رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
ہم نام نہیں لیں گے لیکن کتنے آئے اورکیا کیا نہیں بنا گئے کیوں کہ پہلے سے’’بنے ہوئے‘‘ ہوؤں کو بنانے‘‘ میں لگتا کیا ہے۔
وہ مشہور لطیفہ تو آپ نے سنا یا پڑھا ہی ہوگا کہ ہاتھی کے بچے اور چوہے کی سرراہ ملاقات ہو گئی۔ علیک سلیک کے بعد چوہے نے ہاتھی کے بچے سے اس کی عمر پوچھی تو ہاتھی کے بچے نے کہا ، چھ ماہ ۔ اور آپ کی؟ اس پر چوہا بولا ، عمر تو میری بھی چھ ماہ ہے لیکن میں ذرا بیمار شیمار زیادہ رہتا ہوں۔
اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم اس ''بیمار شیمار'' کے پردے میں اس ستر ''سالہ بچے کی بات کر رہے ہیں جس کا نام پاکستان ہے تو غلط سمجھ رہے ہیں، یہ ہم تو محض لطیفہ سنا رہے ہیں، اشارہ وشارہ کسی کی بھی طرف ہو تو وہ روسیاہ۔ در اصل ہم اپنے ایک بہت پرانے اور مرحوم دوست کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو آکسفورڈ سے انگریزی ادب میں گولڈ میڈل لے کر آئے تھے۔
اسلامیہ کالج میں پروفیسر بھی تھے، دنیا بھر کی کتابیں چاٹ رکھی تھیں لیکن روز مرہ کے معاملات میں کسی آٹھ سالہ بچے سے بھی کم تھے۔ ان کی یاد آج اس لیے آئی کہ ہم نے ایک بہت ہی خوبصورت کیکٹس کے پودے کو دیکھا کیونکہ پروفیسر صاحب کو کیکٹس سے بے پناہ عشق تھا، اس کے بنگلے میں دنیا بھر کے اور انواع و اقسام کے کیکٹس لگے ہوئے تھے اور ان ہی کیکٹسوں کو دیکھ کر غلام عباس نے ان پر ''صحبت کے اثر'' کا فقرہ چست کیا تھا کیونکہ پروفیسر کو لطافت چھو کر بھی نہیں گزری تھی، نہایت ہی خاردار قسم کے سنجیدہ مزاج تھے۔
سادگی کا اندزہ اس سے لگائیں کہ ایک دن ہم قاضی حسین احمد مرحوم کی میڈیسن کی دکان واقع سوئیکارنو سکوئر میں بیٹھے تھے جو ہمارا اڈہ تھا، قاضی صاحب ان دنوں کالے بالوں والے نوجوان آدمی تھے اور جماعت کا کوئی عہدہ نہیں رکھتے تھے۔ ہم سارے مختلف نظریات والے تھے جن میں کیمونسٹ، قوم پرست اور جماعت والے بھی تھے، قدر مشترک صرف مزاحیہ گپ شپ ہوا کرتی تھی۔ پروفیسر صاحب بھی اکثر اس ''بیٹھک'' میں بیٹھ جاتے تھے۔
ایک دن بازار میں ایک نہایت ہی ''کالا'' آدمی گزرا تو غلام عباس نے طنزیہ کہا ، کتنا گورا آدمی ہے۔ پروفیسر فوراً چونک کر اس کی طرف مڑے، غلام عباس صاحب آپ اس رنگ کو گورا کہتے ہیں۔ سارے سمجھ گئے چنانچہ متفقہ طور پر سب نے کہا کہ ہاں یہ گورا رنگ ہی ہے۔ پروفیسر صاحب حیران تھے۔ مگر میں تو اس رنگ کو کالا سمجھ رہا تھا۔ آپ غلط سمجھ رہے تھے، فضل رحمٰن نے کہا جو یونیورسٹی کے دفتر ی اسٹاف سے تعلق رکھتے، پھر ایک کاغذ اٹھا کر پروفیسر سے کہا ، دیکھو یہ کالا ہے اور اس پر جو لکھائی وہ سفید ہے۔ پرو فیسر حیران ہو رہا تھا اور پھر اسے یقین آگیا کہ وہ غلطی پر تھا کا غذ کالا ہوتا ہے اور تحریر سفید ہوتی ہے۔
ایک مرتبہ غلام عباس کے دفتر (جماعت اسلامی) میں ہم کھانا کھارہے تھے۔ انھوں نے انڈے اور ٹماٹر پکائے تھے، اتنے میں پروفیسر آگئے۔ کھانا کھاتے ہوئے بولے ، غلام عباسے (وہ میں کو باقاعدہ سیٹی بنا کر ادا کرتے تھے) یہ کیا ہے۔ عباس نے ہم سب کو آنکھ ماری مغزہے۔پروفیسر حیران ہو کر بولے، یہ تو بالکل انڈوں کی طرح لگتا ہے۔ غلام عباس نے کہا کہ ہمارا باورچی کمال کا ہے، وہ مغز کو بالکل انڈوں کی طرح بنا کر پکاتا ہے۔اس کے بعد پروفیسر اکثر اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتا تھا۔ غلام عباس کے پاس ایک باورچی ہے وہ مغز کو بالکل انڈوں کی طرح پکاتا ہے۔
سخت گرمی پڑ رہی تھی، ایئر کنڈیشنر ابھی نہیں آیا تھا، سب گرمی کا ذکر کر رہے تھے۔ فضل الرحمٰن نے کہا، میں نے گرمی کا بڑا زبردست علاج کر رکھا ہے۔
کیسے؟ پروفیسر نے پوچھا۔ فضل الرحمٰن نے کہا، صبح دفتر جاتے ہوئے میں غسل خانے کا نل کھول لیتا ہوں، غسل خانہ پانی سے بھر جاتا ہے، دفتر سے چھٹی ہونے پر پہنچتا ہوں تو غسل خانے کا دروازہ کھول پانی میں گھس جاتا ہوں۔ ہم تو سمجھ گئے لیکن پروفیسر مان گئے اور لوگوں کو بتاتے بھی رہے کہ فضل الرحمٰن نے گرمی کا یہ توڑ نکالا ہے۔ اس کے ذھن میں ایسی کوئی بات نہیں آئی کہ آخر پانی غسل خانے میں دیوار کی طرح کھڑا کیسے رہ سکتا ہے اور دروازہ کھولنے پر بھی کھڑا کیسے ہوتا ہے کہ کوئی غڑاپ سے اس میں گھس جائے لیکن پروفیسر تھے مان گئے بلکہ یوں کہئے کہ ''پاکستانی عوام'' تھے جو کچھ بھی کہئے مان لیتے ہیں کیونکہ وہ جس برتن میں سوچ وغیرہ ہوتی ہے، وہ ان کا عدم استعمال کا مارا ہوا اور زنگ آلود ہے۔ پروفیسر کا ذھن پڑھائی کا مارا ہوا تھا اور پاکستانیوں کا ذھن۔ معاف کیجیے اس والے خالی برتن کو ستر سال سے زنگ کھائے چلا جا رہا ہے۔
ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر آج نیا لیڈر یہ منصوبہ لے کر آیا کہ میں پاکستان کو یہاں سے اٹھا کر چاند میں بسا دوں گا تو یہ زندہ باد کرکے اپنے گلے سجالیں گے اوراس کے حق میں دنیا بھر کے قصیدوں کا ڈھیر لگا دیں گے۔
ہم نام نہیں لیں گے لیکن کتنے آئے اور کیا کیا نہیں بنا گئے کیوں کہ پہلے سے ''بنے ہوئے'' ہوؤں کو بنانے '' میں لگتا کیا ہے۔ ہمیں ایک بھارتی چینل کے ایک آئیورویدک ڈاکٹر کی یہ بات کبھی نہیں بھولے گی کہ میزبان خاتون نے اس سے پوچھا کہ آج کل مارکیٹ میں اور ٹی وی چینلوں پر یہ طرح طرح کے آیورویدک پراڈکٹ آرہی ہیں ،کیا یہ واقعی کام کرتی ہیں۔ تو اس ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا، میں اس سے زیادہ اورکچھ نہیں کہوں گا کہ وہ بنا رہے ہیں اور آپ بن رہے ہیں اس لیے کہ بنے ہوئے ہیں۔
اب ہم بھی اس سے زیادہ کیا کہہ سکتے ہیں کہ لوگ بنا رہے ہیں اور پروفیسر بن رہا ہے کیونکہ پہلے سے بناہوا ہے، بنے کو بنانا کچھ بھی مشکل نہیں ہوتا۔ اورکمال کی بات یہ ہے کہ باتوں کو دیکھئے تو اس ملک میں کون ہے جو سقراط بقراط افلاطون اور ارسطوں نہیں ہے ۔
ایک عام آدمی کو بھی ملیے تو پھر دیکھئے انداز گل افشانی گفتار لیکن جب بھی دیکھئے کسی نہ کسی جال میں پھنسے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ سوچے بغیر کہ یہ شکاری صاحب جو کہہ رہا ہے وہ ممکن ہے بھی یا نہیں؟ جاپان، چین، انڈونیشیا، ملائیشیا، بھارت اور اسرائیل کی عمریں بھی ''چھ چھ'' ماہ ہیں لیکن اسے کیا کیجیے کہ ہم ہمیشہ بیمار شمار رہتے ہیں کیونکہ ہمیں ''امراض'' سے عشق ہے یا پروفیسر صاحب ''کیکٹسوں'' کی صحبت میں سیکھ بھی کیا سکتا ہے۔
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی