آمد برسات اور الیکشن کی سرگرمیاں
ہمارا ملک آزاد ہے الحمدﷲ، لیکن بدقسمتی سے حکمران دیانتدار میسر نہیں آتے۔
برسات کی آمد آمد ہے اور اس کے ساتھ الیکشن میں حصہ لینے والوں کی سرگرمیاں، میڈیا اور میڈیا کے باہر بازار سج گیا ہے جہاں نااہل ہونیوالوں کے چرچے زبان زد عام ہیں۔ آزمائے ہوئے لوگ ایک بار پھر اپنے ووٹرز کا دل جیتنے کی کوشش میں ہر حربہ آزمانے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن پبلک ان کی باتوں پر یقین کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔
گزشتہ دنوں خاتون امیدوار پی پی نے لیاری کا دورہ کیا تو لیاری کے مکینوں نے کھری اور سچی باتیں سناکر سچ کے آئینے میں ان کی حقیقی تصویر نمایاں کردی کہ مقتدر حضرات کس قدر ظالم ہیں، جنھوں نے جیتنے کے بعد ان کی خبر نہ لی، جن کے شب برأت کی مانند عیش و عشرت کے ہنڈولے میں جھولے اور خوب پینگیں بڑھائیں۔
پیپلزپارٹی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور فریال تالپور گرم، نرم لہجے میں اپنے کارکنوں کو ہدایات دے رہی ہیں کہ ووٹ پر ان ہی لوگوں کا حق ہے لیکن دال پھر بھی گلتی نظر نہیں آرہی ہے، لوگوں نے اس بات کا کھل کر اظہار کیا ہے کہ زمانۂ ماضی میں وہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم رہے ہیں، ان کے گاؤں گوٹھ کے لوگ پانی، بجلی، تعلیم اور علاج معالجے کے لیے ترس گئے ہیں، لہٰذا وہ اپنا ووٹ ہرگز ضایع نہیں کریں گے۔ وقت نے انھیں بہت کچھ سکھادیا ہے، اب ووٹ کا وہی حق دار ہوگا جو انھیں انسان سمجھے گا اور ان کے مسائل کو حل کرے گا۔
ان تمام باتوں کے باوجود بے شمار لوگ اب بھی تلخی ایام سے سبق نہیں سیکھ سکے ہیں۔ ایسے لوگ ہی ایک بریانی کی پلیٹ اور ایک سرخ نوٹ کے عوض بہت آسانی سے بک جائیں گے۔ سندھ کے حکمران ہوں یا پنجاب کے، ان سب نے مل کر غریب کا استحصال کیا ہے، ان کے خون پیسنے کی کمائی سے تجوریاں بھری ہیں، صبح و شام کولہو کے بیل کی طرح محنت کروائی گئی ہے اور بدلے میں پیٹ بھر روٹی بھی میسر نہیں۔ اگر کوئی عالم باعمل علم کی شمع روشن کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے رشوت کے طور پر بھاری رقم کی پیشکش کی جاتی ہے۔
دین حق پر چلنے والے ان کے ہتھکنڈوں میں ہرگز نہیں آتے ہیں۔ تب دوسرے طریقوں سے رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہیں، اسی وجہ سے سندھ اور پنجاب کے گاؤں اور گوٹھ کے مکین پیٹ بھرنے کو ہی زندگی سمجھتے ہیں۔ انھیں دانستہ طور پر علم و شعور سے بیگانہ رکھا گیا ہے۔ یہ پیسے والے لوگ پچھلے لیڈروں کی دردناک اموات کو بھی بھلا بیٹھے ہیں کہ کس عبرتناک انجام سے مقتدر حضرات دوچار ہوئے تھے۔ کوئی ان کا نام لیوا نہیں، خاندان کے خاندان برباد ہو گئے، لیکن اقتدار کا نشہ ٹوٹنے کا نام نہیں لیا ہے۔
عوام جن لوگوں کو آزما چکے ہیں، وہی لوگ ایک بار پھر ووٹرز کی آنکھوں میں سہانے خواب سجانے آگئے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف ان دنوں کراچی الیکشن کیمپین کے لیے تشریف لائے ہیں اور انھوں نے اس بار عوام سے تین سال مانگ لیے ہیں کہ وہ اس عرصے میں ہر گھر میں پانی فراہم کردیںگے اور کراچی کو پیرس بنادیںگے۔ پچھلی دفعہ بھی اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنے وعدوں کو وفا نہ کرسکے۔ تب وہ جوش خطابت میں پانی اور بجلی کی فراہمی کے لیے بہت کچھ کہہ گئے تھے۔
تین سال کے لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ 'کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک'۔ ویسے ان حکمرانوں نے اعتماد کی دھجیاں بکھیردی ہیں۔ ہمارے ملک میں پانی کا شدید بحران ہوچکا ہے اور حالات نے یہ ثابت کیا ہے کہ 2025ء تک پانی ختم ہوجائے گا۔ ہندوستازن نے ڈیم پر ڈیم بنالیے ہیں اور یہاں یہ حال ہے کہ کالاباغ ڈیم کے مخالفین ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئے ہیں، یہ لوگ نہ پاکستان کے دوست ہیں اور نہ ملک سے مخلص ہیں۔ فوج کے بھی خلاف ہیں، ایسے لوگوں کو کیا پاکستان میں رہنے اور پاکستانی کہلانے کا حق ہے؟
پاک آرمی فوج کی ہی بدولت ملک کو سالمیت اور استحکام حاصل ہے۔ بھارت سرحدوں پر ہر روز ہمارے فوجی جوانوں اور وہاں کی غریب آدمی کو شہید کرتا ہے، یہ فوج ہی ہے جو ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے اور اپنے ملک کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہی ہے۔ آج پاکستان کا بچہ بچہ پاک آرمی کے لیے زندہ باد کے نعرے لگارہا ہے اور انھیں خراج تحسین پیش کررہا ہے۔
نواز حکومت کو اس بات کا بالکل احساس نہیں رہا کہ بھارت نے پاکستان کے حصے کے پانی پر کشن گنگا ڈیم بنالیا ہے اور ڈھٹائی کے ساتھ مودی نے اس کا افتتاح بھی کرلیا۔ دریائے نیلم میں 22 میٹر سرنگ بناکر اس کا رخ اپنی طرف موڑ لیا، وہاں کے لوگوں کی معاشی ضرورتیں اس ہی پانی سے پوری ہوتی ہیں۔ بارہ سو ٹن ٹاؤٹ مچھلیاں اور چاول کی پیداوار اس وادی کے مکینوں کا روزگار ہیں، لیکن نواز حکومت سوتی رہی اور دشمن جاگتا بھی رہا اور پاکستان کی بنیادوں میں شگاف ڈالنے کے لیے سازشیں کرتا رہا، اس کی انتقامی سازشیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔
کشمیریوں کا ہر روز خون بہاتا ہے، وہ لوگ نہتے ہیں، بے آسرا ہیں، بس جذبہ ایمان کے تحت مقابلہ کررہے ہیں، لبرل بننے والے ہندوستان کا چہرہ اسی طرح مکروہ ہوچکا ہے جس طرح اسرائیل کا۔ فلسطینیوں سے ہمدردی اور ان کی بے بسی کے احساس سے غیر مسلموں کے دل بھی تڑپ اٹھے ہیں، پچھلے دنوں فٹ بال کے ایک مشہور کھلاڑی نے اسرائیل کی بربریت کے حوالے سے کھیلنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے علاوہ برطانیہ اور دوسرے ممالک مظلومین کے حق میں آواز اٹھائی جاتی ہے۔
ہمارا ملک آزاد ہے الحمدﷲ، لیکن بدقسمتی سے حکمران دیانتدار میسر نہیں آتے، جس ملک میں سونے چاندی کی کانیں ہوں، معدنیات سے بھرا ہو، جنگلات، سمندر، قدرتی غذائیں، غرض ہر نعمت اس ملک کو میسر ہے۔ پاکستانی عوام کے حصے کا کھانا پینا بیرون ملک فروخت کردیا جاتا ہے اور اپنے عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ تعیشات زندگی میں خرچ ہوتا ہے، اس کے باوجود نواز حکومت نے ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔
ملک میں بدحالی، غربت اور مسائل عروج پر ہیں، رواں سال حکومت نے 10 ارب 44 کروڑ روپے امدادی اداروں سے وصول کیے، جو دستاویز دستیاب ہوتی ہیں ان کے مطابق جولائی تا مئی کے دوران ایشیائی ترقیاتی بینک سے 72 کروڑ 28 لاکھ ڈالر کی گرانٹس لی گئیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے قرض معاف کرانیوالوں کے خلاف سخت ایکشن لیا ہے۔ انھوں نے کہاکہ جن لوگوں نے قرضے لیے اور معاف کرائے وہ 75 فیصد واپس کریں ورنہ انھیں مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا۔ بینکنگ نوٹس بھجوا دیے جائیں گے اور ایسے لوگوں کی جائیدادیں بھی ضبط کرلی جائیںگی۔
سخت گرمی کے بعد الحمدﷲ موسم سہانا ہوچکا ہے۔ اللہ کی رحمت حق پرستوں کے ساتھ ہے، کراچی میں بہت عرصے سے بارشیں نہیں ہوئی ہیں، یہ بات بھی اللہ کی ناراضگی کا پتہ دیتی ہے۔ حکومت اور اس کے اداروں کی ناقص کارکردگی کے اثرات پورے ملک کے باسیوں پر پڑتے ہیں، کبھی کرنٹ لگنے، چھت اور دیواریں گرنے کی وجہ سے برسات کے موسم میں اموات ہوتی ہیں، کھلے نالوں کے باعث کراچی کے نالے خونی بن چکے ہیں، آئے دن معصوم بچے گرجاتے ہیں لیکن کنٹونمنٹ بورڈ، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو ذرا برابر احساس نہیں ہے۔ گلستان جوہر کے بلاک 12،13 کھلے نالوں کی آماجگاہ ہیں۔