جدید اسلحہ کیس بااثر ملزمان نے تفتیش منتقل اور ضمانت کرالی

ملزمان برآمد اسلحے میں13ہتھیاروں کے لائسنس ظاہر کر سکے جبکہ 16 جدید ہتھیاروں کاکوئی ریکارڈ تاحال پیش نہیں کیا جا سکا


کاشف ہاشمی June 25, 2018
تفتیشی افسرملزمان کی ضمانت کے بعدہاتھ پرہاتھ رکھ کربیٹھ گئے،8مئی کوکلفٹن پولیس نے اسلحہ برآمد، 2 ملزم گرفتارکیے تھے۔ فوٹو: فائل

کلفٹن میں بڑے پیمانے پراسلحے کی کھیپ ملازموں کے ہاتھوں منتقل کروانے میں ملوث بااثر ملزمان نے اپنے خلاف مقدمے کی تفتیش منتقل کراتے ہوئے ضمانت کرالی جبکہ ملازمین کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔

8مئی کو کلفٹن پولیس نے خیابان تنظیم میں اسنیپ چیکنگ کے دوران کار نمبر جی ڈبلیو 552 کی تلاشی کے دوران بھاری جدید اسلحہ برآمد کرکے ایک ملزم جاوید اشرف کوگرفتار کیا تھا۔ اس کی نشاندہی پر درخشاں کے ایک گھر میں چھاپہ مارکر مزید بھاری ہتھیار برآمد کر کے بنگلے کے ملازم چنسیر پنہور کو گرفتار کیا گیا۔

اس حوالے سے ایس پی کلفٹن توقیر نعیم اور ایس ایچ او کلفٹن چوہدری شاہد کا کہنا تھا کہ کار اور بنگلے سے ملنے والے جدید اسلحے میں11 کلاشنکوفیں ،14 مختلف بور کی پستول ،7مختلف قسم کی رائفل، 25 مختلف قسم کے میگزین اور 302 مختلف بور کی گولیاں برآمد کی گئی تھیں۔

کلفٹن پولیس اور درخشاں پولیس نے سندھ آرمز ایکٹ کے تحت 2 ایف آئی آر درج کی تھیں ۔اس حوالے سے پولیس نے بتایاتھا کہ گرفتار ملزمان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مالک وقاص اور عامر عاشق کے حکم پرگھر سے اسلحہ دوسرے مقام پر منتقل کررہے تھے۔ پولیس نے پریس بریفنگ میں بتایا تھا کہ گرفتار ملزمان کے مالکان کی حب میں آدم اسٹیل مل ہے اور وہ شپ بریکنگ کا بھی کاروبار کرتے ہیں اور ابھی وہ ملک سے باہرہیں۔

انویسٹی گیشن پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایاکہ فرار ملزمان بااثر ہیں، انھوں نے پولیس کے اعلیٰ افسران پر دباؤ ڈالواکر دونوں مقدمات کی تفتیش فریئر تھانے منتقل کروا کر اسلام آباد کی اعلیٰ عدلیہ سے حفاظتی ضمانت کرالی ہے جس کی وجہ سے پولیس وقاص اور عامر سے اپنے پیشہ ورانہ طریقہ کار سے تفتیش کرنے سے قاصر رہی۔

اس حوالے سے فریئر تھانے کے ایس ایچ او اور مذکورہ کیس کے تفتیشی افسر رانا لطیف نے ایکسپریس کوبتایاکہ موقع سے گرفتار ہونے والے ملزمان جیل جاچکے ہیں اور انکے مالکان نے اسلام آباد سے حفاظتی ضمانت کرالی ہے جس کی وجہ سے پولیس انھیں گرفتار نہیں کرسکی۔

پولیس کی جانب سے جب ضمانت کرانے والے دونوں بھائیوں عاشق اور عامر سے معلوم کیا کہ انھوں نے اپنے ملازم کو سرکاری نمبر پلیٹ والی مشابہ گاڑی میں جدید اسلحہ منتقل کرنے کا حکم کیوں دیا ؟اور ایسی کیا فوری ضروت پڑی تھی کہ جدید اسلحہ ایک مقام سے دوسرے مقام منتقل کرنا پڑرہا تھا؟ تو اس حوالے سے دونوںبھائی پولیس کو مطمئن نہیں کرسکے بلکہ متضاد بیانات دیتے رہے۔

تفتیشی آفسیر رانا لطیف نے بتایا کہ موقع سے 32ہتھیار برآمد ہوئے تھے جس میں 3 ایئر گن تھیں جن کا لائسنس نہیںہوتا، اس طرح برآمد کیے جانے والے ہتھیار کی تعداد 29ہے۔ ان ہتھیاروں میں سے ملزمان عامر اور وقاص نے صرف 13اسلحہ لائسنس ہی پولیس کو پیش کیے جبکہ 16ہتھیاروں کے لائسنس تاحال پیش نہیں کیے۔ اس حوالے سے ملزمان کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی مزید اسلحہ لائسنس پیش کرینگے۔

پولیس نے پیش کیے جانے والے اسلحہ لائسنس کی انکوائری متعلقہ اداروں سے طلب کرلی ہے بلکہ ہتھیاروں کا ایف ایس ایل بھی کروایا گیا ہے جس کی رپورٹ متعلقہ اداروں نے ابھی تک پولیس کو پیش نہیں کی۔ تفتیشی افسر کے مطابق پولیس کومزید اسلحہ لائسنس اورمتعلقہ اداروں کی رپورٹ کا انتظار ہے۔

تفتیشی افسررانا لطیف نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ملزمان دونوں بھائیوں نے پولیس کو بھاری تعداد میں جدید اسلحہ رکھنے کا جوجوازبتایا ہے وہ یہ ہے کہ انکا شپ بریکنگ کاکاروبار ہے، انکے بڑے بھائی شپ بریکنگ کے کاروبارکے حوالے سے چیئرمین پاکستان تھے جنھیں قتل کردیا گیا تھا اوراس واقعے میں ضمانت کرانے والاعامر بھی شدید زخمی ہوا تھا۔

نمائندہ ایکسپریس نے سندھ پولیس کے 2 اے آئی جی لیگل سے رابطہ کیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ قانون کے مطابق ہتھیار ساتھ لیکر چلنے کی اجازت صرف اسلحہ لائسنس ہولڈرکو ہی ہوتی ہے۔ اس میں بھی 2سے3 قسم کی قانونی شرائط لاگو ہیں۔ اگر شہر میں دفعہ 144نافذ ہے تو اس صورت میں اسلحہ لائسنس والے شہری کو وزارات داخلہ سے این او سی حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے۔

دوسری جانب اسلحہ لائسنس رکھنے والا شہری اگر اپنے بھائی یا کسی اور کو اپنا اسلحہ رکھنے کی اجازت دیتا ہے اس صورت میں بھی اسلحہ لائسنس والے شہری کو اس کا نام لائسنس میں ڈالوانا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت اس شخص کو (ریٹینر ) بناکر دیتی ہے تو وہ لیگل طور کسی کا اسلحہ رکھنے کا مجاز ہوتا ہے۔

اے آئی جی لیگل کے مطابق مذکورہ کیس میں ضمانت کرانے والے بھائیوں نے غیر قانونی کام کیا ہے انھیں اور گرفتار ہونے والے ان کے ملازموں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل لانی چاہیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔