملا وہ شاہد بھٹو کی طرح اپنے گھر واپس جانے کی کوشش کریںگے اور انھیں ایسا کرنے میں کوئی شرمندگی بھی نہیں ہوگی یہی ہماری سیاست میں ہوتا آیا ہے۔
عمران خان پہلے مرحلے مین ٹکٹوں کا اعلان کرنے کے بعد اپنی مجبوری بیان کرچکے کہ ساڑھے چار ہزار درخواستیں ملیں اور سب کو ٹکٹ دینا ناممکن اورکھٹن مرحلہ تھا جنھیں ٹکٹ نہیں ملی انھیں عمران خان نے ساتھ چلنے کی دعوت دے دی ہے اب دیکھیں ٹکٹ نہ ملنے سے مایوس لوگ اقتدار کی امید میں عمران کے ساتھ چلتے ہیں یا کہیں اور کوشش کرتے ہیں کیونکہ عمران خان تو محنت اور دیانت داری سے ٹکٹ دینے کے فیصلے کرچکے باقی فیصلہ اب ان کے پاس آنے والوں نے کرنا ہے۔
عمران خان کی ٹکٹ دینے کی محنت اور دیانت داری کے فیصلوں سے دوسری جماعتوں نے آنے والے ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف سے طویل رفاقت رکھنے والے بھی ٹکٹوں کے حصول میں محروم رہے ہیں جو پارٹی سے مخلص ہوںگے وہ گھر بیٹھ کر اپنی حکومت آنے کا انتظار کریںگے کیونکہ اپنی حکومت میں وزیر نہ سہی مشیر و معاون خصوصی ودیگر عہدوں پر آنے کا آسرا پھر بھی رہے گا۔
پیپلزپارٹی کے سربراہ اور دیگر رہنما ایک عرصے سے وفاق سمیت تمام صوبوں میں حکومت بنانے کے دعوے کرتے آرہے ہیں مگر ان کے زیادہ تر الیکٹ ایبل امیدوار ساتھ چھوڑ چکے ہیں جس کی وجہ سے بڑے صوبے پنجاب میں انھیں 148حلقوں میں صرف 15 نشستوں پر مضبوط امیدوار مل سکے ہیں ۔ اس لیے اب پی پی مقابلے کے لیے ہر سیٹ پر جیالوں کو ٹکٹ دے گی اور شاید انتخابی اخراجات بھی کیونکہ حقیقی جیالوں کے پاس ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر جیسی قیادت ہے نہ مال البتہ جذبہ ضرور ہے اور اسی لیے آصف زرداری خود پیچھے رہ کر بلاول زرداری کو آگے لاکر جیالوں کے جذبے آزمائیںگے مگر حالات مایوس کن ہیں۔
3 بار اقتدار میں رہنے والی مسلم لیگ ن نے رمضان میں بھی صبر نہ کیا اور ورکرزکنونشن کے ذریعے پنجاب اور کے پی کے میں سخت گرمی میں بڑے اجتماعات کرکے ثابت کردیا ہے کہ قائد سے محرومی کے بعد بھی وہ پی ٹی آئی کے لیے آسان ہدف نہیں ہے۔ ن لیگ متوالوں سے خالی نہیں ہوئی اور بڑے نام اب بھی ن لیگ ہی میں ہیں، ن لیگ کے پاس اپنے قائد کے بیانیے کے علاوہ پنجاب میں دکھائی جانے والی کارکردگی بھی ہے اور وہ مشکل حالات سے بھی دو چار ہے چوتھی سیاسی قوت متحدہ مجلس عمل بھی ملک بھر میں امیدوار لائے گی، وہ بھی پی ٹی آئی کی طرح کے پی کے میں اقتدار میں رہ چکی ہے اور اہم مذہبی قوت ہے پھر سر پرائز دے سکتی ہے۔
ووٹ دینے والے عوام چاروں طرف سے بڑی بڑی باتیں اور دعوے سن رہے ہیں ابھی تو آغاز ہوا ہے ان سب کے دعوؤں کا انجام 25 جولائی کی رات سب کے سامنے آجائے گا۔