ڈاکٹر عافیہ تو زندہ ہے انصاف کب زندہ ہوگا

چیف جسٹس صاحب! آپ کو لاپتا افراد پر رونا آتا ہے، ان آنسوؤں میں کچھ حصہ ڈاکٹر عافیہ کا بھی رکھ لیجیے


رضوانہ قائد June 26, 2018
مظلوم کی داد رسی کا فرض اپنے اپنے دائروں میں کب ادا ہوگا؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

امریکی قید میں پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' سے منسلک کرداروں میں سب سے زیادہ مظلوم اور اہم ترین کردار ہے۔ اس کی کہانی کا آغاز مارچ 2003 سے ہوتا ہے جب اسے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ کراچی سے اغوا کرکے لاپتا کیا گیا۔ پانچ سال بعد 2008 میں افغان قید سے رہائی پانے والی صحافی یون رڈلے کے ذریعے بگرام جیل افغانستان میں امریکی قیدی کی حیثیت سے عافیہ کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ یہاں ان پر امریکی قیدیوں پر حملہ اور مارنے کی کوشش کا الزام لگا کر سازشی مقدمہ تیار کیا گیا۔ 2009 میں انہیں امریکا منتقل کر دیا گیا جہاں اسی الزام کے تحت مقدمہ چلا کر جرم ثابت کیے بغیر 86 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

قید کی سزا میں یہ بےگناہ عورت پندرہ سال سے 6 فٹ لمبے اور 6 فٹ چوڑے، کال کوٹھڑی نما کمرے میں شرم ناک امریکی مظالم کے ساتھ زندہ ہے۔

دوسری جانب ان کے اہلِ خانہ ان کی باعزت رہائی کےلیے عوامی حمایت کے ساتھ مسلسل کوشاں ہیں۔

ڈاکٹر عافیہ کی کرب ناک کہانی میں اہم موڑ ان کی موت کی افواہ سے آیا۔ اس افواہ کی تحقیق کی غرض سے امریکا میں پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے ان سے ملاقات کی۔ 23 مئی کو کرزویل جیل میں ڈاکٹر عافیہ سے کی گئی دو گھنٹوں کی اس گفتگو کو عائشہ فاروقی نے خفیہ رپورٹ کے طور پر مرتب کیا۔

یہ رپورٹ میڈیا کے ذریعے اب منظرِعام پر ہے۔ اس میں عافیہ پر امریکی مظالم ایک بار پھر بےنقاب کیے گئے ہیں۔ ان مظالم کی کچھ جھلکیاں یہ ہیں کہ جیل حکام کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر کئی بار جنسی و جسمانی حملے کیے گئے۔ ان کا اسکارف نوچا جاتا ہے۔ مرد اہلکار ان کے کپڑوں پر پیشاب کردیتے ہیں، انہیں اکثر غنودگی کی ادویہ دی جاتی ہیں۔ ان کی پرائیویسی کے برخلاف جیل کے حکام بلا اجازت کمرے میں گھس آتے ہیں۔ وہ مسلسل خوف اور عدم اعتماد کی کیفیت میں ہیں۔ اس سب کے باوجود وہ اپنے رب کے بھروسے پر ہوش و حواس کے ساتھ زندہ ہیں اور حتی المقدور عبادتوں پر بھی عامل ہیں۔

انہوں نے سابق سفیر حسین حقانی کے بدعنوان کردار کو بھی واضح کیا۔ ان کے مطابق حسین حقانی نہ صرف ان کی رہائی کو روکتے رہے بلکہ مقدمے کےلیے ملنے والے بیس لاکھ ڈالر بھی ہضم کرگئے۔

انہوں اپنے وکلاء کی نااہلی کے باعث ان کے ذریعے مقدمے کو دھوکا قرار دیا۔ وہ اپنے اہلِ خانہ کی مدد سے اپنی قانونی ٹیم کی تبدیلی کی خواہاں ہیں۔

قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے اس رپورٹ کے ساتھ سفارشات بھی بھیجی ہیں۔ ان کے مطابق اس اذیت ناک جنسی و جسمانی تشدد کے حراستی ماحول میں عافیہ جیسی باعمل مسلمان خاتون کو رکھنا ناقابلِ قبول ہے۔ اب اس سلسلے کو بند ہوجانا چاہیے۔

ان تمام اندوہناک انکشافات کے باوجود ڈاکٹر عافیہ پُرعزم اور پرامید ہیں۔ اپنے رب اور پاکستانی قوم پر اُن کا ایمان مضبوط ہے کہ وہ ان ہی کی مدد سے ایک نہ ایک دن ضرور رہائی پا لیں گی۔

دیکھا جائے تو اس خفیہ رپورٹ کے سارے ہی پہلو امریکا کے ''شایانِ شان'' اور عین متوقع بھی تھے؛ اور اس سے قبل بھی میڈیائی افق پر ظاہر ہوتے رہے۔ آخر اس میڈیا گردی میں ایک عورت کی بار بار تذلیل کے سوا بھی کوئی حاصل ہے؟ امریکی اس مظلوم کی جتنی آبروریزی کرتے ہیں، ہمارے میڈیا اس کو بریکنگ نیوز بنا کر کئی گنا زیادہ عصمت دری کر جاتے ہیں۔

ڈاکٹر عافیہ عالمِ اسلام کی نمائندہ مسلمان عورت ہے۔ خدارا تحقیق اور وضاحت طلبی کے نام پر اس کی میڈیائی تذلیل کو روکا جائے۔ حسین حقانی اور دیگر معاملات میں حکومت جو چاہے کرے مگر عافیہ کےلیے صرف ایک ہی کام کرے: اس کی باعزت وطن واپسی۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی پندرہ سالہ قید پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی بزدلی کا عرصہ بھی ہے۔ یہ کیسی انسانی ہمدردی ہے کہ خود کو عافیہ کے فرض کا مقروض تو سمجھا جا رہا ہے لیکن منشور میں اس کی کوئی جگہ نہیں! شاید انتخابات اور جیت کا تقاضا بھی یہی ہے!

عافیہ کے اہلِ خانہ، بے شمار ہمدرد اور بہن ڈاکٹر فوزیہ کسی بڑی سیاسی جماعت کی سرپرستی کے بغیر ہر ممکن ذریعے سے ان کی رہائی کےلیے مسلسل کوشاں ہیں۔ ان ہی کوششوں کی برکت سے عافیہ کا عزم بھی مستحکم ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ کی جانب سے عافیہ کے تحفظ اور باعزت وطن واپسی کےلیے سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن کی سماعت کل (25 جون 2018 کے روز) ہوئی۔

یہ خبر بھی پڑھیے: سپریم کورٹ نے عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کی درخواست خارج کردی

چیف جسٹس کے مطابق عدالتیں امریکا میں عافیہ صدیقی کے معاملے پر کردار ادا نہیں کرسکتیں، ہمیں وہ کام کروانے ہیں جو ہم کرسکتے ہیں، ہمارا حکم امریکی عدالت اٹھا کر پھینک دے تو ہماری عدلیہ کی کیا عزت ہوگی؟ عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد عافیہ صدیقی کی واپسی سے متعلق ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی درخواست خارج کردی۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: کیا ڈاکٹر عافیہ زندہ ہیں؟

چیف جسٹس صاحب! پاکستانی شہری کےحقوق کا تحفظ اگر پاکستان کی عدلیہ ہمارا دستور ہمارا آئین اور ہمارے ادارے نہیں کر سکتے تو پھر عام شہری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اس ملک کو غلامی سے آزادی دلانے کی قربانیاں رائیگاں گئیں؟

یہ کیسا انصاف ہے؟

ایک پاک دامن مسلم خاتون کہ جسے ہر وزیراعظم نے قوم کی بیٹی کہا، آج وہ اپنے ہی ملک میں انصاف سے محروم ہے۔ ان کے خاندان نے ہر دروازے پر دستک دی لیکن کہیں بھی شنوائی نہیں ہوئی۔

یہ کالم بھی پڑھیے: ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور نواز شریف کے وعدے

ڈاکٹر عافیہ کو واپس لانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

کیا ہے کوئی پوچھنے والا کہ جس جنرل نے ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کیا، اس نے کتنے ڈالر وصول کیے؟

کیا ہے کوئی پوچھنے والا کہ ریمنڈ ڈیوس کو کس قانون کے تحت امریکا کے حوالے کیا؟

کیا ہے کوئی پوچھنے والا کہ کرنل جوزف کو کیوں ملک سے فرار ہونے دیا گیا؟

کیا ہے کوئی پوچھنے والا کہ کب تک ملک میں انصاف بکتا رہے گا؟

یہ مظلوم عافیہ اور عوام کے لیے ایک اور صبرآزما امتحان ہے۔ ماضی میں عوام کی تحریکی جدوجہد سے ملک آزاد ہوا، عدلیہ کو آزادی ملی۔ مگر اسی عدلیہ سے انصاف کے راستے بند ہو رہے ہیں۔ عافیہ اپنے تحفظ اور رہائی کے لیے اپنے ملک اور اپنی عوام کی جانب سے پُرعزم ہے۔ اس کی عوام اس کی امیدوں کو روشن رکھنے، اس کی رہائی کےلیے تحریکی جدوجہد پر کمربستہ ہیں۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: حکومت ڈاکٹر عافیہ کیلئے ایک خط بھی نہ لکھ سکی

سیاست دان بھی الیکشن کے مفادات سے کچھ وقت اس جانب بھی نکال لیں۔ اسمبلیاں تحلیل ہیں مگر سینیٹ تو موجود ہے۔ مظلوم کی داد رسی کا فرض اپنے اپنے دائروں میں کب ادا ہوگا؟

چیف جسٹس صاحب! آپ کو لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کی حالتِ زار پر رونا آتا ہے۔ ان آنسوؤں میں کچھ حصہ ڈاکٹر عافیہ اور اس کے اہلِ خانہ کا بھی رکھ لیجیے... خدارا!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں