کراچی میں متحدہ اور پی ایس پی کے درمیان سخت مقابلہ متوقع

ماضی کے سیاسی دوست اب  ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑینگے،8نومبرکو سیاسی اتحاد کا اعلان ہوا جو 24 گھنٹے میں ہی ٹوٹ گیا


عامر خان June 25, 2018
پی ایس پی کا ایم کیوایم پاکستان کے علاوہ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، اے این پی، ن لیگ، ایم ایم اے اور دیگر جماعتوں سے بھی مقابلہ ہوگا۔ فوٹو:فائل

ماضی کے سیاسی دوست(ایم کیوایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی) آج ایک دوسرے کے سیاسی مخالف بن گئے ہیں۔ کراچی کے الیکشن میں ان دونوں جماعتوں کے درمیان سخت اور دلچسپ مقابلہ متوقع ہے۔

دونوں جماعتوں میں شامل دوستوں کا سیاسی سفر 1978 سے1992 کے دوران آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) اور مہاجر قومی موومنٹ کے قیام کے دوران شروع ہوا جو1997میں متحدہ قومی موومنٹ کے بننے کے بعد بھی2013تک جاری رہا۔

اس سیاسی سفراور دوستی میں عظیم احمد طارق، ڈاکٹرعمران فاروق، امین الحق، سلیم شہزاد، ڈاکٹرفاروق ستار، ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی، انیس قائم خانی، انیس ایڈووکیٹ، مصطفی کمال، رضاہارون اور دیگر شامل رہے ہیں تاہم الیکشن2013 کے نتائج کے بعد یہ انکشاف ہواکہ کراچی میں 1988 سے 2013 کے دوران ہونے والے انتخابات میں شہر میں اکثریتی قومی اور سندھ اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے والی جماعت ایم کیوایم کے مقابلے پرتحریک انصاف سامنے آئی ہے۔ اس معاملے سمیت دیگرمسائل کے سبب ایم کیوایم میں ٹوٹ پھوٹ کا آغاز ہوگیا۔

8نومبر کوکراچی پریس کلب میں ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور پی ایس پی کے چیئرمین مصطفی کمال نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ نئے سیاسی نام اور نئے انتخابی نشان سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔یہ سیاسی ہنی مون 24 گھنٹے میں ہی ٹوٹ گیا اور دونوں جماعتوں کے راستے الگ ہوگئے۔ کراچی کے انتخابی دنگل پر سب کی نظر ہے اور ہر کوئی معلوم کرنا چاہتا ہے کہ اب کراچی میں کو ن سی جماعت اکثریتی نشستیں حاصل کرے گی؟

اس سوال کا جواب تو پولنگ کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ اس شہر قائد کا مینڈیٹ کس جماعت کے پاس جاتا ہے یا تقسیم ہوتا ہے۔ سیاسی حلقے سمجھتے ہیں کہ پی ایس پی نئی سیاسی جماعت ضرور ہے تاہم اس میں شامل رہنمااور کارکنا ن کی اکثریت متحدہ کا حصہ رہی ہے جن کوماضی کے الیکشن کی تیاریوں کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ اس لیے پی ایس پی کیلیے الیکشن لڑنا تو مشکل نہیں تاہم ووٹ کے حصول کیلیے ان کو مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا پاک سرزمین پارٹی متحدہ کی والی ماضی کی اکثریتی نشستیں کراچی سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی یا ناکام ؟۔

پی ایس پی کراچی میں اپنی انتخابی مہم کا آغاز 25 جون سے کرے گی ۔ پی ایس پی ''مہاجر کارڈ یا مہاجر صوبہ ''الیکشن میں نہیں کھیلے گی ۔اس کا انتخابی کارڈ ''پاکستانیت ''ہوگا یعنی ووٹ سب مذاہب اور قوموں کے لوگوں سے مانگے جائیں گے ۔پی ایس پی کا انتخابی سلوگن ''کراچی بنایا تھا ۔اب پاکستان بنائیں گے ''ہے۔پی ایس پی عوامی رابطہ مہم میں پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال کی بحیثیت'میئر کراچی'خدمات کاذکر بھی کرے گی۔

مصطفی کمال 2005 سے 2010 تک کراچی کے میئر رہ چکے ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق پی ایس پی کیلیے کراچی سے الیکشن جیتنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ عام انتخابات میں پی ایس پی کا مقابلہ ایم کیوایم پاکستانکے علاوہ پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی، اے این پی، ن لیگ، ایم ایم اے اور دیگر جماعتوں سے ہوگا۔

پی ایس پی اپنی سیاسی وانتخابی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لحاظ سے ضلع غربی میں این اے251،252،ضلع ملیر کی این اے 238،ضلع جنوبی کی این اے247۔ضلع وسطی کی قومی اسمبلی کی چاروں نشستوں این اے 253سے این اے 256تک ،ضلع کورنگی ،ضلع شرقی تمام قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے حصول کیلیے محنت کررہی ہے۔ پی ایس پی نے ایم کیوایم سے پارٹی شامل ہونے والے کئی رہنماؤں اور کارکنان کے علاوہ نئے چہروں کو بھی ٹکٹ دیے ہیں۔

پی ایس پی کے صدر انیس قائم خانی نے ایکسپریس کو بتایاکہ ہم نے الیکشن کی تیاری مکمل کرلی ہے اور اب عوامی رابطہ مہم کا آغاز پیر سے کریںگے۔ ہمیں یقین ہے کہ کراچی والے25 جولائی کو پی ایس پی کو ہی کامیاب کرائیں گے ۔ الیکشن میں ہمیں کسی حلقے یا قوت کی تائید حاصل نہیں ہے یہ ہمارے مخالفین کا پروپیگنڈا ہے ۔انھوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرانے کیلیے ہم نے قانون کے مطابق کوشش کی ہیں جو آئندہ بھی کریںگے۔ انھوں نے کہا کہ ہم الیکشن میں مہاجر کارڈ نہیں کھیلیں گے۔

پی ایس پی کے رہنما وسیم آفتاب نے دعویٰ کیاہے کہ پی ایس پی کراچی سے 19یا اس سے زائد قومی اور 40 سے سندھ اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ پی ایس پی کاہدف قومی اسمبلی کی 10 سے زائد اور سندھ اسمبلی کی20سے زائد نشستیں ہوسکتا ہے ۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں