کچھ پیش گوئیاں‘ چند اندازے
طالبان حالات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ وہ ملک کی سیاست کو دشمنی کی لکیر سے تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
الیکشن میں ڈیڑھ ہفتے کے قریب وقت رہ گیا ہے لیکن ابھی تک پنجاب اور اندرون سندھ کے سوا کہیں بھی آزادانہ انتخابی مہم شروع نہیں ہو سکی۔ دہشت گردوں کو کنٹرول نہ کیا گیا تو کراچی' کوئٹہ' پشاور سمیت دیگر شہروں اور قصبوں میں چار دیواری کے اندر بھی شاید کوئی انتخابی سرگرمی نہ ہو سکے۔ اے این پی اور ایم کیو ایم کے دفاتر اور امیدوار شدت پسندوں کے خاص نشانے پر ہیں۔
پیپلز پارٹی پر بھی حملوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ لبرل اور ماڈریٹ سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ منی طالبان جماعتیں آزادانہ انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ ادھر کراچی میں تاج حیدر' حیدر عباس رضوی اور بشیر جان نے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس کی ۔ انھوں نے بہت آگے نکل کر عالمی اسٹیبلشمنٹ کو بھی پاکستان میں دہشت گردوں کے غلبے کا نوٹس لینے کی اپیل کی۔
پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی کی نمائندگی کرنے والے ان تینوں دوستوں نے پنجاب کا نام لیے بغیر یہ کہا کہ ایک صوبے میں آزادانہ الیکشن مہم ہو رہی ہے اور باقی صوبوں میں لبرل' ماڈریٹ اور ترقی پسند جماعتوں کے امیدواروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ نگران حکومتوں کے قیام سے پہلے بھی کراچی' خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں قتل و غارت جاری تھی۔ اے این پی' ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کراچی میں ایک دوسرے سے برسرپیکار تھیں' اگر کسی کو یاد نہیں تو ذوالفقار مرزا کی پریس کانفرنسیں اور متحدہ کے رہنماؤں کے جوابی بیانات دیکھ لیں۔
اے این پی کے شاہی سید کی باتیں بھی سب کو یاد ہیں۔ پشاور میں بشیر بلور کا قتل نگران نہیں اے این پی کے اپنے دور میں ہوا۔ میری اس یاد دہانی نما عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ طالبان' بی ایل اے اور لشکر جھنگوی وغیرہ نگران حکومت کے دور میں قائم ہوئیں نہ انھوں نے یہ پہلی کارروائی کی ہے۔ میاں نواز شریف' عمران خان' فضل الرحمن اور سید منور حسن ان کے دوست نہیں ہیں' انتہا پسندوں نے ملک کی سیاسی جماعتوں کے اپنے گروہی مفادات کو بھانپتے ہوئے کامیاب چال چلی ہے۔
انھوں نے میاں صاحب' خان صاحب اور منور حسن کو حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ضامن کہہ کر جو پتا پھینکا تھا' اب پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی اسے اٹھا کر انتخابی میدان میں اتر آئے ہیں۔ پنجاب میں اگر ن لیگ' تحریک انصاف' جماعت اسلامی اور ق لیگ آزادانہ انتخابی مہم چلا رہی ہیں تو پیپلز پارٹی کو بھی یہی آزادی حاصل ہے' اگر اے این پی اور ایم کیو ایم لاہور میں اپنے امیدوار کھڑے کرتیں تو وہ بھی اس آزادی سے فائدہ اٹھاتیں۔ اندرون سندھ میں بھی پیپلز پارٹی' قوم پرست اور ن لیگ بھرپور جلسے کررہی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن' کوہستان' چترال میں انتخابی مہم جاری ہے۔ ڈیرہ اسماعیل کی بھی یہی صورتحال ہے' بلوچستان میں ماضی بھی ایسا ہی تھا۔
طالبان حالات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں' وہ ملک کی سیاست کو دشمنی کی لکیر سے تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک گروپ کو اپنا کہہ رہے ہیں اور دوسرے پر حملہ کر رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے اس کی توثیق بھی کر دی ہے۔ ترجمان کے مطابق مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، جے یو آئی (ف) اور جماعتِ اسلامی کے لیے عام ''معافی'' ہے جب کہ دیگر جماعتوں کو ''جمہوریت'' کا راگ الاپنے کی سزا ضرور ملے گی۔ ٹی ٹی پی اپنے اس موقف پر بھی قائم ہے کہ جمہوریت کفر کا نظام ہے۔
جن چار ''کافر'' جماعتوں کو استثنیٰ ملا ہے وہ فی الحال خدا کا شکر ادا کریں۔ کیونکہ انھیں بھی وقتی ریلیف دیا گیا ہے۔اس کا احساس میاں نواز شریف اور عمران خان کو بھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ جے یو آئی' جماعت اسلامی وغیرہ کو چھوڑ کر باقی ساری سیاسی جماعتیں ماڈریٹ ہیں' انھیں اپنے مفادات کو خوش اسلوبی سے تقسیم کرنا چاہیے تاکہ طالبان الگ ہو جائیں۔ شدت پسندوں کے ٹارگٹ پر جو جماعتیں ہیں وہ اپنی حفاظت خود کریں کیونکہ نگران حکومتیں ان کے لیے کچھ نہیں کر سکیں گی۔
الیکشن ہوں گے یا نہیں یہ بحث کئی ماہ سے جاری ہے، جن کو خدشہ ہے الیکشن نہیں ہوں گے وہ ہر روز ہونے والے دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات کو اپنے موقف کے حق میں پیش کرتے ہیں۔ 2013ء کے الیکشن خونیں ہوں گے، اس بارے میں پیش گوئیاں تو مدتوں پہلے کر دی گئی تھیں۔ آج جو ہو رہا ہے اس کا خدشہ تو بہت پہلے سے تھا۔ کیا پتہ ابھی کتنی لاشیں اور گریں گی، کتنے گھروں میں صف ماتم بچھے گی اور کتنے بچے یتیم ہوں گے، کتنی ماؤں کی گود اُجڑے گی اور کتنے خاندان بے سہارا ہوں گے؟ ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی اپنی سرگرمیوں کو محدود کر رہی ہیں، یہ بہتر فیصلہ ہے، نگران کچھ نہیں کر سکتے تو انھیں اپنی نگرانی خود کرنا ہو گی ورنہ بہت نقصان ہو گا۔
ہمارے حالت یہ ہے کہ ہر روز جنازے اٹھانے والوں سے اظہار ہمدردی کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ ان تینوں جماعتوں کی قیادت کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ دہشت گرد آج کھلے عام انھیں نشانہ بنا رہے ہیں تو اس میں کہیں نہ کہیں یہ بھی قصور وار ہیں۔ 5 سال حکومت کا مینڈیٹ ملا، مدت بھی پوری کر لی مگر دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے قومی اتفاق رائے پیدا نہیں کیا جا سکا۔ ان کی ساری توجہ اپنی آئینی مدت پوری کرنے پر مرکوز رہی، جوڑ توڑ ہوتا رہا، اپنے اپنے مفادات کے تحت روٹھنے منانے کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔
اپنی مدت پوری کرنا ہی ان کی واحد کامیابی ہے۔ سابق اتحادی حکومت سوات میں کامیاب آپریشن کا کریڈٹ لیتی ہے لیکن کون نہیں جانتا یہ آپریشن کس کی کامیابی تھی۔ حالات بہت خراب ہیں اس کے باوجود امید ہے الیکشن وقت پر ہو جائیں گے۔
دہشت گردی کے واقعات کے ساتھ ساتھ یہ الیکشن ایک اور حوالے سے بھی مشکل ہیں۔ ماضی کے کوئی الیکشن ہوتے تو ان کے نتائج کے بارے میں پیش گوئی آسان تھی، میں اُس وقت یہ دعویٰ کر سکتا تھا کہ الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہو گی۔ لیکن پاکستان تحریکِ انصاف کے میدان میں ہونے کی وجہ سے صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ وسطی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط ہو رہی ہے۔ زرداری صاحب کو توقع تھی کہ (ن) لیگ اور تحریکِ انصاف میں ووٹ تقسیم ہوں گے تو پیپلز پارٹی کے امیدواروں کا فائدہ ہو گا۔ میرے خیال میں بات اس سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔
پنجاب کی دو تہائی سیٹوں پر نواز لیگ اور تحریکِ انصاف میں ون آن ون مقابلہ ہو گا۔ ان حلقوں کے نتائج کا اعلان ہو گا تو پیپلز پارٹی کا امیدوار شاید دور دور تک دکھائی نہ دے۔ (ق) لیگ اور دیگر جماعتوں سے معذرت کہ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں میں اقتدار کی اصل جنگ ہو رہی ہے۔ (ن) لیگ کو اپنے ہوم گراؤنڈ پنجاب میں سخت مقابلہ درپیش ہے تو پیپلز پارٹی کے لیے سندھ میں پہلے جیسے حالات نہیں ہیں۔ وہاں کے اکثر مقابلے سابق حکمران جماعت کے لیے سوہان روح بنے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کراچی، سکھر اور لاڑکانہ جانا ہوا تو لوگوں کا بدلا ہوا موڈ دیکھ کر کافی حیرت ہوئی۔
این اے 207 کی مثال صورت حال سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیٹ ہے جہاں سے وہ 4 مرتبہ منتخب ہوئی تھیں۔ 2008ء میں فریال تالپور اس سیٹ سے بلامقابلہ منتخب ہوئیں اور اب ان کے مقابلے میں 37 امیدوار ہیں۔ شہداد کوٹ کے لوگوں کا خیال ہے کہ فریال تالپور ہی جیتیں گی لیکن ذرا تصور کریں کہ زرداری صاحب کی بہن یہاں سے ہار گئیں تو کیا ہو گا؟ ان کا شہداد کوٹ سے ہارنا پوری پارٹی کی شکست کے مترادف ہو گا۔
یہ تو ایسے ہی ہے کہ نواز شریف لاہور سے ہار جائیں یا عمران خان کو میانوالی سے شکست کا سامنا کرنا پڑے۔ پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد پارٹی چھوڑ کر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہی ہے۔ سندھ میں کچھ غیر متوقع نتائج تو ضرور آئیں گے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی میں بھی غیر متوقع نتائج آ سکتے ہیں۔ تحریک ِ انصاف اور دس جماعتی اتحاد جس میں (ن) لیگ، فنکشنل اور جماعت اسلامی بھی شامل ہیں، اس بار کراچی میں اپ سیٹ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
اندازے غلط ثابت ہو سکتے ہیں اور پیش گوئیاں جھوٹی۔ اس کے باوجود یہ اندازہ لگانے اور پیش گوئی کرنے کی جرات کر رہا ہوں کہ آئندہ حکومت نواز شریف بنائیں گے یا عمران خان...!!!