ہم تم جہاں ملے تھے پھولوں کی رہگزر میں
چند فلموں میں گیت لکھ کر شاعر صدیقی کی بھی ایک پہچان بنتی چلی جا رہی تھی۔
سابقہ مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں جب اردو فلموں کا آغاز ہوا تو جن تین شاعروں نے ڈھاکہ کی اردو فلموں کو سہارا دیا، ان میں اختر یوسف، سرور بارہ بنکوی اور شاعر صدیقی شامل تھے۔ ان تینوں شاعروں نے شب و روزکی محنتوں کے ساتھ اردو فلموں کو ترقی کی منزل تک پہنچانے میں بڑی کوششیں کی تھیں۔
بنگالی آرٹسٹوں کو اردو بولنا نہیں آتی تھی وہ فلموں کی شوٹنگ کے دوران سیٹ پر اردو مکالمے رومن انگلش میں لکھے ہوئے خوب یاد کرتے تھے اور جب کیمرے کے سامنے آکر بولتے تھے تو ہر لفظ کی ادائیگی خود ان کا مذاق اڑاتی تھی اور اس پریشانی کو دورکرنے کے لیے ان اردو شاعروں نے آرٹسٹوں کو اردو بولنا سکھایا تھا بلکہ یہ شاعر بنگالی آرٹسٹوں کی باقاعدہ اردو کی کلاسیں بھی لیا کرتے تھے۔
شاعر اختر یوسف سے میری پہلی ملاقات کراچی ہی میں ان کی ایک فلم کی نمائش پر فلمی صحافیوں کے ساتھ ہوئی تھی اور نامور شاعر سرور بارہ بنکوی سے میری پہلی ملاقات کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں ان دنوں ہوئی تھی جب وہ اپنی فلم 'کاجل' میں لکھے گئے ایک گیت پر بہترین شاعرکا نگار ایوارڈ لینے کے لیے کراچی آئے تھے۔
نغمہ نگار شاعر صدیقی سے میری پہلی ملاقات ماہنامہ رومان کے دفتر میں ایڈیٹر سعید امرت کے ساتھ ہوئی تھی، ان دنوں رومان کا دفتر سعید امرت کی بیٹھک بھی کہلاتا تھا۔ میرے آج کے کالم کی شخصیت شاعرصدیقی ہیں جن کا کلام ٹیلی ویژن پر بھی مشہور ہوا اور پھر جن کے فلمی گیتوں کو بھی بڑی شہرت ملی۔ سب سے پہلے میں ان کے ٹیلی ویژن کے لکھے ہوئے ایک گیت کا تذکرہ کروں گا جس کے موسیقار کریم شہاب الدین تھے اورگیت کے بول تھے:
ہم تم جہاں ملے تھے پھولوں کی رہگزر میں
وہ دلنواز راہیں' ہیں آج بھی نظر میں
اس گیت کو ڈھاکہ کی مشہورگلوکارہ شہناز بیگم نے گایا تھا اور پھر یہ گیت ٹیلی ویژن کے مقبول ترین گیتوں میں شامل ہوگیا تھا۔ اس گیت سے پھر نوجوان گلوکار عالمگیر بڑا انسپائر ہوا اس نے بھی یہ گیت گایا اور اس گیت کو اپنے ایک میوزک البم میں بھی شامل کرلیا تھا۔ اس گیت کے بعد ٹی وی کا ہی ایک اور گیت بنگال کی نامورگلوکارہ فردوس بیگم کی آواز میں منظر عام پر آیا شاعر صدیقی کے اس گیت کے بول تھے۔
وہیں زندگی کے حسیں خواب ٹوٹے
ڈھاکہ ٹیلی ویژن کے لیے ریکارڈ کیا گیا یہ گیت بھی موسیقارکریم شہاب الدین کی مدھر موسیقی میں ڈھاکہ ٹیلی ویژن کے ساتھ ساتھ مغربی پاکستان کے ہر ٹیلی ویژن پر بھی مقبولیت کی سند بن گیا تھا۔ جب مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا تو کریم شہاب الدین بھی ڈھاکہ سے کراچی آگیا تھا اور پھر اپنی ان مشہور دھنوں اور گیتوں کو دو ابھرتی ہوئی آوازوں سے گوایا جن میں ایک گلوکارہ فاطمہ جعفری تھی اور دوسرا نوجوان گلوکار جمال اکبر تھا اور ان دو گیتوں نے فاطمہ جعفری اور جمال اکبر کو شہرت کی منزل کا ہمسفر بنا دیا تھا۔
اب میں آتا ہوں ان دو حسین گیتوں کے خالق شاعر صدیقی کی ابتدائی زندگی کی طرف۔ شاعر صدیقی کا گھریلو نام عبدالرزاق تھا، ان کا خاندان کلکتہ سے 1950ء میں ڈھاکہ آگیا تھا اور پھر شاعر صدیقی نے ڈھاکہ کے سٹی کالج سے بی۔اے کیا تھا۔ اور شعر و شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ انھی دنوں ڈھاکہ میں ان کی ملاقات ہدایت کار شوکت ہاشمی سے ہوگئی۔
شوکت ہاشمی بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ایک طویل عرصہ گزار چکے تھے، کئی مشہور فلمسازوں کے ساتھ ان کے یونٹ میں بحیثیت معاون ہدایت کار اور مکالمہ نگار بھی رہ چکے تھے۔ ڈھاکہ آنے کے بعد شوکت ہاشمی نے بطور ہدایت کار اپنی فلم ''ہمسفر'' کا آغاز کیا۔ اس فلم میں شوکت ہاشمی نے فیاض ہاشمی اور شاعر صدیقی سے گیت لکھوائے تھے۔ فلم کے موسیقار مصلح الدین تھے۔ شاعر صدیقی کے لکھے ہوئے دو گیتوں کو ان دنوں بڑی مقبولیت ملی تھی، یہ دو گیت گلوکارہ سندھیا مکرجی کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے تھے اور ان کے بول تھے:
٭اکھیاں چھلکیں' دل میرا دھڑکے
٭سانوریا ہو میرے سانوریا
اب میں آتا ہوں اس دور کی ایک فلم ''بھیا'' کی طرف جس کے ہدایت کار قاضی ظہیر تھے اور اس فلم میں ڈھاکہ کی اداکارہ چترا کے ساتھ کراچی کے ہیرو وحید مراد کو کاسٹ کیا گیا تھا، فلم کے موسیقار روبن گھوش تھے۔ فلم ''بھیا'' میں شاعر صدیقی نے قوالی کے انداز میں ایک نعت لکھی تھی، جس کے بول تھے:
مدینے والے سے میرا سلام کہہ دینا
تڑپ رہا ہے تمہارا غلام کہہ دینا
یہ نعت گلوکار احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ کی گئی تھی، جسے ان دنوں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ اسی فلم میں شاعر صدیقی کا لکھا ہوا ایک گیت گلوکارہ مالا نے بھی گایا تھا جس کے بول تھے:
میرے سپنوں میں آ کے
میری نیندیں چرا کے
چند فلموں میں گیت لکھ کر شاعر صدیقی کی بھی ایک پہچان بنتی چلی جا رہی تھی۔ اسی دوران انھیں ڈھاکہ کی رنگین فلم ''سنگم'' میں بھی گیت لکھنے کا موقع ملا۔ مذکورہ فلم میں شاعر صدیقی کا لکھا ہوا ایک گیت کافی مقبول ہوا تھا۔ جس کے بول تھے:
دل میرا لے کے
کہاں چل دیے حضور
یہ گیت گلوکار اختر شادمانی نے گایا تھا۔ انھی دنوں ڈھاکہ کی دو اور اردو فلموں ''قلی'' اور ''کارواں'' کے لیے بھی شاعر صدیقی نے گیت لکھے تھے۔ فلم ''قلی'' میں مجیب عالم کے گائے ہوئے ایک گیت کو کافی شہرت ملی تھی جس کے بول تھے:
تم کو مبارک ہو یہ سماں
اور فلم ''کارواں'' کا ایک گیت جسے ناہید نیازی نے گایا تھا بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:
چھوڑ کے جانے والے
دل توڑ کے جانے والے
یہاں میں ایک بات اور بتاتا چلوں کہ جب گلوکارہ ناہید نیازی ڈھاکہ کی کئی اردو فلموں میں گیت گانے کے لیے گئی تھی اور اسے موسیقار مصلح الدین نے بھی اپنی فلموں میں گوایا تھا تو گلوکارہ ناہید نیازی اور مصلح الدین ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے تھے۔ اور پھر دونوں نے شادی کرلی تھی یہاں ایک بات کی اور وضاحت کردوں کہ گلوکارہ ناہید نیازی کو موسیقی اپنے والد سجاد سرور نیازی سے ورثے میں ملی تھی۔ سجاد سرور نیازی کا آل انڈیا ریڈیو میں بڑا نام تھا اور وہ ایک زمانے میں آل انڈیا ریڈیو پشاور کے اسٹیشن ڈائریکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین موسیقار بھی تھے۔ اب میں پھر شاعر صدیقی کی طرف آتا ہوں، ڈھاکہ کی فلموں 'پیسے، مینا اور ''پھر ملیں گے ہم دونوں'' میں بھی ان کے کئی لکھے ہوئے گیت گلوکار بشیر احمد، احمد رشدی اور سبینہ یاسمین نے بھی گائے تھے، جن میں سے ایک بڑا ہی پروگریسیو گیت تھا جس کے بول تھے:
بھوک انسان کو دیوانہ بنا دیتی ہے
یہ گیت فلم ''پیسے'' میں احمد رشدی نے گایا تھا اور یہ ان دنوں بڑا پاپولر ہوا تھا۔ پھر جب ڈھاکہ میں مکتی باہنی کی تحریک نے سر اٹھایا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو ایک دم سے اردو بولنے والوں پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی تھی اور لوگ بے سر و سامانی کی حالت میں بنگلہ دیش سے اپنی زندگیاں بچا کر ادھر ادھر جا رہے تھے۔ اسی دوران شاعر صدیقی بھی بنگلہ دیش چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ جب ڈھاکہ سے کراچی آئے تو یہ کچھ عرصے تک اپنے آپ کو ہی بھول چکے تھے پھر کچھ عرصے کے بعد ان کے حالات بہتر ہونے شروع ہوئے تو شعر و ادب ہی سے بس دلچسپی باقی رہ گئی تھی کیونکہ کراچی میں بھی فلم انڈسٹری بد ترین حالات سے دوچار تھی اور شاعر صدیقی بھی بڑی مایوسی کا شکار تھے، میری بیس سال پہلے ان سے آخری ملاقات سعید امرت کی بیٹھک ہی میں ہوئی تھی۔