قیادت کا بحران
قومیں اپنے سچے لیڈر کو بہ خوبی پہچانتی ہیں مگر جو بات میں نے کہی اس کا مفہوم ذرا کلاسیکل ہے۔
قومیں اور قومی لیڈران چولی اور دامن کا رشتہ رکھتے ہیں، وہ ایک دوسرے کا عکس ہیں، ان کا رونا اور دھونا، اوڑھنا بچھونا ایک ساتھ ہے۔ قومیں رہبر کی انگلی پکڑ لیتی ہیں، چل پڑتی ہیں اس ڈگر پر جس کا تعین ان کا لیڈر کرتا ہے۔
قومیں اپنے سچے لیڈر کو بہ خوبی پہچانتی ہیں مگر جو بات میں نے کہی اس کا مفہوم ذرا کلاسیکل ہے۔ جب ریاستیں بھی کلاسیکل ہوتی تھیں، جب جناح کتنے بھی Aristocrate تھے مگر پاکستان بنانے کے بعد، ایک قوم کا تعین کرنے کے بعد، ایک قوم کو مکمل ترتیب دینے کے بعد اور ایک مکمل سمت دینے کے بعد وہ گورنر جنرل بنے تو ایک چائے کی پیالی بھی سرکاری خزانے سے پینا گوارا نہ کیا۔ کیونکہ ان کے سامنے گاندھی تھے، وہ گاندھی جو اپنے تن پر پورا لباس بھی اوڑھنا گوارا نہ کرتے تھے، کیونکہ گاندھی کے سامنے پھر نہرو تھے، جو موتی لعل کے بیٹے تھے، برہمن تھے، مہاراجہ تھے، مگر انھوں نے وہ تمام آسائشیں چھوڑ کر سادہ لباس کو ترجیح دی، سادگی کو اپنایا، پھر جناح کے سامنے عبدالکلام آزاد تھے، یہ سب فقیر منش لوگ تھے۔ قوموں کے سچے لیڈر تھے۔ وطن بدر ہوئے یا دیار یار میں تھے، یا اغیار میں تھے، بس جو تھے سو آس لہو میں تھے۔
ایک باچا خان بھی تھے، بلوچ، خان جیسے نواب خیر بخش مری اور اسی طرح کے اور لوگ اپنی مثال آپ تھے۔ پھر کرتے کرتے ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب جو ستر کی دہائی کے بڑے لیڈر تھے، میر غوث بخش بزنجو، مولانا مودودی، خان ولی خان تھے۔ پھر ایک بینظیر تھیں، اس ریاست میں ان کے مقابل افسر شاہی بھی تھے، جو انڈین سول سروس (ICS) کے امتحانات کئی مراحل سے گزر کر افسر بنے تھے، جیسے جی ایم قاضی۔
یہ سب اتنے بڑے نام ہیں کہ شاید میرا حافظہ مکمل طور پر کام نہ کرسکے۔ محمد بچل جیسے، حئی قریشی جیسے اور دراب پٹیل جیسے جج صاحبان بھی تھے۔ ایسے کئی فوجی افسر بھی تھے۔ پاکستان بننے سے پہلے اگر دنیا کی سیاسیات پر نظر ڈالی جائے تو روزویلٹ بھی تھے، چرچل بھی تھے، ماؤزے تنگ، جمال ناصر بھی تھے۔ سوکارنو بھی تھے، فیڈل کاسترو بھی تھے اور نیلسن منڈیلا بھی تھے، ہوچی منہ تھے، یہ سب ایسے لوگ تھے کہ ان کے دنیا سے جانے کے بعد ایک پھوٹی کوڑی بھی ان کے گھر سے برآمد نہ ہوئی۔
مجھے شاہ لطیف کی یہ سطریں یاد آئیں جن کا ترجمہ کچھ اسطرح سے ہے:
''آج بھی ان اوطاقوں میں تعلق تو ہیں مگر جو میرے جی کو لبھاتے تھے وہ لاہوتی جو ہجرت کر کے چلے گئے''
ایسا کہیے کہ جیسے جس ڈالی پر مینا بیٹھتی تھی وہ ڈالی تو ہے مگر مینا نہیں۔ جس کرسی پر کل ذوالقار علی بھٹو اور بینظیر بیٹھتے تھے، آج وہاں آصف زرداری براجمان ہیں۔ میاں نواز شریف آج کی جمہوریت کا ہر اول دستہ تو ہیں مگر گھڑی وہ بیس کروڑ کی پہنتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جب گڑھی خدا بخش کی زمین میں خاک ہوئے تو پتہ چلا کہ ان کے صرف دو گھر ہیں، ایک المرتضیٰ ہاؤس لاڑکانہ اور دوسرا ستر کلفٹن کراچی اور باقی زمین یا پھر ان کی پہلی بیوی امیر بیگم کے حصے سے ملی یا پھر والد شاہنواز کے ترکے سے ملی۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں ایک مرلہ زمین کا بھی نہ خریدا۔ اب سنتے ہیں کہ ان کے نواسے بلاول بھٹو زرداری کے پاس دبئی میں اربوں کی پراپرٹی ہے اور بے نامی جائیداد کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ فیضؔ کہتے ہیں کہ
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو چاہنے والا تیرے طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جان بچا کے چلے
جو دیوالیہ پن اس ملک میں اب نظر آرہا ہے کہ نہ قیادت وہ رہی، نہ افسر شاہی، نہ جج صاحبان، نہ جرنیل، ہر طرف دھول کی ایک چادر ہے اور منزل کا کچھ پتہ نہیں۔ قوم کی انگلی رہبر کی ہاتھوں میں نہیں اور رہبر سیر سپاٹوں میں مصروف ہیں۔ اس دور کا سب سے بڑا کاروبار سیاست بن چکا ہے۔ ایک بڑی پارٹی کا ٹکٹ جیسے چلتا پھرتا کارخانہ ہو، جس سے سرمایہ کمایا جائے۔ سرکاری نوکری کوئی دکان ہو جیسے، استاد اسکولوں سے غائب اور ڈاکٹر اسپتالوں سے، سب کچھ یا تو ٹھیکے پر ہے، اگر ٹھیکے پر نہیں تو کمیشن پر۔ عجیب کہانیاں جیسے چوروں کی نانیاں جیسے، کوئی بیانیہ سے کماتا ہے تو کوئی بیانیہ کو بیچ کر۔ کوئی درخت کاٹ کر تو کوئی سرکاری زمین کو کوڑیوںکے بھاؤ بیچ کر۔ کوئی کالا باغ ڈیم کی بنسی بجا کر، بغیر سوچے سمجھے کہ ایسی بانسری بجانے سے وفاق کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
فرض کر لیجیے کہ فوج کے سربراہ کہیں کسی دورے پر کسی چھوٹے افسر کو اس کی غلط حرکت پر تھپڑ رسید کر دے تو پورے فوج کی رینک اینڈ فائل کا مورال گر جائے گا۔ افسر تو افسر کے تابع ہو سکتا ہے مگر جج کسی جج کے تابع نہیں، وہ عہدے میں چھوٹا یا بڑا تو ہو سکتا ہے مگر ہر جج اپنی جوریسڈکشن میں آزاد ہوتا ہے، وہ اپنا فیصلہ کسی اور جج کی ڈکٹیشن سے نہیں کرتا۔ وہ اپنے فیصلے میں آزاد اور خودمختار ہے۔ وہ اپنی عدالت میں خود ایک حیثیت رکھتا ہے۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
یوں لگتا ہے کہ یہ ملک جیسے کسی بلیک ہول کی زد میں ہو۔ اب اس ملک کی ضرورت ہے کہ عوام کو لیڈر کسی فرد کی صورت میں نہیں چاہیے بلکہ اداروں کی صورت میں چاہئیں، کیونکہ فرد تو آئیں گے اور جائیں گے مگر ادارے ہمیشہ برقرار رہیں گے۔ فرد اگر اپنی ذات میں بند ہے تو ادارہ تباہ ہوگا لیکن فرد اگر اپنی ذات سے بڑا ہے تو ادارہ مضبوط ہوگا۔ اب اس ملک میں ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے یہ خودغرضوں کی آماجگاہ ہے، وہ چاہے سیاسی پارٹیاں ہوں یا پھر سرکاری ادارے اوراس ملک کی پستی اس بات کی دلیل ہے۔
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں