آئیے ۔ بات کریں
گفتگو اگر پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے انصاف اور باہمی احترام کے ساتھ حل طلبی ہو تو معاملات خود بخود سدھر جاتے ہیں۔
میر صاحب نے کہا تھا
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
اب صورت حال یہ ہے کہ نثر اور نظم کے اضافی فرق سے آزاد ہو کر عوام کے بارے میں اس قدر گفتگو کی جاتی ہے کہ میڈیا کے ایک حصے میں اس کی جنس تک تبدیل کر دی گئی ہے۔ یعنی اب عوام کہتے ' سوچتے اور چاہتے نہیں بلکہ ''کہتی ' سوچتی اور چاہتی ہے'' اسی طرح ولی دکنی کا یہ خوب صورت اور بہت نازک کیفیات کا حامل شعر بھی اب صرف سننے کی حد تک ہی رہا گیا ہے کہ
عجب کچھ لطف دیتا ہے شب حکومت میں دلبر سوں
سوال آہستہ آہستہ ' جواب آہستہ آہستہ
کہ اب سوال بھی بلند آواز میں کیے جاتے ہیں اور جواب بھی تقریباً نعروں کی صورت میں دیے جاتے ہیں اور یہ صورت محلوں کے تھڑوں' اخبارات اور ریڈیو ' ٹی وی مذاکروں سے لے کر ہماری عام غیر رسمی اور غیر سیاسی محفلوں میں بھی در آئی ہے۔ میرے بھارتی دوست گروندر سنگھ عازم کوہلی نے مجھے بابا گورو نانک کی کہی ہوئی ایک بات سنائی تھی جس کا میں اکثر ذکر بھی کرتا رہتا ہوں کہ
ایک نے کہی دوسرے نے مانی
نانک کہے دونوں گیانی
غور سے دیکھا جائے تو اس ''کہنے'' میں''سننا'' بھی شامل ہے اور یہ بھی کہ کہنے والا اپنی بات دیانتداری سے صورت احوال کی اصلاح کے لیے کرتا ہے اور دوسرا اس کی بات کو صرف سنتا ہی نہیں بلکہ اس کے قابل عمل حصے سے اتفاق بھی کرتا ہے، چاہے وہ اس کے اپنے اخذ کردہ نتیجے سے مختلف ہی کیوں نہ ہو، اصل میں یہ وہی باہمی Space دینے کا عمل ہے جو اپنی جگہ پر گیان بھی ہے اور گیان کی طرف کھلنے والا دروازہ بھی۔
میں روز مرہ کے سیاسی موضومات اور معاملات پر بوجوہ لکھتا تو بہت کم ہوںمگر ان سے باخبر ضرور رہتا ہوں اور محفل کے اعتبار سے اس میں کم یا زیادہ حصہ بھی لیتا ہوں لیکن جہاں بحث کا مطلب صرف بحث ہو اور معاملے کو سلجھانے کے بجائے مقصد صرف اپنی معلومات اور زباندانی کے جوہر دکھانا ہو وہاں میں حتیٰ الممکن خاموش رہنے کو ہی ترجیح دیتا ہوں کہ ایسے بے برکت عمل میں وقت صرف ضایع ہی نہیں ہوتا بلکہ اچھے بھلے دوستوں اور دعا سلام والوں سے بھی خواہ مخواہ کے فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی محفل میں یہ دونوں رنگ یک رنگ ہو جائیں یعنی روائتی شور شرابا بھی ہو اور احباب ایک دوسرے کی بات کو وزن اور اظہار کے لیے وہی Space دیں جو وہ اپنے لیے چاہتے ہیں۔
عید کے تیسرے روز عزیزی وصی شاہ نے اپنے گھر پر کچھ دوستوں کو ایک پرتکلف کھانے پر جمع کیا تو یہ محفل نہ چاہتے ہوئے بھی ایک سیاسی مباحثے کی شکل اختیار کر گئی کہ جہاں مجیب الرحمن شامی' سہیل وڑائچ' افتخار احمد' طیب قریشی' یاسر پیرزادہ' محمد عمران' گل نوخیزاختر' اجمل جامی اور خود میزبان سید وصی شاہ سمیت ایک سے ایک بڑھ کر بولنے اور لکھنے والے ہوں وہاں بات صرف کھانے تک تو محدود رہ نہیں سکتی۔ تو ہوا یوںکہ جب میں وہاں پہنچا تو ابھی محفل مکمل اور گرم نہیں ہوئی تھی اور موضوع گفتگو یہ تھا کہ پاکستان میں اصل حق حکمرانی کس کا ہے؟ اور جس کا ہے اس کے پاس کیوں نہیں ہے؟ اور یہ کہ ہمارے جیسے ملکوں میں فوج کا کردار کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟ ۔
افتخار احمد کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ ایم اے او کالج میں پڑھا کرتا تھا اور عزیزی یاسر پیرزادہ تو میرے بیٹے علی ذی شان جیسا ہے کہ اس کی ساری زندگی ایک طرح سے ہمارے ہاتھوں میں اور نظروں کے سامنے گذری ہے۔ سو بحث کی گرمی کے باوجود دونوں کا رویہ میرے ساتھ احترام کا تو تھا لیکن ان کا زیادہ تر دھیان میری کوئی بات سننے کے بجائے اپنے آپ کو زیادہ وقت دینا تھا۔ میں نے تھوڑی دیر کوشش کی کہ اس مسئلے کے تاریخی پس منظر اور ان مخصوص عوامل کا ذکرکروں جس نے اس سوال کو یہاں تک پہنچایا ہے تاکہ ہم فروعات میں الجھنے کے بجائے مل کر اس صورت حال کا تجزیہ کر سکیں لیکن پھر یہ دیکھ کر کہ دونوں فریق دوسر ے کی سننے کے بجائے صرف اپنی اپنی بات کہنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
خود کو ایک سامع کی حد تک ہی محدود کر لیا کہ بعد میں آئے اور گفتگو میں شامل ہونے والے احباب کا موڈ بھی کچھ ایسا ہی تھا لیکن اتنا ضرور تھا کہ بیشتر احباب کے صحافت اور سیاسی تاریخ سے خصوصی شغف اور مہارت کے باعث اس معاملے کے کئی ایسے پہلو سامنے آئے جو اس سے پہلے یا تو زیادہ معروف نہیں تھے یا کبھی اتنی وضاحت سے ان پر بات نہیں ہوئی تھی، گفتگو میں قائداعظم کے پاکستان اور آج کے پاکستان کے علاوہ بار بار مختلف حوالوں سے نیلسن منڈیلا' طیب اردوان اور مہاتیر محمد کا ذکر بھی درمیان میں آیا کہ عوامی جدوجہد' عوام کے حقوق اور عوامی نمایندوں کے حق حکمرانی کے ضمن میں ان کا ذکر ایک طرح سے ناگزیرتھا لیکن اس ساری محفل کے دوران اور اس کے بعد بھی جو خیال دیر تک ذہن پر حاوی رہا وہ یہی تھا کہ ہماری گفتگو زیادہ تر''میں'' کے گرد گھومتی رہتی ہے اور اسے''ہم'' کے دائرے میں لانے کے لیے جس وسعت قلبی، ذہنی رویے اور انصاف پر مبنی باہمی Spaceکی ضرورت ہے۔
وہ ہم ایک دوسرے کو اس طرح سے نہیں دیتے جو اس کا حق ہے اور شائد اس وجہ سے تمام تر نیک نیتی' تجزیات کی گہرائی' علم وشعور' معلومات اور حب الوطنی کے باوجود ہم ان راستوں کی طرف کم کم جا پاتے ہیں جو مسائل کے ساتھ ساتھ ان کے حل کی طرف بھی کھلتے ہیں کوئی ایسا نقطۂ نظر جو بظاہر دوسروں سے جدا یا جزوی طور پر غیر واضح اور ناپسندیدہ ہو رکھنے میں اس وقت تک کوئی حرج نہیں جب تک ہم اس کے اظہار کے لیے مطلوبہ Space دوسروں کو دینے پر بھی نہ صرف تیار ہوں بلکہ ان کی بات کو اس طرح سے سننے اور سمجھنے کی کوشش کریں جس کی توقع ہم اپنی بات کے لیے کرتے ہیںاور اگر ہم سب کا مقصد انصاف، خیر اور اجتماعی ترقی کے راستوں کی تلاش ہے تو ہمارا رخ ہمیشہ منزل کی طرف ہونا چاہیے۔
بات چیت اور گفتگو اگر پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے افہام و تفہیم اور انصاف اور باہمی احترام کے ساتھ حل طلبی ہو تو معاملات خود بخود سدھر جاتے ہیں۔ سیاستدانوں کی طرح ہم سب میں بھی خامیاں اور کمزوریاں ہیں کہ فوج ہو یا بیورو کریسی خلائی مخلوق ہو یا اسٹیبلشمنٹ' جاگیردار ہوں یا مزارع' تاجر یا عام صارف یہ سب ہم ہی میں سے ہیں فرق صرف ایک دوسرے کو اس کی جائز Space دینے ا ور ایک دوسرے کی بات کو سننے اور سمجھنے کا ہے اور یہی وہ گیان ہے جو وقت اور ایمان دونوں کا مشترکہ تقاضہ ہے۔