سیاسی داؤ پیچ
کسی کرپٹ کو کرپشن پر سزا اب تک نہیں ملی ہے، نہ باہر سے لوٹی ہوئی اربوں کی رقم واپس آئی۔
جیسے جیسے تحریک انصاف کے لیڈر منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں، ان کے سیاسی حریف انھیں میدان سیاست میں پچھاڑنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے میں پیش پیش ہیں، ان کے اس عمل سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ انھیں اپنے وطن سے محبت کے بجائے اقتدار سے محبت ہے، انھیں ڈر ہے ان کے ہاتھ سے اقتدار نہ نکل جائے، سابق حکمرانوں کو تین تین بار اللہ نے مواقع میسر کیے کہ وہ ایسا کچھ کرجائیں جن کے ذریعے ان کا نام تاریخ میں امر ہوجائے اور عوام کی دعاؤں سے ان کی جھولی بھر جائے، لیکن نہ وہ عوام سے مخلص تھے اور نہ سرزمین پاکستان سے۔
بزرگ شہری کراچی کے ہوں یا اسلام آباد، لاہور اور پنڈی کے سب ہی کے لیے زندگی تنگ کردی گئی ہے۔ گرمیوں کے دن، روزے دار وضو کرنے اور نہانے دھونے سے قاصر، لیکن صاحب! ان کے کان پر جوں نہیں رینگی، اب اگر کوئی دوسرا شخص جس کا ماضی کرپشن اور بدعنوانی سے پاک ہے اور جو خلوص دل کے ساتھ وطن کو لٹیروں سے بچانے کے لیے کام کر رہا ہے، تو اسے کرنے دیں۔
عمران خان کی مسلسل کامیابیوں نے ان کے مخالفین کو متحرک کردیا ہے اور یہ سلسلہ کافی عرصے سے چل رہا ہے، سال چھ ماہ قبل بنی گالہ کے مکان کا کیس دائر کیا گیا، حالانکہ یہ اس وقت کی بات ہے جب تحریک انصاف باقاعدہ طور پر حکومت میں نہیں آئی تھی اور نہ ہی وہ کسی اعلیٰ منصب پر فائز تھے کہ انھوں نے عوام کے پیسے سے گھر بنا لیا ہو، لیکن ان کی سابقہ اہلیہ جمائما کے تعاون سے سچ اور جھوٹ نمایاں ہوگیا۔
پھر عائشہ گلالئی نے سر اٹھایا اور عمران خان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن ان کی بے سرو پا باتوں نے ان کی عزت کو پامال کیا جب کہ عمران خان اس معاملے میں سرخرو ہوئے، تھوڑے عرصے بعد ہی بشریٰ مانیکا سے ان کی تیسری شادی کی خبر نے تہلکہ مچا دیا، بہت سے الزامات لگائے گئے، گوکہ بشریٰ اور عمران خان کا ذاتی معاملہ تھا۔ عمران خان کے کینسر کے اسپتال کی تعمیر اور اس میں لاکھوں مریضوں کا علاج بغیر کسی روپے پیسے کے کرنا بہت بڑی بات ہے، انھوں نے اپنی والدہ کے ہی نام پر اسپتال کا نام رکھا، انھوں نے بارہا بتایا کہ ان کی والدہ بھی اسی مرض میں مبتلا تھیں، ان کے انتقال کا سبب بھی یہی بیماری تھی، ان کے فوت ہونے کے بعد عمران خان نے لاکھوں ماؤں اور ان کے بچوں کو بچانے کے لیے یہ قدم اٹھایا تھا۔
پھر نمل یونیورسٹی بھی ان کا کارنامہ ہے، اس کے علاوہ کے پی کے سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار اس قدر بڑھ گیا ہے کہ امرا و غربا سب تعلیم یکساں طور حاصل کرتے ہیں، گویا ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز۔ اب ریحام خان اپنی کتاب جوکہ انگریزی اور اردو زبان میں ہے میدان میں لے آئی ہیں۔ انھوں نے ایسا کرکے اپنی ذہنیت کی عکاسی کی ہے۔
عمران خان کی مخالفت میں ایسے ایسے نام سامنے آئے جن سے ہرگز یہ توقع نہ تھی۔ ایک نام سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا بھی ہے جنھوں نے ان کی بیٹی کا معاملہ اٹھایا ہے اور وہ اس کے ذریعے عمران خان کو نااہل کرانے کے خواہش مند ہیں۔ جسٹس صاحب جس دور میں اپنے عہدے پر فائز تھے اس دور کو کیا نام دیا جائے؟ ان کے ہی زمانے میں حج کرپشن کیس اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ہار چوری بھی منظر عام پر آتی ہے، میمو گیٹ اسکینڈل کے بھی چرچے ہوتے ہیں مگر سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد نواز شریف کی حکومت آتی ہے۔
عوام بہت مشکلات سے گزرے تھے، بدلتے حالات سے اسے بڑی امیدیں تھیں، لیکن نواز شریف نے رہی سہی کسر پوری کردی اور پی آئی اے سمیت تمام اداروں کا بیڑہ غرق کردیا، پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے اتنا دبا دیا کہ اب قرض چکانے اور پاکستان کی املاک کو گروی رکھنے کا وقت قریب ہے۔ اب کون ہے ایسا شخص جو پاکستان کو قرضے سے نجات دلائے، تمام پاکستانیوں کی نظر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار پر ہے، انھوں نے قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی ہے۔
کسی کرپٹ کو کرپشن پر سزا اب تک نہیں ملی ہے، نہ باہر سے لوٹی ہوئی اربوں کی رقم واپس آئی اور نہ ہی قومی غداروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا گیا، نہ کالا باغ ڈیم بنانے کا حکم جاری ہوسکا، نہ رمضان ٹرانسمیشن کو بند کیا گیا اور نہ ہی بینکوں سے پیسے نکلوانے کے لیے غنڈہ ٹیکس ختم ہوا اور نہ ہی الیکشن کمیشن نے اوریجنل حلف نامہ بحال کیا، یہ قوم کے وہ پیغامات ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئے ہیں۔ لوگ منتظر ہیں، بقول چیف جسٹس صاحب کے تمام کیسز ایک ماہ میں لگا دیں گے۔
پاکستانی قوم اپنے سابقہ لیڈروں کی دشمن ہرگز نہیں ہے لیکن ان کا سلوک سنگدلانہ تھا، ان مقتدر حضرات نے لوگوں کے منہ سے نوالہ چھینا ہے اور اپنی تجوریاں بھری ہیں، جس قدر ہمارے ملک میں استحصال ہوا اتنا شاید ہی کہیں ہوا ہو۔ دوسرے ملکوں میں اشیائے ضروریہ سستی ہیں اور رمضان میں مزید قیمتوں میں کمی کردی جاتی ہے تاکہ ہر شخص پیٹ بھر کے افطار و سحر کرے اور عید کی خوشیوں میں برابر کا شریک رہے۔
حکومت کی شہ پر ہمارے ملک میں میڈیا کے ذریعے فحاشی کو عام کیا گیا ہے، ٹی وی چینلز دیکھتے ہوئے اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا ہے کہ یہ ہمارے ملک کے ہیں؟ میڈیا کی بے جا آزادی نے قوم کے بچوں پر برے اثرات مرتب کیے ہیں، والدین کا احترام و عزت اور شوہر کے مرتبے کی تذلیل، اسی طرح خاوند کی اپنی فرائض سے چشم پوشی نے طلاق کی شرح میں ہوش ربا اضافہ کیا ہے۔ آج کچرا کنڈیوں سے نوزائیدہ بچوں کی بھنبھوڑی ہوئی لاشیں ہر روز پائی جاتی ہیں، ان کے والدین کو کیوں نہیں تلاش کیا جاتا ہے۔
گزشتہ حکومتوں میں جگہ جگہ شراب خانوں کا قیام وجود میں آگیا تھا، اور باقاعدہ لائسنس جاری کردیے گئے تھے۔ یہ سب کیا ہے؟ کون سے زندہ معاشرے کی تصویر ہے یہ؟ لوگوں کی بے حسی علم و شعور کی کمی اور دینی معلومات کے فقدان نے ایک ایسے معاشرے کو جنم دیا ہے، جس میں بھیڑیے رہتے ہیں، درندے کھلے گھوم رہے ہیں، کسی کی عزت و مال محفوظ نہیں، معصوم بچیاں سر راہ اغوا کرلی جاتی ہیں، ان ننھے شگفتہ پھولوں کو پیروں تلے بے دردی سے مسل دیا جاتا ہے اور حاکم وقت لاش پر تالیاں بجواتے ہیں۔
سنگدلی اور سفاکی کا جیتا جاگتا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا اس پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا، اقتدار کے بھوکے ننگوں کی اشتہا زوروں پر ہے، ناکامی کے خوف نے انھیں ہوش و ہواس سے بے گانہ کردیا ہے۔ غیر اسلامی معاشرے میں برائی خوب پنپتی ہے۔ بے راہ روی نے معاشرے کی پیشانی کو بدنامی کے کلنک سے سجا دیا ہے اور ان سب برے افعال کو ختم کرنا، حکومت کی اولین ذمے داری ہے اور تھی کہ پاکستان کو استحکام اور اسلام کا قلعہ بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے۔