کھئی کے پان کراچی والا
شہباز شریف نے یوں ایک دلچسپ انداز میں کراچی والوں کو ساتھ لے کر چلنے کا عندیہ دے دیا۔
لاہور:
انڈین فلمیں بھارت اور پاکستان اور جہاں جہاں دنیا میں اردو، ہندی بولی جاتی ہے وہاں وہاں شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔ 70 اور 80 کی دہائی میں پاکستان میں بھی بھارتی فلمیں اور ان کے گانے اسی طرح مقبول تھے جیسے کہ بھارت میں۔ اداکار امیتابھ کی ایک فلم ڈان کا گانا ''کھئی کے پان بنارس والا، کھل جائے بند عقل کا تالا'' اس قدر مقبول ہوا کہ گھر گھر سے اس کی آواز آتی تھی۔
ہم بھی جب کہیں یہ گانا بجتا ہوا سنتے تو جھوم اٹھتے تھے، لیکن ہمیں یہ علم قطعی نہیں تھا کہ بنارس کا پان کھانے سے بند عقل کا تالا کیسے کھل جاتا ہے؟ پان کھانے سے بند عقل کا تالا کھلتا ہو یا نہ کھلتا ہو بہرحال شہباز شریف نے حال ہی میں کراچی آکر کراچی والوں کے پان کھانے کا ذکر کرکے اپنی انتخابی مہم کا تالا کھول دیا۔ شہباز شریف نے بڑے خوبصورت انداز میں کراچی والوں کے پان کھانے کا حوالہ دیا۔
ٹی وی چینل کے ایک میزبان نے شہباز شریف کے اس دلچسپ انداز کو ایک بڑا جرم بنادیا، حالانکہ یہ ان کی انتخابی مہم کی ایک اچھی اور خوبصورت حکمت عملی تھی اور اسی حکمت عملی کے تحت وہ کراچی میں آکر لوگوں سے گھل مل گئے اور کراچی والوں کو احمد رشدی مرحوم کا یہ گانا گا کر پیغام بھی دے گئے کہ ''اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم، تمھارے بنا ہم بھلا کیا جیئیں گے''۔
شہباز شریف نے یوں ایک دلچسپ انداز میں کراچی والوں کو ساتھ لے کر چلنے کا عندیہ دے دیا۔ ان کے دورہ کراچی سے یہ بات بھی ثابت ہورہی تھی کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ کراچی میں اپنا ووٹ بینک ہی نہیں بنائیں گے بلکہ کچھ خدمت بھی کریں گے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے دیگر دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی طرح کراچی آکر لفظ 'مہاجر' کو ایشو نہیں بنایا، بلکہ اپنے خطاب سے یہ ظاہر کیا کہ انھیں لفظ 'مہاجر' سے کوئی اختلاف نہیں ہے، ورنہ دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے جب بھی ایم کیو ایم کی جگہ لینے کی کوشش کی ہے، کراچی والوں کو یہ نصیحت کرنے کی کوشش کی ہے کہ لفظ 'مہاجر' حقیقتاً کچھ نہیں ہوتا۔
راقم نے پہلے بھی اپنے ایک کالم میں اس طرف توجہ دلائی تھی کہ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے کہ جب تک آپ کسی کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کریں گے، وہ آپ کا ساتھی نہیں بن سکتا۔ مہاجروں کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہی درپیش رہا ہے کہ ان کے پاس کوئی متبادل ایسی سیاسی قوت ہی دستیاب نہیں کہ جو ان کا تشخص (جیسے وہ لفظ مہاجر سے تشبیہ دیتے ہیں) کھلے دل سے تسلیم کرے، چنانچہ ووٹ دیتے وقت ان کے پاس چوائس ہی نہیں ہوتی تھی۔
شہباز شریف نے اپنے دورہ کراچی سے شہر والوں کو یہ چوائس فراہم کرنے کی کوشش کی ہے، اسی سلسلے میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے کراچی میں ٹرانسپورٹ کا ایک بڑا منصوبہ بھی پہلے ہی شروع کر رکھا تھا، جو اب پایہ تکمیل کو پہنچنے والا ہے، مزید نئے منصوبوں کی طرف شہباز شریف نے حالیہ دورے میں اشارہ دے دیا ہے۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ کراچی والے مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو کس قدر فوقیت دیتے ہیں۔
جہاں تک ایم کیو ایم کی دھڑا بندی سے قبل جماعت کا تعلق ہے وہ مسلم لیگ ن کی ایک کھلی مخالف جماعت کی حیثیت رکھتی تھی، کیونکہ مسلم لیگ ن ہی کے دور حکومت میں اس جماعت کے خلاف نہ صرف آپریشن ہوا بلکہ اس جماعت کی کمر ہی توڑ کر رکھ دی گئی، اس عمل کو ن لیگ کراچی میں قیام امن لانے کا عمل کہتی ہے اور اس کا ذکر بڑے فخر سے کرتی ہے۔
اب جب کہ ایم کیو ایم کے تمام سابق رہنما مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور اپنی پرانی جماعت کی حکمت عملی اور کارروائیوں کو ملک دشمنی حتیٰ کہ مہاجر دشمنی سے بھی تعبیر کررہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ ن لیگ سے مستقبل میں کس قسم کے تعلقات رکھنے کے خواہشمند ہوں گے۔ ماضی میں مہاجر نام پر ووٹ حاصل کرنیوالے یہی رہنما سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک طویل عرصے اقتدار میں شامل بھی رہے اور کسی قدر اپوزیشن کا کردار بھی وقتاً فوقتاً ادا کرتے رہے۔
یوں بادی النظر میں دیکھا جائے تو کراچی کے میئر وسیم اختر سمیت تقریباً ہر رہنما اقتدار میں ہونے کے باوجود یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ سندھ کی حکومت انھیں فنڈ اور اختیارات ہی نہیں دیتی بلکہ کام بھی نہیں کرنے دیتی۔ حالانکہ ایم کیو ایم ایک بڑا وقت سندھ حکومت کے اتحادی کے طور پر بھی گزارتی رہی ہے، گویا اب مستقبل میں اس کے پاس بہتر چوائس یہی ہوگی کہ وہ مسلم لیگ ن سے تعلقات بہتر بنائے تاکہ سندھ حکومت اگر سندھ کے شہری مسائل حل کرنے میں وہی روش اختیار کرے جس کی شکایت پہلے بھی رہی ہے تو کم از کم مسلم لیگ ن سے انھیں کچھ مدد مل سکے۔
ویسے بھی مسلم لیگ ن کو سندھ کے شہروں کی بہ نسبت اندرون سندھ سے پذیرائی ملنے کا تاثر کم ہی ہے، لہٰذا پیپلز پارٹی کو مستقبل میں 'ٹف ٹائم' دینے کے لیے ن لیگ کو سندھ کے منتخب شہری نمایندوں کی اشد ضرورت ہوگی۔ آنیوالا وقت بتائے گا کہ منتخب ہونے والے سندھ کے شہری نمایندے ن لیگ سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا ماضی کی طرح صوبائی حکومت کا حصہ بن کر جھنڈے والی گاڑیوں کا ایک جانب مزا لیتے ہیں اور دوسری جانب اختیار کا رونا رو کے عوام کو بتاتے ہیں کہ وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں۔
بہرکیف سندھ کے شہری ووٹرز کو ن لیگ نے ایک موقع فراہم کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ انھیں ووٹ دے کر ایک ایسی جماعت کو جگہ دے سکتے ہیں جو پنجاب میں بیٹھ کر کراچی کے لیے ٹرانسپورٹ کا ایک بڑا منصوبہ دے چکی ہے، اور مستقبل میں بھی مزید کراچی کے شہریوں کے مسائل حل کرے گی۔
اب یہ سندھ خصوصاً کراچی کے شہریوں کا امتحان ہے کہ وہ شہباز شریف کو کامیاب کروا کر خیر سگالی کا جواب دیتے ہیں یا لفظ مہاجر کے نام پر ووٹ دے کر انھی پرانے نمایندوں سے مسائل کے حل کی امید لگاتے ہیں جن کا بیانیہ ہے کہ 'سندھ حکومت ہمیں اختیارات نہیں دیتی، لہٰذا مسائل بھی حل نہیں ہوتے'، یا پھر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی وغیرہ کو ووٹ دے کر قسمت آزماتے ہیں۔ راقم کا مشورہ ہے کہ شہری ووٹ دینے سے قبل اچھی طرح غور و فکر کریں اور عقل کا استعمال کریں، چاہے انھیں 'بنارس یا کراچی کا پان' ہی کھانا پڑے۔