’ سر بازار رقصاں‘ ایک منفرد ناول

’’سرِ بازار رقصاں‘‘ نسیم انجم کا تازہ ناول ہے۔ یہ ان کے پہلے ناولوں سے انفرادیت کا حامل ہے۔


عثمان دموہی June 24, 2018
[email protected]

سیاسی موضوعات پر لکھنا میرا پسندیدہ مشغلہ ہے اور ملک میں ہر دم ہی ایسے حالات و واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن پر لکھے بغیر رہا بھی نہیں جاسکتا مگر اس دفعہ ایسا ہوا کہ حالات حاضرہ پر لکھنے کے لیے جیسے ہی قصد کیا ، نسیم انجم صاحبہ کا فون آگیا کہ آپ کی فرمائش پر اپنا تازہ ناول ابھی آپ کو بھیج رہی ہوں اورکچھ دیر میں وہ آگیا۔ ناول کو ایک سرسری نظر سے دیکھا اور پھر ایسا ہوا کہ اسے پڑھے بغیر نہ رہ سکا۔ پورا ناول ایک ہی نشست میں ختم کر ڈالا اور پھر سیاست پر لکھنے کے بجائے ناول پر ہی لکھنے بیٹھ گیا۔

''سرِ بازار رقصاں'' نسیم انجم کا تازہ ناول ہے۔ یہ ان کے پہلے ناولوں سے انفرادیت کا حامل ہے۔ اس میں انھوں نے معاشرے کے گھناؤنے مکروہ چہروں سے بڑی بے باکی اور فنی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نقاب اٹھایا ہے۔ ناول کی ابتدا حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار پر ہونے والی سرگرمیوں سے ہوتی ہے۔ مزارات کے اطراف میں آباد ہونے والی دنیا بھی اپنی طرز کی نرالی اور انوکھی ہوتی ہے۔

یہاں نصیب بنانے والے بھی آتے ہیں اور نصیب بگاڑنے والی بھی آتی ہیں۔ نسیم انجم نے نہایت دلکشی کے ساتھ ایسے لوگوں کی عکاسی کی ہے۔ دیکھیے یہ پیراگراف ''نیلم کو حسب معمول اس نے گاڑی سے اتار کر وہیل چیئر پر بٹھادیا۔ اس وقت گہرا سناٹا تھا۔ وہ گاڑی چلاتا ہوا ایک مخصوص جگہ پر لے آیا۔ یہاں لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی اور کاروبار زندگی شروع ہوچکا تھا۔ سورج کی کرنیں دور دور تک پھیل چکی تھیں۔ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی چیزیں اور ملگجے کپڑے پہنے ہوئے لوگ اجالے میں آگئے تھے۔ کچھ لوگ اپنی کٹیا سے نکل کر باہر آرہے تھے۔

زیادہ تر ان میں سے چغہ زیب تن کیے ہوئے تھے جن کی رنگت سبز تھی۔ گلے میں رنگ برنگے موتیوں کی مالائیں پڑی تھیں۔ ہاتھوں میں تسبیحیں لٹکی ہوئی اور انگلیوں میں عقیق اور فیروزے کی انگوٹھیاں جگمگا رہی تھیں۔ تین چار موٹی اور بھدی جسامت اور سیاہ رنگت والے قوال سفید لباس میں ملبوس سروں پر جناح کیپ جمائے سڑک کے کنارے قوالی گانے میں مست تھے۔ کئی ملنگ اور ملنگنیاں قوالی کی آواز پر مست ہوکر جھوم رہے تھے۔

دوسری طرف زردے اور بریانی کی دیگیں سوزوکیوں سے اتاری جا رہی تھیں۔ ساتھ میں قسم قسم کی مٹھاس اور شیرمال کے تھال بھی تھے۔ مانگنے والوں کا رش بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ بھکاریوں کے ہاتھوں میں کشکول تھے۔

نظم و ضبط کا عالم یہ تھا کہ تمام فقرا اور مساکین قطار میں کھڑے لنگر کے تقسیم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ تھوڑے سے فاصلے پر پھولوں کی دکانیں تھیں جہاں تازہ پھولوں کی چادریں ہار اور گلاب کی پتیاں خریدنے والوں کا رش لگ چکا تھا۔ اگربتی اور لوبان بھی انھی دکانوں پر فروخت ہو رہا تھا۔ کئی دکانداروں نے اگربتیاں اور لوبان سلگالیا تھا۔ دھوئیں کے بادل دور دور تک پھیل گئے تھے۔

فقیروں اور قلندروں کے ہاتھوں میں تانبے، پیتل کے کٹورے تھے جن میں آگ دہک رہی تھی۔ آگ میں لوبان جل رہا تھا۔ لوبان کی خوشبو اور سرمئی و قرمزی بادلوں کے دھوئیں نے ماحول کو تقدس بخش دیا تھا۔ مزار کی سیڑھیوں کے نزدیک ایک مستانی اور مست دھمال ڈال رہے تھے۔''

سربازار رقصاں کی ہیروئن نیلم ہے جو ٹرین کے حادثے میں اپنے والدین سے بچھڑ گئی ہے۔ ناول میں نیلم کا کلیدی کردار ہے، ناصر اور اس کا باپ، سلطان شاہ انسانی اعضا کا کاروبار کرتے ہیں اور گورکن سے لاشیں خریدتے ہیں۔ اپنے اس مکروہ دھندے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ نیلم بچپن میں ہی ایک ٹرین کے حادثے میں اپنے والدین سے بچھڑ جاتی ہے۔ نسیم انجم نے اس حادثے کے ماحول کی انتہائی موثر اور دلکش انداز میں منظر کشی کی ہے۔

ملاحظہ فرمائیے ''عجیب افراتفری اور بھگدڑ کا عالم تھا، رات کا وقت اور چاروں طرف آگ ہی آگ، مسافروں کی چیخیں بلند ہو رہی تھیں۔ وہ لوگ بھی اتفاق سے اسی ڈبے میں تھے جس میں آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے اور انسانی جسم دہکتی ہوئی آگ میں جھلس رہے تھے۔ اس کا باپ اور پیارا بھائی آگ کے شعلوں میں گھر چکے تھے وہ ان کی مدد کرنے کے لیے ہی تو آگے بڑھی تھی مگر آگ تو اس سے ہی بغلگیر ہوگئی۔ وہ زخموں کی تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگئی۔''

یہی وہ رات تھی جہاں سے نیلم کی بربادی کی داستان رقم ہونا شروع ہوئی۔ ماں باپ اور بھائی کے جھلس کر مر جانے کے بعد اسے ایک ہندو جوڑا اپنانے کی کوشش کرتا رہا مگر ان کے گاؤں کے متعصب ہندو اسے پاپ اور نحوست زدہ قرار دے دیتے ہیں اور اسے جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں لہٰذا اسے ایک آشرم میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس آشرم سے ایک مسلمان اسے خرید کر اپنے گھر لے آتا ہے اور بیٹی بناکر پرورش کرکے اس کی ایک مسلم نوجوان سے شادی کردیتا ہے مگر شادی کے چند سال بعد ہی نیلم کی زندگی میں طوفان آجاتا ہے۔

وہ اپنے شوہر ناصر اور اس کے باپ سلطان شاہ کے لاشوں کے کاروبار سے بے زار ہوکر ایک مکار ڈاکٹر سہیل کے ہتھے چڑھ جاتی ہے جو اسے ایک شیخ کے ہاتھوں فروخت کردیتا ہے۔ وہاں سے نیلم کسی طرح بچ نکلتی ہے مگر پھر ایک طافو نامی بدچلن شخص کی کٹیا میں پہنچ جاتی ہے۔ طافو اسے پھر ایک مزار پر بھیک مانگنے پر مجبور کرتا ہے۔

ایک فرشتہ صفت انسان مٹھا سائیں جو اسی مزار کے قریب ایک کٹیا میں عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے ہیں نیلم کی طافو کی قید سے نکلنے میں ہر ممکن مدد کرتے ہیں اور پھر اسے گھناؤنی دلدل سے نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ وہ نیلم کو گاؤں میں اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ رکھتے ہیں اور نیلم کے شوہر ناصر کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔ تلاش بسیار کے بعد وہ ناصر کو تلاش کرلیتے ہیں۔

ناصر جو پہلے اپنے باپ کے لاشوں کے کاروبار میں اس کا شریک تھا اس دھندے سے توبہ کرچکا ہے اور خیر کا راستہ اپنا چکا ہے۔ مٹھا سائیں نیلم کو اس کے شوہر سے ملا دیتا ہے اور وہ دونوں پھر سے اپنے گھر میں ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں