عدل کا تقاضہ
چوہدری شجاعت ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں ان کے بیان میں چھپے معنی و مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو ججز نظربندی کیس میں ضمانت منسوخ ہونے پر سب جیل قرار دیے گئے ان کے حویلی نما گھر چک شہزاد میں قید کردیا گیا ہے۔ عدالت نے ان کے خلاف دائر مذکورہ کیس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کرنے کا بھی حکم صادر فرمایا ہے۔
سابق صدر اب 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر ہیں اور سرکاری اہلکار ان سے تفتیش کر رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے پولیس کو دیے گئے ایک بیان میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ 3 نومبر 2007 کے میرے اقدامات تمام اداروں سے مشاورتی عمل کا نتیجہ تھے۔ انھوں نے اپنی 3نومبر کی شب کی گئی تقریر کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت وزیر اعظم اور کابینہ کی سربراہی میں ایک جمہوری حکومت کام کر رہی تھی اور میرے تمام اقدامات ملکی بہتری کے لیے تھے۔ بے نظیربھٹو کیس میں بھی ان کی ضمانت کی منسوخی کے بعد FIAان سے تحقیقات کر رہی ہے۔
جنرل مشرف کے بیان میں دو باتیں اہمیت کی حامل ہیں اول انھوں نے اپنے 3نومبر 2007کے اقدام کو تمام متعلقہ اداروں سے مشاورتی عمل کا نتیجہ قرار دیا ہے دوم انھوں نے واضح کیا ہے کہ اسی وقت ملک میں ایک سول حکومت وزیر اعظم کی سربراہی میں کام کر رہی تھی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف اکیلے 3 نومبر کے اقدام کے ذمے دار نہیں تھے بلکہ سول حکومت کے وزیر اعظم، کابینہ اور دیگر متعلقہ ادارے بھی ان کے اقدام کے ساتھ کھڑے تھے لہٰذا قصوروار صرف جنرل مشرف کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس حوالے سے چوہدری شجاعت حسین کا بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ تمام متعلقہ صاحبان پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے میں ایسے اقدامات سے باز رہیں جس کے نتائج پر بعد میں قابو نہ پایا جاسکے۔
انھوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بہت حساس معاملہ ہے اور جلد بازی میں کیا گیا کوئی بھی اقدام قومی مفاد اور جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ چوہدری صاحب نے خبردار کیا کہ یہ صرف پرویز مشرف کی ذات کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس سے ایک ''پنڈورا بکس'' بھی کھل سکتا ہے۔ پھر یہاں کوئی فاتح نہیں ہوگا بلکہ سب کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چوہدری شجاعت ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں ان کے بیان میں چھپے معنی و مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
زمینی حقائق کا ادراک کرنے اور گزرتے ہوئے وقت کی نزاکتوں کو سمجھنے اور آنے والے کل کے امکانی خطرات کو بھانپ لینے والے لوگ ہی درست فیصلے کرسکتے ہیں۔ طاقت کے زعم میں مبتلا لوگوں کو پرویز مشرف جیسے انجام سے گزرنا پڑتا ہے۔ راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ احمد رضا قصوری پرویز مشرف کے موقف کا دفاع کرنے کے لیے بہت سے نکتوں کو ملاکر کیس کا دائرہ وسیع کرسکتے ہیں جیساکہ انھوں نے نیشنل پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مشرف کا دفاع کریں گے۔
سابق آرمی چیف کی مزید تذلیل کی گئی تو فوجی ردعمل کا بھی خطرہ ہوگا، قصوری صاحب کے بقول اسلام آباد کلب میں انھیں متعدد ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسران نے ملاقات کرتے پرویز مشرف کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی مذمت کی ہے۔ احمد رضاقصوری کی باتوں میں چھپے اشارے بہت سے سوالوں کو جنم دے رہے ہیں جس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے اور جمہوریت بچانے کے لیے احتیاط بھی لازم ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جمہوریت پر شب خون مارنے والے کسی فوجی جنرل نے آج تک اپنے عہد حکومت کا حساب نہیں دیا اور نہ ہی کسی دور کی عدلیہ نے ایسی جرأت دکھائی جس کا نظارہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف پہلے فوجی حکمران ہیں جو ''آزاد عدلیہ'' کے شکنجے میں آگئے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہونا پڑا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کتنا ہی عقل مند، دانا اور ہوشیار کیوں نہ ہو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر غلطی کربیٹھتا ہے، دھوکا کھا جاتا ہے اور دوسروں کی باتوں پر اندھا اعتماد کرکے اپنے لیے مسائل ومشکلات کا ایسا ہمالیہ کھڑا کرلیتا ہے کہ جس کے اس پار دیکھنا پھر اس کے بس میں نہیں رہتا وہ دوسروں کا محتاج بن جاتا ہے اس کی زندگی، بقا اور سلامتی کا انحصار دوسرے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔
مثل مشہور ہے کہ ''جو بوئے گا وہی کاٹے گا'' یعنی نیکی کا صلہ نیکی اور برائی کا نتیجہ برائی کی صورت ہی میں سامنے آتا ہے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف آج کل ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں۔ محض3نومبر 2007 ہی نہیں بلکہ اکبربگٹی، بے نظیربھٹو قتل کیس اور لال مسجد سانحے جیسے سنگین الزامات کا بھی جواب دینا ہے، عدالتوں میں پیشیاں بھگتنی ہیں اور مکافات عمل سے گزرنا ہے لیکن یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ قانونی لحاظ سے جنرل پرویز مشرف کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے اور انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ کسی بھی حلقے کی جانب سے یہ تاثر نہیں پھیلنا چاہیے کہ سابق صدر کو دفاع کے حق سے محروم کیا جارہا ہے۔
جہاں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے ضمن میں 3 نومبر 2007 کے اقدام کے حوالے سے غداری کا مقدمہ چلانے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بہت ساری خبروں اور پہلوؤں کو دیکھنا ہوگا۔ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت کیس پر وفاق نے اپنے تحریری جواب میں واضح کردیا ہے کہ سابق صدر کے خلاف کارروائی ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتی، نگراں حکومت کوئی متنازعہ قدم نہیں اٹھانا چاہتی۔ یہ معاملہ آنے والی منتخب حکومت پر چھوڑ دینا ہی بہتر ہے گویا یہ بات اب طے سمجھی جانی چاہیے کہ نگرانوں کے دور میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی نہیں ہوگی۔ یہاں یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ 11 مئی کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی سول حکومت کے لیے بھی آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت جنرل پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ یہ ایک حساس اور سنجیدہ معاملہ ہے اس کے قومی و عالمی سطح پر دوررس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے 12اکتوبر 99 کے پہلے اقدام کو نظرانداز کرنا اور 3نومبر 2007 کے اقدام کو چیلنج کرنا قرین انصاف نہیں۔ اگر3 نومبر کا اقدام آئین شکنی ہے تو 12اکتوبر کا اقدام بھی آئین شکنی ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ہی تلوار سے دو افراد کے سر قلم کردے تو پہلے قتل پر اس کو معافی دے دینا اور دوسرے قتل پر اس کو گرفتار کرنا یا پہلے قتل کو ''جائز'' جب کہ دوسرے قتل کو ''ناجائز'' قرار دے کر اسے سزاوار ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے؟ جنرل پرویز مشرف کا احتساب بالکل ہونا چاہیے اور اول دن سے ہونا چاہیے تاکہ آیندہ کسی طالع آزما کو جمہوریت پر شب خون مارنے کی جرأت نہ ہوسکے لیکن پھر وہی سوال کہ کیا جنرل مشرف اکیلے قصوروار ہیں؟ کیا ان کے اقدام میں معاونت کرنے اور انھیں تحفظ فراہم کرنے والے ہر الزام سے بری الذمہ ہیں؟ کیا عدل کا یہی تقاضہ ہے ؟ بہرحال جنرل صاحب کے اندرونی و بیرونی ضامن ''متحرک'' ہوچکے ہیں۔ جنرل مشرف جلد قید تنہائی سے آزاد فضا میں سانس لے رہے ہوں گے۔