میل کو میل سے دھونا
اگر مائل بہ ہندی لفظ ’’ منی لانڈرنگ ‘‘ کا رکھا جائے گا تو وہ صرف ’’ پوترتا ‘‘ ہی ہو سکتا ہے
کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جنھیں سن کر کانوں میں '' رس ''اور بول کر منہ میں گھی شکر کا ذائقہ محسوس ہونے لگتا ہے، ان میں اکثر تو ایسے الفاظ ہوتے ہیں جن کا مطلب بھی معلوم نہیں ہوتا لیکن پھر بھی کانوں کو بھلے اور ہونٹوں کو تلے لگتے ہیں۔ ایسا ہی ایک لفظ پرانے زمانے میں اخبارات والے استعمال کرتے تھے '' رنگ رلیاں ''۔ رنگ رلیاں پر تو اب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بچہ بچہ بھی اس کا مطلب جانتا ہے لیکن آج کل کا بیسٹ سیلر لفظ '' منی لانڈرنگ '' ہمیں بے پناہ متاثر کیے ہوئے ہے۔
ابھی تک تو کالموں اورچینلوں کے دانا دانشوروں نے اس کا اردو متبادل ایجاد نہیں کیا ہے جس نیریٹوکو '' بیانیہ '' کا خوبصورت جامہ پہنایا گیا ہے ۔ اور ہمارے خیال میں کچھ نام آتے تو ہیں لیکن ہم کہاں کے دانا یا کس ہنر میں ''یکتا '' ہیں، اس لیے ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے، ویسے تو اصولی طور پر اگر مفرس یعنی فارسی کا لفظ ہو تو وہ '' زر شوئی '' ہو سکتا ہے یا ضدی فارسی مرکب بنانا ہو تو پیسہ شوئی بھی برا نہیں۔ '' شوئی '' کا مطلب دھونا ہوتا ہے جیسے ایران اور افغانستان میں ڈرائی کلینک کو '' خشکہ شوئی '' کہا جاتا ہے اور شیمپو کو '' مو شوئی '' مزید ادبی بنانے کے لیے '' شست و شوئی '' بھی ہے جیسے حافظ نے کہا ہے کہ
زقسمت ازلی چہرۂ سیاہ بختان
بہ شست و شوئی نہ گردد سفیدایں مثل است
یعنی جو پیدائشی کالے ہوتے ہیں، وہ چہرے دھونے دھلانے سے بالکل سفید نہیں ہوتے
اگر مائل بہ ہندی لفظ '' منی لانڈرنگ '' کا رکھا جائے گا تو وہ صرف '' پوترتا '' ہی ہو سکتا ہے ۔خیر ویسے بھی نام میں کچھ رکھا نہیں ہوتا اورنام کرن '' والے دانا و دانشور بھی ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں اس لیے اس بحث کو یہیں پر ''شست و شو '' کرکے آگے بڑھتے ہیں بلکہ اپنا رونا روتے ہیں جو اس لفظ منی لاڈنڈرنگ کی ضرورت کیوں لاحق ہو جاتی ہے ۔ اگر کسی کو کالا یا میلا دھن پسند نہیں تو ہمیں دے دیا کرے۔ ہم دل و جان سے قبول کریں گے ۔ وہ ایک محروم النسواں اور شادی کے تمنائی کا قصہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ کسی جگہ ایک عورت کی لاش پڑی تھی جسے کسی نے قتل کیا تھا۔ اس بچارے درد کے مارے نے دیکھا تو بڑبڑا یا، ظالموں پسند نہیں تھی تو مجھے دے دیتے مارا کیوں ؟
اس ظلم اور زیادتی کا احساس ہمیں اس وقت سے ہونے لگا ہے جب اگر آپ کو یاد ہو ایک عفیفہ کو مشہور کرنے کے لیے منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ اس وقت اس ڈبل '' اتیا چار '' پر ہمیں اپنی محرومی کا احساس ہوا، ایک اتنی خوشنما اور قابل دید عفیفہ کو کال کوٹھٹری یا کالی سلاخوں میں ڈالنے کے بجائے، کسی بنگلے میں منتقل کر دیتے، توکیا برا تھا ۔ ادھر ہم بھی تو پڑے تھے راہوں میں ۔
غیروں کو'' دیا '' تم نے ، غیروں سے '' لیا '' تم نے
کچھ ہم کو '' دیا'' ہوتا کچھ ہم نے '' لیا '' ہوتا
کم از کم دعائیں تو ہم دے ہی سکتے تھے
خیر چھوڑئیے، وہ دونوں یعنی ملزمہ اور مال مقدمہ اب نہ جانے کہاں ہوں گے لیکن ہم تو یہیں پر اس منی لانڈرنگ کی پرکشش خبریں سننے پر مجبور ہیں ۔ جو صرف جی کازیاں ہیں اور کچھ نہیں ہیں۔ بھلا سوچئے سب خبریں کروڑوں اربوں روپے کی ''شست شوئی '' یعنی منی لانڈرنگ کی آتی ہم جیسے لوگ سنتے ہیں جن کے ساتھ قائد اعظم کی پکی پکی کٹی ہے تو مت پوچھ کہ دل پر کیاگزرتی ہے ۔
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یقین کیجیے جن دنوں و ہ محترمہ ۔ کیا نام تھا، ہاں کچھ بیان یا بیانیہ جیسا نام تھا ۔ اس کی خبر بالتصویر اخباروں میں آتی تھی اور بدقسمتی سے ہر روز آتی تھی تو ہم ہر روز دھڑکتے دل کے ساتھ اخبار اٹھاتے اور ڈوبتے دل کے ساتھ رکھتے۔ کچھ ایسا ویسا مت سمجھئے گا ۔ ہم کوئی عیاش بدمعاش نہیں ہیں، اچھے خاصے شریف (مجبوری سے سہی ) ہیں ۔ ہماری ساری پریشانی کا محور وہ بے حساب و کتاب کرنسی کے اعداد و شمار ہوتے تھے ۔ ہم اکثر سوچتے کاش ہمارے کہنے بھی اتنی کرنسی ہوتی، بھلے ہی ہم اس کے ساتھ رسوا ہوتے ،گرفتار ہوتے ۔ کیونکہ بعض جرائم اور گناہ ثواب سے بھی زیادہ پر کشش ہوتے ہیں۔معلوم نہیں ان لوگوں کو کیا ہوا ہے یا تو ہماری کھوپڑی الٹی ہے اور یا یہ لوگ بالکل الٹے جارہے ہیں کہ منی لانڈرنگ کا لفظ جوڑتے ہیں حالانکہ کالا دھن تو بجائے خود میل ہوتی ہے، اگر میل سے میل کو الگ کیا جائے گا تو باقی کیا بچے گا؟
یہ تو تقریباً ہر کسی کو معلوم ہے کہ روپے کو ہاتھ کا میل کہتے ہیں۔ بلیک میل کا لفظ بھی '' سکوں '' کی سیاہی سے نکلا ہے، اب یاد نہیں کہ کونسا ملک تھا جہاں سکے ہاتھوں کو میلا کرتے تھے جس کی وجہ سے کسی خاص جرم کو بلیک میل کہا جانے لگا ۔ اب آپ ہی بتائیے کہ '' بلیک میل '' یعنی ''میل '' اور وہ بھی بلیک اسے کونسی لانڈری میں سفید کیا جا سکتا ہے۔ بھلا کوئی کوّے کو دھو دھو کر بگلابنا سکتا ہے ؟ یہ شست شوئی نہ گردد
اور پاکستان میں کالے دھن کو سفید کرنے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ ساری کرنسی کو دریا برد کردیا جائے کہ ۔ ایں خانہ ہمہ آفتاب است ، یہ الگ بات ہے کہ پکڑا ۔ صرف کوئی کوئی جاتا ہے یا سارے کرنسی والے کچھ عرصے بعد کسی ایک کی قربانی دے کر محفوظ ہو جاتے ہیں ۔
منشیات کی اسمگلنگ میں یہ طریقہ رائج ہے کہ کچھ عرصے بعد ایک دو چھوٹے چھوٹے اسمگلروں کو '' اداروں '' کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ '' مجرم '' بھی پکڑے جاتے ہیں۔ '' اداروں '' کی کارکردگی بھی ہو جاتی ہے، منوں کے حساب سے منشیات بھی پکڑی جاتی ہیں جس کا مقصد صرف بڑے اسمگلروں کو تحفظ دینا ہوتا ہے اور یوں گلشن کا کاروبار چلتا رہتا ہے ۔
ویسے ہمارے ذھن میں ایک تجویز ہے کہ یہ لوگ جو خوامخواہ میل کو دھونے کی اداکاری کررہے ہیں، ان سرکاری لانڈریوں کی خدمات کیوں نہیں حاصل کرتے، جن کی واشنگ مشینوں میں پورے پورے کالے دھن کو شست و شو کرکے دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔ بھئی داغ تو داغ ہوتے ہیں جہاں داغ نہ ہوں وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا ۔
تری محفل میں سبھی کچھ ہے مگر داغ نہیں
مجھ کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا