پانی پانی اور پانی یعنی زندگی
اگر ہم پا کستان میں بھوٹان کی طرح 64 فیصد جنگلات لگا دیں تو پانی کا مسئلہ ایک دم حل ہوجائے گا۔
جہاں پانی ہوگا وہیں زندگی ہوگی۔ لاکھوں سال سے انسان وہیں بستا آیا جہاں سے دریا گزرتے ہیں یا پھر ساحل سمندر ہو۔ جہاں سے دریا گزرتے ہیں وہاں کے ساحلوں پر درختوں اور پودوں کی وجہ سے سبز شادابی ہوتی ہے۔ اور پھر دریاؤں میں مچھلیاں اور جنگلات میں جانور، پرندے، سبزی اور پھل پائے جاتے ہیں۔ ان ہی کو کھا کر انسان زندہ رہتا ہے۔
دریائے ایمازون، ہوانگ ہوا، ڈینیوب، نیل، فرات، دجلہ، سندھ، گنگا، جمنا جہاں سے گزر رہے ہیں، اسی کے ساحلوں پر اربوں لوگ آباد ہیں۔ صحارا اور گوبی چونکہ ریگستان ہے، اس لیے آبادی بھی بہت کم ہے۔ ہاں کسی زما نے میں جب افریقہ میں دریا زیادہ ہوتے تھے، اس وقت افریقہ سرسبزو شاداب تھا۔ پہاڑوں کی چوٹیوں سے برف پگھل کر سطح زمین پر آگرتی ہے اور پھر سمندر میں جا ملتی ہے۔
اسے محفوظ کرنا ہمارا کام ہے، نہ کہ دریاؤں کا۔ جہاں زیادہ درخت ہوتے ہیں وہیں بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ جیسا کہ چیراپنجی، آسام میں سب سے زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے یہاں جنگلات کی بہتات ہے۔ ایک انسان کو جینے کے لیے کم از کم سات درختوں کی ضرورت پڑتی ہے، جس میں اسے بھرپور آکسیجن مل سکے۔ درختوں کی کمی ہونے کی وجہ سے اور صنعتی آلودگی کی وجہ سے فضا کاربن سے آلودہ ہوجاتی ہے۔
اس وقت دنیا میں بھوٹان واحد ملک ہے جہاں فضا میں کاربن نہیں ہے۔ وہاں 64 فیصد زمینی رقبہ پر جنگلات ہیں۔ اسی طرح شمالی اور جنوبی امریکا اور یورپ میں جنگلات اچھی تعداد میں ہیں لیکن ایشیا اور افریقہ میں کم ہیں۔
امریکا اور چین میں صنعتی آلودگی کی وجہ سے دنیا کو آلودہ کردیا ہے۔ صحارا کے بعد سب سے کم جنگلات پاکستان میں کل رقبے کا 2.5 فیصد ہے، جو انتہائی خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ اس وقت دونوں کوریاؤں میں اور جنوبی امریکا میں سب سے زیادہ جنگلات ہیں، خاص کر سورینام اور برازیل میں۔ چونکہ چین میں کوئلے سے بجلی زیادہ پیدا کی جاتی ہے اس لیے وہاں کچھ علاقوں میں تیزابی بارش بھی ہوتی ہے۔
اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کے گٹر کے 90 فیصد پانی کو پینے کے شفاف پانی میں تبدیل کیا جاتا ہے، اس سے 15 لاکھ لوگوں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ یہاں کی کل 77 لاکھ کی آبادی ہے، باقی عوام کے لیے سمندر کے نمکین پانی کو پینے کے صاف پانی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
اسرائیل میں صرف 5 فیصد پانی ضایع ہوتا ہے۔ یہ کام تب شروع کیا گیا تھا جب تل ابیب کا میئر کمیونسٹ پارٹی کا تھا اور اب اسرائیل دنیا کا نمبر ایک ملک شفاف پانی کی فراہمی کا بن چکا ہے۔ یہ کام تب شروع ہوا تھا جب اسرائیل میں پانی کی شدید قلت پیش آئی تھی، جب کہ اسرائیل کے پاس ہماری طرح اتنے وسائل ہیں اور نہ معدنیات۔ ہمارے ملک میں سونا چاندی، سلفر، کروم، تانبا، تیل، کوئلہ، گیس، قیمتی پتھر اور پھلوں سے لدی ہوئی سرزمین اور پہاڑیاں ہیں۔
اس وقت دنیا کے جن چند ملکوں میں پانی کی شدید قلت ہے ان میں پاکستان سرفہرست ہے۔ یہاں کے تالابوں، ندی، نالوں، زیر زمین پانیوں اورکنوؤں کے پانی 2 سے 3 سو فیصد آلودہ ہیں۔ کراچی جیسے دو کروڑ سے بھی بڑی آبادی والا شہر پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ خاص طور پر بلدیہ ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن، نیو کراچی، ملیر، لانڈھی، کورنگی، کیماڑی، لیاری، ماڑی پور، لیاقت آباد، ناظم آباد، گلستان جوہر اور گلشن اقبال وغیرہ۔ ہزاروں روپے میں بھی ٹینکر کا پانی دستیاب نہیں ہوپاتا، لوگ پانی کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔
ایک طرف شدید آلودہ پانی لوگ پینے پر مجبور ہیں تو دوسری جانب پانی چوری ہوتا ہے۔ جھیل سے کراچی پائپ کے ذریعے آنے والا پانی جو کہ دو لاکھ اسی ہزار گیلن ہوتا ہے، بھینس کالونی کے پاس سے اسی ہزار گیلن چوری ہوجاتا ہے۔ کراچی میں ٹینکر مافیا کا راج ہے۔
حکومتی کارندے، بلدیاتی کارندے، رینجرز اور پولیس کی سرپرستی میں ٹینکر مافیا پانی کا کاروبار کرتی ہے۔ ہم تیس تیس منزلہ عمارتیں بناتے جارہے ہیں، دو دو کروڑ کی بلٹ پروف گاڑیاں خرید رہے ہیں، اربوں روپے کی اسلحہ سازی اور عیاشیوں پر خرچ کر رہے ہیں لیکن تھرپارکر، ننگر پارکر اور چولستان کے عوام کو شفاف پانی مہیا نہیں کر پا رہے ہیں۔
13 کھرب روپے کا فوجی بجٹ پیش ہوتا ہے، اربوں روپے کی کرپشن ہورہی ہے، اربوں روپے آئی ایم ایف سے قرضے لیے جارہے ہیں، کھربوں روپے لے کر لوگ ملک سے فرار ہورہے ہیں، لیکن عوام کو صاف پانی مہیا نہیں کررہے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں پینے کے پانی میں انسانی فضلہ گھل مل جاتا ہے، جس کا لیبارٹری میں ٹیسٹ بھی ہوچکا ہے۔ 50 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور پھر ان کے علاج پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، یہ دوائیں بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہمیں فروخت کرکے لوٹتی ہیں۔
اگر ہم پا کستان میں بھوٹان کی طرح 64 فیصد جنگلات لگا دیں اور دفاعی اخراجات میں 50 فیصد کمی کردیں تو پا نی کا مسئلہ ایک دم حل ہوجائے گا۔ جب جنگلات سے ملک بھرجائے گا تو لوگوں کو آکسیجن ملے گی، پھل، مچھلیاں اور سبزیاں ملیں گی اور ان میں آلودگی بھی نہیں ہوگی۔ لیکن پانی کے مسئلے کے فوری حل کے لیے ڈیم بنایا جائے، شفاف پانی مہیا کیا جائے، نجی باغوں میں پانی کی ترسیل روک کر غریب بستیوں میں پینے کا پانی فراہم کیا جائے۔
یہ عجیب بات ہے کہ ہنزہ، گلگت بلتستان سے پائپ کے ذریعے چین اپنے ملک میں ہمارا پانی لے جاتا ہے لیکن ہمارے اپنے حکمران اپنے ملک کے عوام کو صاف پانی مہیا نہیں کرتے۔ سی پیک کے قبل سے چین ہمارے ہاں سے پانی لے جارہا ہے مگر ہماری حکومتیں یہی پانی کے پی کے، بلوچستان، سندھ اور پنجاب کو نہیں فراہم کرتیں۔ جی بی سے ہم صرف پاکستان میں بلکہ پورے برصغیر کو صاف پانی فراہم کرسکتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ طبقاتی ہے۔ ایک جانب لوگ ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں تو دوسری جانب دو دو سو روپے کا منرل واٹر استعمال ہوتا ہے۔ اب جس مزدور کی روز کی دیہاڑی دو سو روپے ہے، وہ دال، آٹا، چاول خریدے گا کہ منرل واٹر؟ اس لیے اس طبقاتی نظام کو ختم کیے بغیر مسئلے کا مکمل حل ممکن نہیں۔ ایک غیر طبقاتی کمیونسٹ سماج ہی عوام کو تمام تر خوشحالی اور ضرورتیں پوری کر سکتا ہے۔