کشمیر کو یاد رکھیں گے
ستر برس گزر جانے کے باوجود اس بچے کو اس پرچم کا لمس اب تک یاد ہے
رمضان المبارک کا مہینہ تھا گاؤں کی مسجد میں بہت رونق تھی۔اجلے اور صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس سفید پگڑیاں باندھے بزرگوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے موضوع یہ زیر بحث تھا کہ مسلمانوں کی اس نئی مملکت کا پرچم کہاں لہرایا جائے ۔ خوشی سے سر شار آوازیں چاروں طرف سے بلند ہو رہی تھیں بالآخر طے یہ پایا کہ گاؤں کے اسکول پر سبز ہلالی پرچم لہرایا جائے کیونکہ گاؤں میں سرکاری عمارت صرف ایک یہی تھی جو غلامی کے دور کی یاد گار تھی ۔
یہ سرکاری عمارت بھی آزاد ہو رہی تھی ۔ ایک کم سن بچہ یہ سب کچھ دیکھ سن رہا تھا اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی یہ سمجھ رہا تھا کہ ہمارا پاکستان بن گیا ہے جس کا ذکر اس کے بزرگ کرتے تھے تو ان کے گلے کی رگیں پھول جاتی تھیں۔ ظہر کی نماز کے بعد یہ پرچم لہرا دیا گیا ۔ گاؤں والوں نے بہت نعرے لگائے ان میں یہ بچہ بھی شامل تھا اور اسے اعزاز ملا تھا کہ جب ایک نوجوان اسکول کی چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی لگا رہا تھا تو اس نے یہ پرچم اس بچے کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔
ستر برس گزر جانے کے باوجود اس بچے کو اس پرچم کا لمس اب تک یاد ہے۔ اس کے ہاتھوں نے زندگی بھر پھر ایسا لمس کبھی محسوس نہیں کیا۔ جب پرچم کشائی کے بعد گاؤں کے سرشار لوگ واپس مسجد پہنچے تو وہاں موجود ایک بزرگ نے پوچھا مجھے کوئی بتائے کہ گورداسپور پاکستان کو ملا یا نہیں ۔ ایک اسکول ماسٹر نے بتایا کہ یہ علاقہ ہندوستان کو ملا ہے ۔ اس بزرگ نے کف افسوس ملتے ہوئے کہا پھر تو کشمیر ہاتھ سے نکل گیا ۔اس وقت اس بچے کی سمجھ یہ بات بالکل نہ آئی لیکن اس پر جو بحث شروع ہوئی تو یہ معلوم ہوا کہ کشمیر کا راستہ پاکستان پر بند کر دیا گیا ہے۔ اس پر انگریزوں کی بہت لعنت ملامت کی گئی لیکن پاکستان کی خوشی میں کسی کو کسی نقصان کی پروا نہ تھی۔
کشمیر پر پہلی جنگ میںاس بچے کی کی سمجھ میں بہت کچھ آچکا تھا ۔پھر ایک دن وہ اپنے ضلعی صدر مقام سرگودھا کے ایک بازار سے گزر رہا تھا کہ جب ریڈیو پر یہ اطلاع دی گئی کہ قائد اعظم ؒ وفات پا گئے ہیں اس اطلاع کوسن کر جوانی میں قدم رکھتا یہ بچہ بلک بلک کررو دیا ۔ ہر کوئی دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا ۔ اس کے بعد غلام ذہن والے غلام صفت حکمران اس قائد اعظم ؒ کے ملک پر قابض ہو گئے اور اسے نوچ نوچ کرکھانے لگے۔ وقت بہت تیزی سے گزرتا گیا اور پھر برسوں بعد دسمبر کی ایک سہ پہر کو اس نے ریڈیو پر سنا کہ مشرقی پاکستان میں مقامی کمانڈروں نے سمجھوتہ کرتے ہوئے جنگ بندی کر دی ہے اور مزید تفصیلات کا انتظار کیجیئے۔ یہ پاکستان کے دو ٹکڑے ہوجانے اور مشرقی پاکستان پر ہندوؤں کے قبضے کی خبر تھی ۔ اس سہ پہر کو جب ہر کوئی گم سم حیران اور نیم پاگل ہو رہا تھا لاہور کے گورنر ہاؤس کے آہنی دروازوں سے لاہور کی چند نوجوان لڑکیاں سر ٹکرا رہی تھیں ۔ کالے لوہے پر جوان خون کی سرخی اسے ہمیشہ یاد رہے گی ۔
ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے اور پھر انھی دنوں اس نے بے قراری میں کہا کہ ہم نے مسلمانوں سے ہزار سال کی غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔ دوقومی نظریہ پاکستان کی بیگار تھی ۔ قائد اعظم نے انگریزوں سے کہا تھا کہ ہندوستان میں ایک نہیں دو قومیں بستی ہیں، ایک ہندو اور دوسرے مسلمان۔ یہ ملک پاکستان تھا جس کے ٹوٹنے پر اندرا نے یہ نعرہ لگایا تھا ۔ مشرقی پاکستان مسلمانوں کا ایک اور ملک بن گیا ۔ ہندوستان میں کانگریس حکمران رہی جو کہ سیکولر ازم کے لبادے میں منافق ہندوؤں کی ایک جماعت تھی اور سیکولر ازم کے نعرے کے پیچھے چھپ کر مسلمان دشمنی کرتی رہی۔
رمضان المبارک کی ایک سہ پہر کو گاؤں کے ایک بزرگ نے جس کشمیر کا ذکر کیا تھا پاکستان آج تک اس کشمیر کو رو رہا ہے اس کے لیے جنگیں لڑی ہیں ۔ جوانوں کی قربانیاں دی ہیں لیکن بالآخر اس جنگ کا علم کشمیریوں نے خود اٹھا لیا ہے ۔ ہندوستان کی لاکھوں کی تعداد میں فوج کشمیریوں کے آزادی کے نعرے کو دبانے میں ناکام ہو چکی ہے ۔آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس کا اندازہ کشمیریوں کو ہو گیا ہے اور وہ کسی سے ڈرتے نہیں اور ہندوستان یہ سب مظالم اس لیے برپا کیے ہوئے ہے کہ کشمیری مسلمان ہیں، پاکستان کا دم بھرتے ہیں اور اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں۔ بھارتی مظالم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے عزتوں، عصمتوں، سہاگ اجڑنے کی لاکھوں داستانیں کشمیر اور کشمیریوں سے جڑی ہوئی ہیں مگر کشمیری اس سب کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ دن اب بہت قریب ہیں جب کشمیر کے عوام آزادی کا مزہ چکھیں گے۔
اگر کوئی ہندو منافقت کرتے ہوئے یہ کہتا بھی ہے کہ ہندوستان کا بٹوارہ درست تھا تو وہ جھوٹ بولتا ہے وہ ہندو ہوتے ہوئے پاکستان کو تسلیم نہیں کر سکتا اور وہ پاکستانی درحقیقت پاکستانی نہیں ہیں جو بھارت کے ہندوؤں کو پاکستان کا خیر خواہ سمجھتے ہیں ان کے خیال میں ہندوؤں نے پاکستان کو تسلیم کر لیا ہے ۔ ایسے پاکستانی بدقسمتی سے پاکستان کے قانونی شہری ہیں لیکن ان کا دل و دماغ پاکستانی نہیں ۔ ایسے پاکستانیوں کا برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ۔ ان کو بے نقاب کرنا ہم سب کی ذمے داری ہے۔
وہ پاکستانی بچہ جس کو اپنے پرچم کا لمس اور لوہے پر نوجوان لڑکیوں کے خون کی سرخی یاد ہے وہ بچہ جس کے بھائی بہن آج بھی کشمیر میں شہید ہو رہے ہیں وہ بچپن اور جوانی سے گزرتے ہوئے ادھیڑ عمر میں پہنچ کر یہ سب کیسے بھول سکتا ہے یہ سب تو اس کے وجود کا جزو ہے۔ آزادی کے بعد اتنا زیادہ عرصہ تو نہیں گزرا کہ کوئی اپنی یاداشت کھو بیٹھے یا اپنا ایمان اپنا سمر قند و بخارا کسی کی بندیا کو بخش دے ۔ آزادی سے لے کر آج تک پاکستان کے غیر پاکستانی حکمرانوں نے ہماری رگ وپے سے پاکستانیت نچوڑنے کی بہت کوشش کی ہے وہ مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ تخلیق کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں لیکن ایک سچا پاکستانی اپنی آزادی کے ساتھ کشمیر کی آزادی کو بھی نہیں بھولا۔ بھلا شہ رگ بھی کوئی بھولنے کی کوئی چیز ہوتی ہے۔