زمین ایک اور آسمان کھا گئی

مسکراہٹیں بانٹنے والے مشتاق احمد یوسفی ہر آنکھ میں آنسو چھوڑ گئے


Arif Aziz June 21, 2018
مسکراہٹیں بانٹنے والے مشتاق احمد یوسفی ہر آنکھ میں آنسو چھوڑ گئے۔ فوٹو: فائل

زمین ایک اور آسمان کھاگئی۔ مشتاق احمد یوسفی کی سانسوں کے ساتھ عہدیوسفی تمام ہوا۔ عہدِیوسفی۔۔۔۔۔۔اردو ادب میں مزاح کا سنہرا دور اختتام کو پہنچا۔ آئیے! تھکے ماندے ذہنوں اور اداس دلوں کو اپنی شگفتگی سے تازگی اور مسرت عطا کرنے والے اس مزاح نگار کی زندگی کے اوراق الٹتے ہیں۔

مشتاق احمد یوسفی نے ٹونک میں آنکھ کھولی، مگر ان کا آبائی وطن جے پور تھا۔ ان کے والد عبدالکریم خان یوسفی نے اسکول ٹیچر کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا، لیکن چند سال بعد پولیٹیکل سیکریٹری کا عہدہ ملنے پر تدریس چھوڑ دی۔ اس نئی ذمے داری کو قبول کرنے کے ساتھ ہی ٹونک ہجرت کر گئے۔ وہاں مشتاق احمد یوسفی پیدا ہوئے۔ تاریخ پیدائش چار اگست اور سن 1923 ہے۔ مارواڑی ان کی بولی تھی۔

1931 میں یہ خاندان جے پور لوٹ آیا، جہاں ان کے والد نے اپنا کاروبار کرلیا۔ عبدالکریم خان کا معاش کاروبار کی مختلف شکلوں سے جڑا رہا۔ پھر انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ جے پور میں بلدیہ کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد انہیں قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھانے کا موقع بھی ملا۔

تعلیم کے میدان میں مشتاق احمد یوسفی کی کارکردگی شان دار رہی۔ ابتدائی تعلیم ٹونک کی درس گاہوں سے حاصل کی۔ جے پور لوٹنے کے بعد مہاراجا ہائی اسکول سے میٹرک کیا اور مہاراجا کالج راجپوتانہ میں انٹرمیڈیٹ کے لیے داخلہ لیا۔ مزید تعلیم کے لیے انہوں نے آگرہ یونی ورسٹی کا رخ کیا۔ یہاں انہوں نے آرٹس کے شعبے میں اپنے نام کا اندراج کروایا۔

یوسفی صاحب بتاتے ہیں کہ وہ پہلے مسلمان طالب علم تھے، جس نے آگرہ یونی ورسٹی سے بی اے میں ٹاپ کیا۔ اس سے قبل انہیں انٹرمیڈیٹ میں راجپوتانہ بورڈ کی سطح پر ٹاپ کرنے والے پہلے مسلمان طالب علم کا اعزاز حاصل ہوچکا تھا۔ انگلش لٹریچر میں بہترین کارکردگی کی بنیاد پر انہیں گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔ بی اے کرنے کے بعد انہوں نے ایل ایل بی کا امتحان دیا اور نتائج کے مطابق اول درجے میں کام یاب قرار پائے۔ ایل ایل بی کے لیے انہوں نے علی گڑھ یونی ورسٹی کا انتخاب کیا تھا۔

یوسفی صاحب 1946 میں سول سروس سے وابستہ ہوئے۔ 1949میں انہیں انڈین ایڈمنسٹریٹر سروس سے پیش کش ہوئی، لیکن اسے قبول نہیں کیا اور پاکستان آگئے۔ یہاں شہرِقائد میں سکونت اختیار کی۔ 1950میں انہوں نے بینکاری کی دنیا میں قدم رکھا۔ وہ مسلم کمرشل بینک میں ملازم ہوئے۔ تین مارچ، 1954 کو چیف اکاؤنٹینٹ کا عہدہ مل گیا، چار نومبر 1956 کو انہیں انسپکٹر آف برانچز مقرر کردیا گیا۔

24 اپریل 1962کو ایم سی بی کے اسسٹنٹ جنرل مینجر بنے اور اپریل 1964سے1965 تک ڈپٹی جنرل منیجر رہے۔31 دسمبر 1973 کو آسٹریلیشیا بینک لمیٹڈ (الائیڈ بینک) کے منیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ 1979میں بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (BCCI) کے مستقل ایڈوائزر بنے اور اپریل 1990میں ریٹائرمنٹ حاصل کر لی۔ ان کی پانچ کتابیں شائع ہوئیں۔ چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آبِ گم اور شامِ شعر یاراں۔

یوسفی صاحب کے مطابق ان کا میدان (مزاح) کُل وقتی توجہ اور انہماک کا طالب تھا۔ وہ خود سے 'کوتاہ قلمی' کی شکایت کرنے والوں کو کہتے کہ جو تحریر مجھے پسند نہیں، وہ دوسروں کو کیسے پڑھوا سکتا ہوں۔ کسی محفل میں ایک واقعہ سناتے ہوئے قاری کے مسئلے کی نشان دہی انہوں نے یوں کی،''ایک صاحب نے طنزاً مجھ سے کہا کہ آپ کی تحریریں پڑھنے کے لیے 'ایم اے' ہونا ضروری ہے۔ میرا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ پڑھنے والے کا ہے، میرا نہیں ہے۔ اب لوگوں کا اردو ذخیرۂ الفاظ چند سو ہی رہ گیا ہے اور اسی وجہ سے مشکل پیش آرہی ہے، لیکن میں اپنا اسٹائل تبدیل نہیں کرسکتا۔ سلاست اور روانی اپنی جگہ، لیکن مفہوم کی ادائیگی کے لیے ایک اور صرف ایک لفظ ہوتا ہے۔ اس کا کوئی متبادل یا مترادف نہیں ہوتا۔''

وہ شفیق الرحمان کی کتابوں کے قاری رہے۔ انہیں بڑا لکھاری مانتے تھے۔ مشتاق یوسفی ان سے اپنی عقیدت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔

''ابتدائے عشق میں میری یہ خواہش تھی کہ اُن جیسا لکھوں، لیکن نہ لکھ سکا۔ پھر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اُن جیسا نہیں لکھ سکتا۔''

یوسفی صاحب نے اپنے دور میں بڑے مزاح نگاروں کو پڑھا۔ ان میں پطرس بخاری، ابن انشا، رشید احمد صدیقی، سید ضمیر جعفری، کرنل محمد خان، خالد اختر وغیرہ شامل ہیں۔ یوسفی صاحب کا کہنا تھا کہ دل چسپ بلکہ قابل فخر بات یہ ہے کہ ان سب کا لب و لہجہ اور لکھنے کا انداز ایک دوسرے سے یک سر جدا ہے۔ ہر ایک کا اوریجنل اسٹائل ہے، کوئی بھی نقال نہیں۔ ضمیر جعفری صاحب کے ہاں تازگی ہے، کوئی تکرار نہیں۔

ان کا دیہاتی زندگی سے بہت گہرا تعلق رہا اور مشاہدہ گہرا ہے۔ وہ خود کو خوش قسمت تصور کرتے تھے کہ ایسے عظیم مزاح نگاروں کو دیکھنے اور انہیں پڑھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کسی مزاح نگار کے بڑے اور منفرد ہونے کا تعین کرنے سے متعلق کہا تھا، ''یہ تعین کرنا کہ گلاب زیادہ اچھا ہے یا چنبیلی یا موتیا، مشکل کام ہے۔ اسی طرح مزاح کے باغ میں ہر پھول اپنی جگہ منفرد اور بے مثل ہے۔

پطرس سے متعلق کہتے تھے، '' اگر وہ نہ ہوتے تو ہم بھی نہ ہوتے۔'' اسی طرح رشیداحمد صدیقی کو بڑا ادیب بتاتے ہوئے کہا کہ ان کا اسلوب اور طرز نگاری آسان نہیں۔

انگریزی ادب کے ذکر پر وہ مزاح نگار مارک ٹوئن کو اس صنف کا باوا آدم بتاتے۔ ان کے نزدیک مزاح طنز سے آگے کی چیز ہے اور برتر بھی۔ مزاح نگاری کو دیگر اصناف کے مقابلے میں مشکل قرار دیتے تھے۔

ان کے مطابق کہانی کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو قاری کو اس کے انجام سے زیادہ دل چسپی ہوتی ہے، لیکن مزاح میں ہر جملہ ہر پیرا اور ہر صفحہ پڑھنے کے بعد قاری سوچتا ہے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس میں کون سی پُرمزاح اور شگفتہ بات کہی گئی ہے۔ ذو معنی الفاظ اور لطیفے مزاح کا لطف برباد کر دیتے ہیں۔ یہ سب سے آسان اور کم درجے کی کوشش ہے، جس کا استعمال جتنا ممکن ہو کم کرنا چاہیے۔ مرحوم کو ستارۂ امتیاز، ہلال امتیاز، قائد اعظم یادگاری میڈل اور پاکستان اکادمی ادبیات کی طرف سے بھی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں