انتخابی ماحول سازگار بنانے کی ضرورت
انتخابات پر امن اور مکمل جمہوری اسپرٹ کے تحت ہونگے
بادی النظر میں انتخابی گہماگہمی تہہ در تہہ چہ مگوئیوں کے باوجود 25 جولائی کی منزل کی طرف گامزن ہے، تاہم ملکی انتخابی تاریخ کے نشیب وفراز سے واقف ماہرین اور الیکشن پنڈتوں کے خیال میں ابھی الیکشن ماحول بن نہیں پایا، ادھر سنجیدہ و فہمیدہ ماہرین نے الیکشن سے پہلے کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے بعض اندیشوں اور ان دیکھے خطرات کا اشارہ بھی اپنے تجزیوں میں دیا ہے،ان کا استدلال یہ ہے کہ ملک میں ایک خاموش سناٹا نظر آتا ہے جسے وہ انتخابات کے بعد کے ممکنہ غیر معمولی فشار اور بے یقینی سے تعبیر کرتے ہیں، انھوں نے سوال اٹھائے ہیں کہ انتخابات کا بعد کیا کچھ ہوسکتا ہے،کیا انتخابات پر امن اور مکمل جمہوری اسپرٹ کے تحت ہونگے۔
کیا اقتدار کی منتقلی ایک شفاف الیکشن کے نتیجہ میں عمل میں آئیگی۔ تاہم بیشر لوگ انتخابی عمل کی تکمیل ہونے کی نوید دیتے ہیں جب کہ سیاسی فضا الزامات کے شور سے قدرے بوجھل بھی ہے۔ عید کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد عام انتخابات کے امیدواروں کی اسکروٹنی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے ، کاغذات کی جانچ پڑتال کا آج آخری روز تھا ، طے شدہ شیڈول کے تحت انتخابی نشانات الاٹ کرنے اور پھر امیدواروں کی حتمی فہرستوں کے جاری کرنے کا مرحلہ آئیگا، بہرحال انتخابی ماحول تب بنے گا جب سیاسی جماعتوں کے نامزد امیدوار جانچ پڑتال کی چھلنی سے گزریں گے، اس وقت 11 فیصد امیدواروں کے نادہند ہونے کا انکشاف ہوا ہے، 122 امیدوار دہری شہریت کے حامل پائے ہیں۔
ان میں سید مراد علی شاہ، فیصل واوڈا، فوزیہ قصوری، نادر لغاری، احمد یار ہراج بھی شامل ہیں، مشرف اپنی واپسی کا شیڈول طے نہیں کرسکے ہیں، الیکشن کمیشن کے ذرایع کے مطابق 21 ہزار درخواست دہندگان میں سے 2300 امیدوار ڈیفالٹر قرارپائے ہیں، ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف پی ٹی آئی ، مسلم ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں کے احتجاجی مظاہر ے جاری ہیں، بنی گالہ ، بلاول ہاؤس اور مسلم لیگ سیکریٹریٹ کے سامنے دھرنے،مظاہرے اور نعرے بازی کے مقابلے ہورہے ہیں ، ادھر برطانیہ میں زیرِ علاج سابق وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی طبعیت ابھی تک تشویش ناک بتائی جاتی ہے اور ڈاکٹرز نے وینٹی لیٹر (سانس لینے والی مشین) سے نہ ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ نواز شریف اور مریم نواز نے بیگم کلثوم نواز کی خرابی صحت کے باعث وطن واپسی موخر کردی ہے۔
شریف فیملی کو درپیش سیاسی چیلنجز بلاشبہ بے پناہ ہیں، کلثوم نواز کی طبیعت کے حوالے سے مریم نواز نے قوم سے دعاؤں کی اپیل کی ہے، کراچی میں انتخابی منظرنامہ متحدہ پاکستان کے گرد گھوم رہا ہے، شہر قائد میں بہادر آباد کا پی آئی بی کے اہم رہنماؤں کو ٹکٹ نہ دینے کے فیصلہ پر اختلافات برقرار ہیں،27 جون کے بعد ان میں شدت آسکتی ہے، مخالف سیاسی قوتیں صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی منتظر ہیں۔حقیقت میں ایم کیو ایم کو شہر کی انتخابی تاریخ کے ایک تحیر خیز اور اعصاب شکن بحران کا سامنا ہے جس سے نکلنے کے لیے اردوا سپیکنگ کمیونٹی کے ووٹوں کی تقسیم سے بچنے کی ایک غیر معمولی کروٹ ہی مسئلہ کا حل ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کراچی میں نماز عید کے بعد گفتگو میں کہا کہ ایم کیو ایم کی سپورٹ تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ دریں اثنا نادرا نے عام انتخابات 2018ء میں دھاندلی روکنے کے لیے الیکشن کمیشن کو موبائل اپیلی کیشن بنا کردی ہے، یہ ایپ تمام پریزائیڈنگ افسران کے موبائل فونز میں ہوگی جسکی مدد سے وہ انتخابی نتائج کے حوالے سے تمام ڈیٹافی الفوربراہ راست الیکشن کمیشن کو منتقل کردینگے، اطلاع ہے کہ یورپی یونین کے مبصرین عام انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان آئیں گے۔ الیکشن کمیشن کی اس رپورٹ پر غور کرنے کی ضرورت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں 2013 کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کے رجحان میں کمی آئی ہے۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں کے الیکشن میں عدم دلچسپی کی بڑی وجہ سخت انتخابی قوانین اور بھاری فیسیں ہیں جب کہ الیکشن کمیشن کا تیارکردہ سخت حلف نامہ بھی امیدواروں کی عدم دلچسپی کی وجہ ہے۔ اس لوئر ٹرن آؤٹ کے اپنے الگ سے مضمرات ہوسکتے ہیں، سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ میاں صاحب کے کیس کا فیصلہ جلد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ہم چاہتے ہیں کہ صاف شفاف الیکشن ہوں ورنہ حالات اچھے نہیں ہونگے۔
ان کے اس انتباہ کو نادرا اور الیکشن کمیشن کے مابین ڈیٹا لیکس کے تنازع پر نظر ڈالی جائے تو زمینی حقائق کی ایک مضطربانہ لہراٹھتی گرتی محسوس ہوتی ہے، سیاسی حلقوں کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد سے قبل دواہم وفاقی اداروں الیکشن کمیشن اور نادرا میں الیکشن کے متعلق امور پر تنازعہ سخت حیرت ناک ہے ، دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ووٹرز کے اعداد و شمار کا ڈیٹا لیک کرنے پر چیئرمین نادرا کو جو مراسلہ ارسال کر دیا نادرا کی وضاحت کے بعد اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست دان سسٹم کو خراب اور کارکنوں میں اشتعال پیدا نہ ہونے دیں۔ شفاف الیکشن اور جمہوری رویے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ الیکشن کمیشن کی ذمے داری شفاف الیکشن کرنا ہے مگر سیاست دانوں کو بھی اپنی ذمے داریوں کا گہرا ادراک کرنا ہوگا، کیونکہ انتخابی تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔