زحل کے چاند پر حیاتیاتی سالمہ دریافت کرنے والی ٹیم میں پاکستانی ماہر بھی شامل

ڈاکٹر نوزیر خواجہ اس بین الاقوامی ٹیم کا حصہ ہیں جس نے انسلیڈس چاند پر نامیاتی سالمہ دریافت کیا ہے


سہیل یوسف June 29, 2018
زحل کے چاند انسلیڈس پر ماہرین نے پیچیدہ حیاتیاتی سالمہ دریافت کیا ہے۔ فوٹو: بشکریہ ناسا

ہمارے نظامِ شمسی میں خوبصورت حلقوں والے سیارے زحل (سیٹرن) کے ایک چاند انسیلیڈس پر پیچیدہ نامیاتی سالمہ (آرگینک مالیکیول) دریافت ہوا ہے جس سے نظامِ شمسی میں زمین کے علاوہ دیگر دنیاؤں میں زندگی کی اُمید ایک بار پھر سے روشن ہوئی ہے۔

ہفت روزہ نیچر میں شائع ہونے والی تفصیلات کے مطابق ناسا، یورپی خلائی ایجنسی اور جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی سمیت کئی تحقیقی اداروں کے ماہرین نے اس دریافت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں خلائی حیاتیات کے ماہر ڈاکٹر نوزیر خواجہ بھی شامل ہیں جو اس دریافت کے کلیدی ماہرین میں شامل ہیں۔



تفصیلات کے مطابق خلائی جہاز کیسینی نے سیارہ زحل کے برفیلے چاند انسیلیڈس کی تصاویر اور اہم ڈیٹا 2005 میں زمین کی جانب روانہ کیا تھا۔ اس کے بعد ماہرین یکسوئی سے اس کے ڈیٹا کا جائزہ لے رہے تھے اور اس مشترکہ کاوش کے بعد ہی ماہرین نے اپنے ایک تحقیقی مقالے کے بعد حتمی طور پر اس دریافت کا اعلان کیا ہے ۔ اس کی تفصیلات بدھ کے روز ہفت روزہ سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہیں۔

ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں ڈاکٹر نوزیر خواجہ اور فرینک پوسٹ برگ کی نگرانی میں کام کرنے والی ٹیم نے کہا ہے کہ زحل کے چاند انسیلیڈس کا اندرون برفیلا ہے۔ اور برف کے ذرات کے اندر ایسے طویل اور پیچیدہ نامیاتی مرکبات دریافت ہوئے ہیں جو اس سے قبل کبھی زمین کے علاوہ کسی اور سیارے، سیارچے یا چاند پر نہیں دیکھے گئے۔ خیال ہے کہ برف کے یہ ذرات چاند کی اندرونی سطح سے ابل کر باہر آئے ہیں اور چاند پر موجود دراڑوں سے بہہ کر باہر نکلے ہیں۔ کیسینی سیٹلائٹ نے انہیں بھانپ لیا اور ان کی خبر دی۔



آسٹریلیا کے کوسموس میگزین سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے کہا کہ اس مالیکیول میں کاربن کے کم ازکم 15 ایٹم موجود ہیں اور شاید اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب فرینک پوسٹ برگ نے یورپی خلائی ایجنسی کی ویب سائٹ پر کہا کہ کسی ''غیرارضی آبی دنیا میں ایک پیچیدہ سالمے کی دریافت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔''

یونیورسٹی آف ہائیڈل برگ کی ویب سائٹ پر جاری ایک پریس ریلیز کے مطابق انسیلیڈس کی برف کے نیچے مائع پانی کا ایک سمندر موجود ہے۔ برفیلے چاند کے اندر سے باہر آنے والے برف کے ذرات میں پیچیدہ حیاتیاتی سالمہ دریافت ہوا ہے جو کسی ایسے ہی پیچیدہ عمل سے بنا ہے۔ اور شاید اس کی گہرائی میں ہماری زمین جیسی ہائیڈرو تھرمل وینٹس موجود ہوسکتی ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ زمینی سمندروں کے فرش پر گرم پانی کی چمنی نما ساختیں ہیں جنہیں ''ہائیڈرو تھرمل وینٹس'' کہا جاتا ہے اور ان کے اندر بھی طویل حیاتیاتی سالمات دریافت ہوئے ہیں۔ اسی بنا پر فرینک کہتے ہیں کہ شاید انسیلیڈس کی گہرائی میں بلند دباؤ اور درجہ حرارت کی وجہ سے ہونے والے ہائیڈروتھرمل ماحول میں ان سالمات نے جنم لیا ہے۔ تاہم یہ سالمات شہابی سرگرمیوں سے بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔



یہ سالمہ پانی میں حل نہیں ہوتا جس میں ایٹم کسی چھلے اور طویل زنجیر کی صورت میں موجود ہیں۔ اس میں کاربن کے علاوہ آکسیجن ایٹم بھی ہے اور شاید نائٹروجن بھی موجود ہو۔ ڈاکٹر نوزیر اور ان کے رفقا کی اس اہم تحقیق پر دیگر ماہرین نے کہا ہے کہ شاید اس طرح کا برفیلا چاند غیرارضی زندگی کا مسکن بھی ہوسکتا ہے تاہم اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ تمام ماہرین نے مزید بہتر خلائی مشن کو انسیلیڈس بھیجنے کی تجویز بھی دی ہے۔

ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے بتایا کہ وہ اس اہم دریافت کے بعد پاکستان میں خلائی حیاتیات (ایسٹروبائیالوجی) کا فروغ چاہتے ہیں۔ 2016 میں انہوں نے زحل کے ای حلقے (رنگ) میں ایک اور نامیاتی مرکب دریافت کیا تھا لیکن اس میں کاربن ایٹم کم تھے۔ ڈاکٹر نوزیر نے پاکستان میں خلائی تحقیق کے لیے بھی ایک ویب سائٹ بنائی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں