اُمید کی بہار
ابھی سے اتنی چیخیں، شور شرابا اور سینہ کوبی۔ اس شورمیں کس جھوٹ کوچھپایا جارہا ہے۔
کیاامکانات کے سارے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ کیاسچ سے ڈرنے والے قائدین ہمارے مقدرمیں لکھ دیے گئے ہیں۔کیاسول اداروں کوتباہ وبربادکرنے کے بعد ذمے داری دوسروں پرڈالنے والے نوسربازدوبارہ ہمارے سرپر مسلط ہوجائیں گے۔ہرگزنہیں صاحبان،ہرگزنہیں۔
ہرچیزختم ہوسکتی ہے مگرقوانین قدرت میں تبدیلی نہیں آسکتی۔یہ اَٹل ہیں اوردائم رہیں گے، یہیں سے وہ اُمیدجنم لیتی ہے جوقوموں کی تقدیربدل دیتی ہے۔جوپاتال میں چھپی ہوئی صلاحیتوں اور طاقتوں کوجھنجوڑکرباہرنکالتی ہے اورملک بدترین سے بدل کربہترین ہوجاتے ہیں۔ خدا لوگوں کے دلوں کو بدلتاہے۔ان کی سوچ کوتبدیل کردیتا ہے۔ طاقتور کو حقیربنادیتاہے اورکمزورکوطاقت کا منبع بنادیتا ہے۔
مجھے قانون قدرت پراعتمادہے۔لہٰذاجہانِ اُمید میرے سامنے کھڑاہے۔اِس وقت خداکے نام پر بننے والے ملک میں یہ معجزہ برپاہورہاہے۔بہتری کے اشارے ہویدا ہیں۔ ترقی دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہے۔ضرورت درست عوامی فیصلے کی ہے۔ اسی طرح کادرست فیصلہ،جس میں مذہبی جماعتوں کی طرف سے کافرقراردیے جانے والے قائداعظم کو 1946ء میں سرکاتاج بنا دیا گیا تھا۔
اسی نوعیت کے فیصلے کی گھڑی دوبارہ آپ کے ہاتھ میں چلاگیاہے۔ ظلم،رشوت، کرپشن،جھوٹ،گروہ بندی کے خداؤں کوپاش پاش کرناہے یاآیندہ سو برس انھی کی آل اولادکی غلامی میں زندگی گزارنی ہے۔ صاحبان!فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
کیاآج سے صرف دوبرس پہلے کوئی جوتشی،پنڈت یا نجومی کہہ سکتاتھاکہ صرف آنے والے سات سودنوں میں ہر چیزتبدیل ہوجائیگی۔ملک کا سب سے امیراور طاقتور خاندان خس وخاشاک میں بدل جائیگا۔ان کے حواری، پابندسلاسل ہونگے۔ ان سے حساب مانگاجائیگاکہ بتاؤ،یہ دولت کے پہاڑ کہاںسے آئے۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔ مگر صاحبان،خداکے فیصلے ہوچکے تھے۔ تقریروں کے دھویں کے پیچھے اپنی ناجائزدولت کوچھپایا نہیں جاسکتا۔ یہ حساب کا وقت ہے۔انصاف کاوقت۔
ایک ایماندار جج کابیٹاہونے کی حیثیت سے عدلیہ سے گہراتعلق ہے۔خواجہ شریف کی عدلیہ نہیں جویہ بھی نہیں بتاسکتے کہ ان کے چہرے پرزخم،کونسی چیزبچاتے ہوئے لگے تھے۔ملک قیوم کی عدلیہ بھی نہیں جوبینظیرکوسزادینے سے پہلے،آل شریف سے حکم لیتے تھے۔کیاادنیٰ الفاظ تھے، جو بارہا ٹی وی پر آئے '' عرض کررہے تھے کہ بڑے میاں صاحب کو گلہ نہیں ہوگا''۔
نامہ بربھی چھوٹے میاں صاحب، جو آج فرماتے ہیں کہ میرٹ اورشفافیت کے علاوہ ان کاکوئی وتیرہ ہی نہیں۔ مگر جاننے والے پہچانتے ہیں کہ اخلاقی بلنداُصولوں سے ان لوگوں اوران سے منسلک معاشی استحصالیوںکاکوئی تعلق نہیں۔اس صورتحال میں چیف جسٹس ثاقب نثارکی موجودگی پر جائزفخرہے۔اس عہدمیں سانس لے رہاہو، جہاں چیف جسٹس ثاقب نثارجیساقدآورانسان حکومتی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لیے موجودہے۔
علم ہے کہ طاقتورلوگوں کواس اُجلے شخص سے خوف نہیں بلکہ نفرت ہے۔مگرآج اگرکوئی شخص دوررس فیصلے کررہا ہے تووہ صرف چیف جسٹس ثاقب نثار ہے۔کہاتویہ جاتاتھاکہ ہمارابندہ ہے۔مگروہ تواللہ کابندہ نکلا۔ توکل کرتاہواایک ایساقاضی جوحیران کن فیصلے کر رہا ہے۔جن لوگوں نے اسے چیف جسٹس مقررہونے پرمٹھائی تقسیم کی تھی،آج انگلیاں چبا رہے ہیں۔ان کے حواری غم سے سینہ کوبی کررہے ہیں۔ مگر قوم نے آگے بڑھناہے اور ضرور بڑھنا ہے۔
کیا چیف جسٹس ثاقب نثارکاڈیم بنوانے کا فیصلہ، ہمارا مقدرتبدیل نہیں کرے گا۔سوفیصدکرے گا۔ کیا دس برس سے نو سربازؤں نے ایک بھی آبی ڈیم بنانے کی کوشش کی۔بالکل نہیں۔ہاں،کوئلہ اورفرنس آئل کے استعمال شدہ کارخانے لگا کرکامیابی کاڈھول اس طرح پیٹاکہ لوگ دھوکا کھانے لگے۔مگرکبھی یہ نہیں بتایاکہ بجلی پیداکرنے والے کارخانوں پر کیا لاگت آئی ہے۔مہنگی ترین بجلی بنانے کا کیا جواز ہے۔
مصنوعی ترقی کی آڑمیں دبئی اورترک کمپنیوں سے کمیشن وصول کرکے پوری قوم کوقرضوں کے عذاب میں دھکیل دیا گیا۔ کیا یہ ہے ترقی؟کیایہ احساسِ ذمے داری ہے اورکیایہ ہے ووٹ کی عزت۔ صاحبان!پاکستان کی معاشی بدحالی موجودہ وزیراعظم ناصرالملک،چیئرمین نیب یاآرمی چیف قمر باجوہ کی وجہ سے نہیں ہے۔ہرنکتہ پردوسروں کی بے عزتی کرنے والاوزیرخزانہ اوردبئی میں بے حساب جائیداد خریدنے والا،شخص اگرمعاشی گناہ گار نہیں ہے تو واپس پاکستان کیوں نہیں آتا۔
کیمرے کی آنکھ سے بچ کرنکلنے کی ناکام کوشش کیوں کرتا ہے۔ ہر طریقے سے صحت مندشخص، پاکستان واپسی کالفظ سن کراسپتال میں داخل کیوں ہوجاتا ہے۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ اب لوگوں کومعلوم ہوچکاہے کہ ان کے حالات کوخراب کرنے والاگروہ کون ساتھااوران کے ساتھ کیاہونے والاہے۔
اس وقت چندمخصوص لوگ سوال اُٹھارہے ہیں کہ نیب کا پنجاب پرکیوں فوکس ہے۔ مگرکیااس اَمرکو جھٹلایا جاسکتا ہے کہ پنجاب حکومت،کسی قسم کے حساب دینے کوتوہین اور اپنی حیثیت سے نیچے کا معاملہ گردانتی تھی۔کیایہ ممکن تھاکہ ایک مکمل اقتدارکی موجودگی میں نیب کواس صوبے میں کام کرنے کی اجازت ہوسکے۔ہرگزنہیں۔حدتویہ ہے کہ بدنام ترین،غیرقانونی کمپنیوں کاریکارڈتک نیب کوفراہم نہیں کیا گیاتھا۔
دعوے سے عرض کرونگاکہ پنجاب میں کرپشن کسی بھی دیگرصوبے سے زیادہ ہوئی ہے۔ تھوڑاسا سوچئے۔ تمام حکومتی قواعد نظراندازکرکے کام ایسی کمپنیوں کے حوالے کر دیا گیاجن کا جواز دنیا کے کسی ملکی قانون میں نہیں ہے۔ مقصد کیونکہ کام نہیں، صرف پیسے کی خوردبردتھی،لہذاانکوآڈٹ کے نظام سے بھی بری الزمہ قراردے دیاگیا۔کیایہ ممکن نہیں تھا کہ دیانت داراورکام کرنے والے غیر جانبدار افسر تعینات کیے جاتے۔انھیں بتایاجاتاکہ آپکوفلاں سرکاری اہداف حاصل کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔
تعیناتی کامخصوص دورانیہ ہے۔کوئی آپکے کام میں دخل نہیں دیگا۔ہاں،اگرکوئی کرپشن کی واردات ہوئی،توبھیانک نتائج بھگتنے پڑینگے۔مگرایک باربھی ایسا نہیں ہوا۔سوچیے،پچیس لاکھ ماہانہ تنخواہ،واقعی تنخواہ تھی یاخاموشی سے غیرقانونی کام کرنے کی فیس۔کیایہ ایک طرح کی سرکاری رشوت نہیں تھی۔ کیا دنیا کے کسی ادارے میں یہ ممکن ہے کہ جادوکی چھڑی گھمائی اورتنخواہ دولاکھ سے پچیس لاکھ ہو جائے۔
کیاکسی قانون میں اس کی گنجائش ہے۔ ابھی صرف صاف پانی کے چندمعاملات سامنے آئے ہیں۔ دیگرکمپنیوں میں کرپشن کی طلسمِ ہوش رُبا داستانیں موجود ہیں۔یہ بھی سامنے آئینگیے۔ اگر چیف جسٹس یہ حکم دیتاہے کہ یہ تنخواہیں غیرقانونی تھیں اورانھیں واپس کیا جائے، تو کیا یہ حکم درست نہیں ہے۔اگریہ صرف تنخواہیں ہوتیں توواپس کی جاسکتی تھیں۔مگرسب کوپتہ ہے کہ یہ کرپشن کی ایڈوانس فیس تھی۔
احتساب ہونا چاہیے۔ بے لاگ اورغضب ناک۔ کیاصاف پانی کے سی ای او کو صرف اس لیے چھوڑدیا جاتا کہ الیکشن لڑرہاہے۔بالکل نہیں۔اگروہ اہم ترین فرائض بھی سرانجام دے رہا ہوتا تو گرفتار ہونا چاہیے تھا۔معاملہ ابھی صرف اورصرف آغازکے مراحل میں ہے۔ ابھی تویہ فیصلہ کن مراحل میں بھی داخل ہی نہیں ہوا۔
ابھی سے اتنی چیخیں، شور شرابا اور سینہ کوبی۔ اس شورمیں کس جھوٹ کوچھپایا جارہا ہے۔ مگرانسانی نہیں خداکافیصلہ ہے کہ انسانوں کوزمین سے اُٹھانے سے پہلے ان کے اصل چہرے دنیاپر ظاہر کر دیتا ہے۔ صرف یہی ہورہا ہے۔عدالتیں اور نیب،درست سمت میں گامزن ہیں۔ جانتا ہوں کہ ان کی راہ میں بھی روڑے نہیں بلکہ پہاڑکھڑے کیے جارہے ہیں مگرطاقتورلوگ بھول رہے ہیں کہ اداروں کی طاقت ان کی استطاعت سے بہت بڑھ کرہے۔
اس صورتحال کاجوہری پہلویہ ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ طاقتورترین لوگوں سے پوچھ گچھ ہورہی ہے۔ کیایہ خداکی پکڑنہیں ہے؟کیایہ ریاستی اداروں کااعلیٰ کام نہیں ہے۔کیاپوری قوم نہیں دیکھ رہی کہ عدالتوں میں یہ لوگ ایک سوال کاجواب بھی نہیں دے پاتے۔ چیف جسٹس ثاقب نثارنے سات بار،پچیس لاکھ تنخواہوں کے متعلق سوال پوچھا مگر جواب نہ ملا۔ یہ لوگ توگوئبلزکے باپ نہیں اس کے پیرو مرشد ہیں۔
گوئبلزتوان کی جھوٹ بولنے کی صلاحیت کے سامنے طفلِ مکتب قرارپاتا۔مگراب ایک دو ٹی وی چینلوں کے علاوہ،عمومی رائے سب کے سامنے آرہی ہے۔ مگرعجیب بات ہے کہ اب تمام باشعورلوگ سمجھ چکے ہیں کہ کون کس کی زبان بول رہا ہے۔کس خاندان کوبچانے کے لیے نریندر مودی، را، اسرائیل اورہمارے پرانے آقایعنی برطانیہ کے اندربھرپورمنصوبہ بندی ہورہی ہے۔
یہاں تک کہا گیاکہ پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑدی جائے تاکہ موجودہ احتساب کے فولادی پہیے کو روکا جاسکے۔یہ بات تمام غیرجانبدارحلقوں سے تصدیق شدہ ہے۔جولوگ،ملک کی سالمیت کاسوداکرسکتے ہیں،جویہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو توڑ کر گریٹر پنجاب ہمارے حوالے کردو،کیاواقعی وہ اقتدار میں آنے کے قابل ہیں۔یہ افواہیں نہیں۔تمام باخبر حلقوں کو معلوم ہے۔صاحبان،اب اس قوم کا نوجوان اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔یہ جاگاہواملک ہے۔
ہمارے دشمن حیرت زدہ نہیں بلکہ پریشان ہیں کہ دہشت گردی پرپاکستانی دفاعی اداروں نے کیونکر قابوپالیا۔وہ تواس غم میں مرے جارہے ہیں کہ ان کی کوئی ملک دشمن اسکیم کامیاب کیوں نہیں ہورہی۔ اب اقتصادی طور پر برباد کرنے کے بین الاقوامی ایجنڈے پرکام زوروشور سے جاری ہے۔گرے لسٹ میں ڈالنا،اسی سازش کا شاخسانہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ آخری چال بھی ناکام ہوگی۔
جس دن کوئی ایماندارانسان،ملک کا وزیراعظم بن گیا، اس کی ایک اپیل پرہمارے شہری چندہ اکٹھا کرکے قرض کا پیسہ واپس کر دیںگے۔یہ ہوکر رہیگا۔سومنات کے بت گر رہے ہیں۔ اُمیدکی بہار، ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ شرط صرف اور صرف،آنے والے وقتمیں درست فیصلوں کی ہے!