ریورس گیئر کے کرپٹ ماہرین
بات ایکسیلریٹر اور ریورس گیئر پھر ماضی بعید اور قریب کا چکرکاٹ کر دو صدی بعد کے ترقی یافتہ انسان پر جاپہنچی۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ترقی کرنے کے لیے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانا چاہیے اور مڑ کر پیچھے ہرگز نہیں دیکھنا چاہیے۔ کچھ لوگوں کا البتہ کہنا ہے کہ کچھ منزلیں طے کرلینے کے بعد رکنا اور پیچھے ہی نہیں دائیں بائیں کا جائزہ بھی لیتے رہنے سے بھٹکنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ چلنے، مڑنے اور سفر کرنے کے لیے انسان کے بازو، اس کی ٹانگیں اور گردن و کندھے قدرت نے گویا اس کے جسمانی گیئر بنائے ہیں۔
اسی ضرورت کے پیش نظر انسان نے اپنی اڑنے چلنے اور تیرنے والی سواریوں کے ایکسیلریٹر، گیئر اور بریکیں وغیرہ بناکر پھر ریورس گیئر پر بھی اتنی ہی توجہ دی ہوگی۔ سواری کی ایجاد تو امکان ہے ہتھ ریڑھی سے ہوئی ہوگی جس کی انتہا دوسری دنیاؤں پر جا اترنے تک تو ہوچکی اور ابھی نہ معلوم کہیں رکے نہ رکے کیوں کہ ہم نے بھی تو؎
سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
ہمارے اکثر موٹر ڈرائیوروں کو ایکسیلریٹر پسند ہے اور وہ سڑکوں پر تیز رفتاری کرتے ہوئے فضا میں جانکلنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں جس کا انجام بعض اوقات دوسری دنیا کی طرف جانکنے پر منتج ہوتا ہے۔ سڑکوں پر ہونے والے زیادہ تر ٹریفک حادثات تیز رفتاری اور غلط اوورٹیکنگ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اکثر موٹر ڈرائیونگ کرنے والوں کو پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے اور اگر کوئی آلہ ہو جو بتاسکے کہ ان جلد بازوں کو کہا پہنچنا ہوتا ہے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے اکثر بے منزلے مسافر ہوتے ہیں اور پھر ہمیں بیسیوں بار دہرایا ہوا منیرؔ نیازی کا شعر یاد آجائے گا کہ
؎ منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔
پرہجوم یا ٹیڑھی میڑھی جگہ سے کار کو ریورس کرکے نکالنے والے بعض ایکسپرٹ ڈرائیوروں کو بھی مشکل پیش آجاتی ہے اور وہاں بعض اوقات انھیں بظاہر عام قسم کے نوجوان سے مدد لینی پڑجاتی ہے جو چند منٹ میں ریورس کی مہارت سے بغیر گاڑی ٹکرائے کار کو کھلی جگہ لاکھڑی کرتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کو رش والی جگہ پر گاڑیاں بلاک کرکے غائب ہوجانے کی عادت ہوتی ہے یعنی صورت حال ایسی ہوجاتی ہے کہ؎
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
ایسی ہی صورتحال سے ہمارا ایک دوست دوچار ہوا تو احتیاط کے پیش نظر اس نے اپنی بیگم کو کار سے باہر کھڑے ہوکر مدد کی ڈیوٹی پر لگایا۔ گاڑی ریورس کرواتے ہوئے وہ بولی کہ ''ٹھیک ہے آنے دو آنے دو'' گاڑی ایک کھمبے سے ٹکرائی تو وہ زور سے بولی''بس بس'' خاوند غصے سے کار میں سے نکل کر بولا ''اب تمہیں بس بس کہنے کی کیا ضرورت تھی کیا میں نے ریورس میں گاڑی کھبمے پر چڑھا دینی تھی۔'' انسان کو نت نئے تجربات کرنے کا شوق جب فلم سازی کی طرف لے جاتا ہے تو علم و آگہی کے بہت سے دریچے کھلتے ہیں۔ ریورس گیئر سے ایک فلم Time Tunnel یاد آئی جس میں فلم کا کردار ایک Tunnel میں داخل ہوکر ماضی کی کئی صدیاں پرانی جیتی جاگتی دنیا میں جاپہنچتا ہے جہاں کا رہن سہن، طور طریقہ، رکھ رکھاؤ کہانی نویس نے اپنی سوچ اور معلومات سے پکچرائز کیا ہے۔ یہ فلم نہ صرف دلچسپ تھی بلکہ سوچ اور تخیل کے ان دیکھے دریچے وا کرتی تھی۔
یہاں انسانی تاریخ کو ریورس گیئر میں لے جانے کا مقصد فلم میکر کے نزدیک انسانی تاریخ کے ماضی کے ادوار موجودہ ترقی یافتہ انسان کو دکھا کر مختلف زمانوں کا احاطہ کرتے ہوئے ماضی بعید، ماضی قریب اور زمانہ حال کو یکجا کرکے دکھانا اور آج کے انسان کو بتانا بھی مقصود تھا کہ خود پر اور موجودہ ترقی پر مت اتراؤ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ یہی انسان کبھی تیر کمان سے شکار کرکے جانور کو چقماق پتھر کی آگ سے پکاتا اور لباس کے طور پر کیلے کے پتے ستر پوشی کے لیے استعمال کرتا تھا اور عین ممکن ہے دو ہزار سال بعد آنے والا انسان اپنے کسی کیریکٹر کو Time Tunnel میں سے گزار کر ہمارا آج کا لائف اسٹائل اس وقت کے فلم بینوں کو دکھاتے ہوئے کمنٹری کررہا ہو کہ دیکھو ترقی پذیر انسان کبھی زمانۂ جاہلیت میں ایسا ہوتا تھا۔
بات ایکسیلریٹر اور ریورس گیئر پھر ماضی بعید اور قریب کا چکرکاٹ کر دو صدی بعد کے ترقی یافتہ انسان پر جاپہنچی لیکن میری نظروں کے سامنے اس وقت صرف چالیس پینتالیس سال پہلے کے شہر لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس، پنجاب یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی اور میڈیکل کالجز میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے غیر ملکیوں کی شکلیں آکر میرا اور میرے ملک کا تمسخر اڑا رہی ہیں۔ وہ بہت سے کالے پیلے گورے چہروں والے ہنستے مسکراتے بے فکری سے گھومتے طالب علم اب تعلیم حاصل کرنے ہماری درسگاہوں کا رخ نہیں کرتے بلکہ کاروبار کی غرض سے آنے والے غیر ملکی بھی ایئرپورٹ پر اور ہوٹلوں میں نظر نہیں آتے۔ کیا اسے ترقی معکوس کہتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب نہ صرف تعلیم کی غرض سے غیر ملکی پاکستان کا رخ کرتے تھے بلکہ ہماری معیشت کا ماڈل اپنانے کے لیے ساؤتھ کوریا نے دلچسپی لی اور دنیا کی طاقتور معیشت بن کر ابھرا اور ہماری یہ حالت کہ قرض اتارنے کے لیے مزید قرض کی جھولی پھیلائے پھرتے ہیں۔ نہ معلوم ہمارے قرض خوری کے ریورس گیئر کو کب اور کہاں بریک لگے۔
ہمارے تجزیہ کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں ملک کو ترقی کے رستے پر اٹھالے جانے والا زبردست Potential ہے کیونکہ وہ بیرون ملک نقل مکانی کرتے ہیں تو وہاں نام پیدا کرکے وہاں کے مقامی لوگوں سے سبقت لے جاتے ہیں۔ ممکن ہے آئندہ الیکشن کے بعد آنے والی حکومت اس اہم ایشو پر توجہ دینے کی زحمت کرے اور ریورس گیئر کے پی ایچ ڈی کرپٹ مکینکوں کے بجائے معیشت کے نیک نام ماہرین سے رجوع کرے۔