الیکشن دنگل
یہ سارا توازن ہمارے سماج کے خدوخال سے جنم لیتا ہے۔ پسماندہ سماج ہماری معشیت کے لیے نہیں۔
عید کی گہماگہمی کے بعد اب الیکشن کا دنگل سجتا ہوا نظر آرہا ہے۔ آج سے 35 دن بعد پاکستان میں جنرل الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ یہ ملک کی تاریخ کا بہت بڑا ایونٹ ہے۔ اس دفعہ پاکستان کی تقدیر میں الیکشن کا وقت پر ہونا ناگزیر ہوچکا ہے، یہ مسلسل تیسرا الیکشن ہے لیکن اس کے کردار بھی وہ ہی ہیں، اقدار بھی وہ ہی ہیں اور ووٹرز بھی برائے نام فرق کے ساتھ اسی تناظر میں سوچتے اور دیکھتے ہیں۔
نہ پیمانے تبدیل ہوئے، نہ سوچ اور نہ ہی فکر، بلکہ یوں کہیے کہ دیکھنے اور پرکھنے کے زاویے اور تنگ نظری کا شکار ہوئے ہیں۔ بائیں بازو کی سیاست نہ جانے کہاں چلی گئی اور دائیں بازو سیاست کی مختلف شاخیں کھل پڑیں۔ وہ بھٹو اور ان کی پارٹی جو دائیں بازو کی سیاست کے اندر بائیں طرف تھی، جو کہ آج کے دور کے حساب سے روشن خیال اور سیکولر سیاست تھی اور خان ولی خان کی پارٹی جو کہ ایک انقلابی اور شورش پسند پارٹی تھی کہ آج کے منظور پشتین ان کی سامنے جیسے آٹے میں نمک کے برابر ہوں، یعنی کل کا ووٹر، کل کی قیادت اور کل کی سیاست جس پر سرد جنگ کے بادل تو تھے مگر اتنی بھی زوال پذیر نہ تھی جو کہ آج کی سیاست، آج کی قیادت اور آج کے ووٹرزکے حال ہیں۔ وہ مولانا مودودی کی پارٹی جماعت اسلامی اور مولانا مفتی محمود کی جمعیت علمائے اسلام اور آج کی دونوں یہ پارٹیاں اور ان دونوں پارٹیوں کی قیادت کا بھی وہ نہیں۔ اور اس زاویے سے بھی دیکھیے کہ جو دھاندلی 1990ء کے الیکشن میں کرائی گئی وہ اب ممکن نہیں۔
1970ء کے الیکشن کے بعد اب شاید یہ دوسرا بڑا الیکشن ہوگا جس پر دھاندلی کا داغ نہ لگے۔ لیکن آج کے ووٹرز جس طرح سے disinformation کی زد میں ہیں، شاید آج سے پہلے کبھی نہیں ہوں گے، جب کہ access to information جس طرح سے آج ایک عام آدمی کو میسر ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ سوشل میڈیا، ٹاک شوز، فیس بک وغیرہ، یہ تمام میڈیا ریسروسز جیسے مختلف پروپیگنڈا ہوں۔ مجھے ہٹلر کے وزیر اطلاعات گوبیل کی بات سچ ثابت ہوتی دکھ رہی ہے کہ جھوٹ کو بھی اگر بار بار دہرایا جائے تو سچ کا گمان ہوتا ہے۔
یہ بات میں نے پہلے بھی لکھی ہوگی کہ نہ صرف ہم بلکہ تمام دنیا میں جمہوریت کو جیسے پھپھوندی لگ گئی ہے جب کہ ہماری جمہوریت کا تو پہلے ہی کوئی پر سان حال نہیں۔ جمہوریت اس زمین پر آپ اور ہم سے جڑتی ہے، وہ آپ اور ہم کا عکس ہوتی ہے۔ کس طرح مشرق وسطیٰ میں اسپرنگ انقلاب آیا، وہ قاہرہ کا تحریر اسکوائر جس نے ایک تاریخ تحریر کی اور آمریت کو بھسم کیا لیکن پھر جب اس قوم کو ایک موقع ملا تو کیسے اس قوم نے وہ موقع گنوادیا کہ پھر ایک بار آمریت تحریر ہوئی۔ یہ جو ہماری جمہوریت ہے، یہ ہمارے ہی تاریخی تسلسل کا سلسلہ ہے۔ ہمارے مختلف طبقات، معاشی تعلقات اور رجحانات کا نتیجہ ہے۔ جو ہے اب یہی ہے اور اسی سے آگے ہی راہیں متعین ہوں گی اور یہیں سے ارتقاء کے زینے طے پائیں گے۔
ہمارے ووٹرز کی ٹیبل پر صرف یہ سوال نہیں کہ کون سی پارٹی ان کے نظریے، سوچ اور فکر کی ترجمانی کرے گی۔ جس ووٹرز کے پاس یہ سوال ہے اس ووٹر کو معیاری ووٹر کہا جاسکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ ووٹر وہ بھی ہے جو اس کے برعکس ووٹ دینے کا یہ زاویہ نہیں رکھتا۔ اس کے پاس صرف اور صرف اپنی روایتی زاویے ہیں۔ وہ صرف اپنے سردار کو ووٹ دینا چاہتا ہے۔ پیر وڈیرے اور سید کو ووٹ دینا چاہتا ہے۔
یوں کہیے کہ اس کے پاس ووٹ کا شعور ہی نہیں۔ اور اس طرح کی کم و بیش دس اور وجوہات ہوں گی جو بذات خود جمہوریت کی نفی ہیں۔ نفی تو یہ بھی ہے کہ جب لوگ آپ کی سوچ و فکر کا استحصال کرکے آپ سے نفرت کے نام پر ووٹ لیتے ہیں۔ وہ لوگوں کے مذہبی، تاریخی و ثقافتی مزاج کو جذباتی ابھار دیتے ہیں اور پھر اس طرح بیانیہ بنانے میں ان کو main stream سے کاٹ دیتے ہیں۔ کیا دیا بلوچ سرداروں نے بلوچستان کے لوگوں کو۔ کیا دیا گیا ان لوگوں کو جن کی کراچی میں مخصوص انداز میں سیاسی پرورش کی؟ اور خود جو جمہوریت کے دعویدار ہیں انھوں نے بھی اپنے حلقوں میں کیا ترقیاتی کام کروائے اور کیا لوگوں کو بہتر معیار زندگی دیا؟ کیا ان کی تقدیر بدلی؟
یہ سارا توازن ہمارے سماج کے خدوخال سے جنم لیتا ہے۔ پسماندہ سماج ہماری معشیت کے لیے نہیں۔ لیکن اس پسماندہ سماج سے جو electables کی سیاست ہوتی ہے وہ ان لوگوں کو راس آتی ہے جن لوگوں نے جمہوریت کے اندر مداخلت کرنی ہوتی ہے۔ ہم اب بھی بہت حد تک نظریاتی ریاست ہیں۔ لیکن ہماری منزل فلاحی ریاست ہے، جس میں تمام نظریاتی لوگ رہ سکیں۔ ہر ایک کی سوچ کو مکمل آزادی ہو کہ وہ اپنی سوچ اور فکر لوگوں تک لے جائیں۔
لندن کی سیاست میں کوئی سردار کو ووٹ نہیں دیتا۔ وہاں سب کے سب مڈل کلاس و ہنرمند لوگ ووٹ دیتے ہیں۔ ان کی سوچ سیکیولر ہے، ہاں اگر بس ان کو کوئی بیانیہ دیا جائے اور دائیں بازو کی اشتعال انگیز سیاست کرکے islamic phobia کی ہوا دے جائے۔ ایسے کام یہاں بھی ہوں گے، خصوصاً پنجاب میں سب سے زیادہ ہوں گے۔ آج جو ہماری جمہوریت اور سیاست ہے، اس کا سب سے بڑا دنگل 25 جولائی کو سجے گا۔
چالیس سال سے راج کرتی ہوئی پاکستان پیپلز پارٹی بہت پیچھے رہ گئی۔ شاید اب وہ صرف سندھیوں کی پارٹی ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (ن) مقابلے کی پارٹیاں ہیں۔ لیکن ان تینوں پارٹیوں میں ایک چیز مشترکہ ہے کہ یہ تمام پارٹیاں اپنے ادوار میں اسٹبلشمنٹ سے افیئر چلا چکی ہیں۔ لیکن جو بات ان میں مشترکہ نہیں وہ یہ کہ پیپلز پارٹی ایک سیکولر پارٹی تھی، اس کے پیچھے رہ جانے سے پاکستان میں سیکولر سیاست کو بہت پیچھے دھکیلا گیا ہے۔ لیکن اس میں اب قدراً بہتری بھی آرہی، وہ اس حوالے سے کہ 2013ء میں سیکولر پارٹیوں کو آزاد طریقے سے اپنی الیکشن مہم چلانے کی اجازت نہیں تھی۔ ملک میں طالبان دہشتگردی کا بہت اثر تھا، جو کہ اب اب محدود ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس سارے پس منظر میں عید کے بعد ہم آیندہ 35 دنوں کے اندر سیاست کے roller couster پر سفر کریں گے۔ دیکھتے ہیں کتنے آزاد و شفاف 2018 ء کے الیکشن ثابت ہوتے ہیں۔