بھونکنے کا شافی علاج
ہم نے جب اپنی پہلی کتاب لکھی تو ان ہی معلم صاحب کے نام معنون کی تھی۔
ہمارے پرائمری کے ایک استاد تھے جسے گاؤں اولے ''معلم'' صیب کہتے تھے اور وہ تھے بھی معلم کیوں کہ انھوں نے ہمیں اسکول کے نصاب کے علاوہ جو اپنا وضع کردہ نصاب پڑھایا ہے وہ ہم کبھی نہیں بھول سکتے اور بھول بھی کیسے سکتے ہیں کہ وہی نصاب ہی تو ہمارا مشعل راہ ہے۔
رہنے والے پنجاب ضلع جہلم کے تھے لیکن نہ جانے کیسے ہمارے علاقے میں استاد بن کر آئے تھے اور یہاں نہ صرف پشتو بولتے تھے بلکہ ''پشتو'' کرتے بھی تھے۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگی کہ ''پشتو'' دو ہیں ایک زبان ہے جو بولی جاتی ہے اور ایک قانون یا اخلاقیات یا دستور ہے جو کیا جاتا ہے۔ ہم نے جب اپنی پہلی کتاب لکھی تو ان ہی معلم صاحب کے نام معنون کی تھی۔ وہ اکثر نصابی کتابیں پڑھانے کے بعد کوئی بات لے کر حکایات تمثیلات اور اشعار کے ذریعے ہمیں زندگی کا سبق پڑھایا کرتے تھے۔
باتیں تو بہت ہیں لیکن آج ہم ان کی بتائی ہوئی بلکہ سکھائی ہوئی ایک بات کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو ان جانوروں سے متعلق ہے جن کی ''وفاداری'' ضرب المثل ہے حالانکہ وہ کسی کا وفادار نہیں ہوتا صرف ''نوالے'' کا وفادار ہوتا ہے اور اس ہاتھ کا بھی جو اسے نوالہ دیتا ہے اور اس شخص کا بھی جس کا وہ ہاتھ ہوتا ہے اور اس گھر کا بھی جہاں اسے نوالہ ملتا ہے اور اس کے لیے پھر وہ اپنے بھائی بندوں ہم نسلوں بلکہ عزیزوں سے بھی لڑتا ہے۔ اب یہ بتانا مشکل کہ نوالے کی یہ ''وفاداری'' اسے انسانی صحبت سے ملی ہے یا اس کی اپنی ہے اور انسان نے اس سے سیکھی ہے۔ نوالے کے لیے اپنے بھائی تک کا گلہ کاٹنا۔
پانی سے ''سگ گزیدہ'' ڈرے جس طرح اسدؔ
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ آدم گزیدہ ہوں
استاد نے پہلے یہ سوال ہمارے سامنے رکھا کہ راہ چلتے اگر یہ ''جانور'' تم پر بھونکے تو تم کیا کرو گے۔ کیا کرنا چاہیے۔ لڑکوں نے طرح طرح کے جواب دیے کسی نے کہا ہم اسے پتھر مار دیں گے، کسی نے کہا ہم بھاگ اٹھیں گے کسی نے کہا ہم اسے ہش ہش کر کے بھگا دیں کسی نے کہا ہم زمین پر بیٹھ جائیں۔ ایک نے تو سیدھا سیدھا کہا کہ میں آکر گھر سے دو نالی بندوق لے جاؤں گا اور اسے ٹھنڈا کر دوں گا۔ در اصل یہ جواب ہمارا تھا۔
استاد نے کہا کہ سب کا جواب غلط ہے۔ اور پھر ہر جواب کا تجزیہ کرنا شروع کر دیا سب سے پہلے ہنس کر ہمارے جواب پر تبصرہ کیا تو تم اسے گولی مار دو گے اور یوں کتے کے مالک کی دشمنی مول لو گے بلکہ عین ممکن ہے کہ کتے کے بعد انسانوں کی باری آئے بلکہ کچھ ایسے واقعات کی نشاندہی بھی کی جن میں کتے کے قتل کا معاملہ انسانی قتل و قتال تک پہنچا تھا۔ پھر بھاگنے والے جواب کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ بھاگنے پر تو کتا بھی شیر ہو کر تمہارے پیچھے دوڑے گا اور کتا بہرحال انسان سے تیز دوڑتا ہے۔
اس لیے ممکن ہے کہ بات بھوکنے سے کاٹنے تک پہنچ جائے۔پتھر مارنے والے لڑکے سے کہا کیا ضروری ہے کہ وہاں کوئی پتھر موجود ہو اور تمہارے ہاتھ لگ جائے کہ پھر پتھر ہر جگہ تو نہیں ہوتے۔ ایک نے کہا تھا کہ میں اپنا بستہ یا جوتا یا کوئی چیز مار دوں گا۔ استاد نے کہا پھر وہ ''اپنی'' چیز وہیں چھو ڑ جاؤ گے کیا؟ یہ تو سراسر نقصان ہوا اور اگر اسے لینے جاؤ گے تو وہ کاٹ کھائے گا۔ جس نے ہش ہش کر کے بھگانے کی بات کی تھی اسے کہا کہ کب تک وہیں کھڑے ہو کر ہش ہش کرو گے یوں تو تیرا بہت سارا وقت برباد ہو جائے گا تم ہش ہش کر کے اسے روکو گے لیکن جب بھی قدم بڑھاؤ گے وہ پھر پیچھے پڑ جائے گا پھر بھگاؤ گے پھر وہ پیچھے پڑے گا سارا دن یہی کرتے رہو گے کیا؟
پھر بولے سب سے پہلے تمہیں اس کی خصلت کو جاننا ہو گا اور معلوم ہونا ہو گا کہ جو بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں لیکن اگر جوابی کاروائی کرو گے تو کاٹ بھی سکتا ہے۔ تمہاری منزل بھی کوئی اور کر سکتا ہے۔ لیکن اگر تمہیں معلوم ہو کہ یہ بھونکنے والا ہے کاٹنے والا نہیں تو تم کچھ بھی نہیں کرو گے توجہ ہی نہیں دو گے اور سنی ان سنی کر کے سیدھے چلتے چلے جاؤ گے اور بھونکنے والا سمجھ جائے گا کہ تم نے کوئی نوٹس ہی نہیں لیا نہ مجھے کچھ سمجھا نہ میرے بھونکنے کو تو خود ہی دم دبا کر اس کا ر لاحاصل سے باز آ جائے ایسے بھونکنے سے فائدہ کیا جس کا کسی پر اثر ہی نہ ہو۔ استاد کی اس بات کو ہم نے ہمیشہ گانٹھ باندھے رکھا ہے۔
وہ جانور جو وفادار مشہور ہے چاہے کسی قسم کا بھی ہو دو ٹانگوں والا ہو یا چار ٹانگوں والا جب بھی ہم پر بھونکا ہے ہم نے استاد کی ہدایت یاد کر کے سنی ان سنی کی ہے اور کوئی رسید دیے بغیر سیدھے گئے ہیں۔ اوپر سے نوالہ کھلانے والے کو بھی اپنی کارکردگی دکھانا ہوتی ہے اس لیے بھونک بھونک کر اپنی موجودگی اپنی سعی اور اپنی وفاداری ثابت کرنے پر تل جاتا ہے کہ نہ تو جنگی ہے نہ کانٹے والاتو خود کو رجسٹر کرانے کے لیے سوائے اس ایک کام کے اس کے پاس اور ہوتا ہی کیا ہے۔
چھوٹی سی بات ہے لیکن بہت بڑی بات ہے آپ ایسے موقع پر گبھرا کر کچھ الٹا سیدھا کیے بغیر اپنی راہ چلتے چلے جائیں بھونکنے والے کاٹتے نہیں۔ ایک اور حقیقہ یاد آ رہا ہے، ہمارے محلے میں ایک عورت بہت ہی جھگڑالو فسادی اور بد زبان تھی۔
اس کے بیٹے کی شادی ہوئی تو لوگ، کان لگائے بیٹھے تھے کہ بہو کی یہ کیا درگت بنائے گی لیکن ابتدائی چند دن وہ خود پر صبر کر کے خاموش رہی پھر اس نے ابتدا کر دی۔ بہو اپنے کمرے میں سوئی ہوئی تھی اس کے لیے اس کے دیر تک سونے سے ابتدا کی اور اسٹارٹ لے لیا۔ بہو دروازہ کھول کر نکلی اپنی ایک جوتی دروازے کے پاس دیوار کے ساتھ کھڑی کر دی اور پھر دروازہ بند کر کے بیٹھ گئی۔ ساس کو تو اور آگ لگ گئی۔ اب یہ موضوع تھا کہ میں اتنی گئی گزری ہو گئی کہ جواب تک کہ قابل بھی نہیں سمجھی گئی۔ بھونکنے لگی بھونکنے لگی غصہ چڑھتا گیا آخر کار اپنے ہی جذبات سے بے ہوش ہو کر گر گئی۔ اور اس کے بعد اسے کسی کے ساتھ بھی لڑتے نہیں دیکھا گیا۔