پاکستان میں طبقاتی جدوجہد کی تاریخ
یہ بات ہم سب کے علم میں ہے کہ ہر تنظیم کے قیام کے پس پشت ان گنت مقاصد رہے ہیں۔
محمد زاہد اسلام، ہمارے بہت پرانے دوست اور کمیٹڈ سوشلسٹ ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے اپنے قلم کے ذریعہ شہری حقوق کی بازیابی، روشن خیالی اور خرد افروزی کے فروغ کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ مقامی حکومتی نظام، ٹریڈیونین اور طلبا سرگرمیوں کی بحالی کے لیے اپنے قلم کی طاقت کے ساتھ سرگرم ہیں۔ انھوں نے پاکستان میں طبقاتی جدوجہد کی تاریخ پر کتابی سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اس سلسلے کی دو کتابیں مجھے مل چکی ہیں، جن میں ''مزدوروں کی ٹریڈ یونین اور نظریاتی تحریکیں'' اور طلبا تحاریک ہیں۔
انھوں نے اب تک کوئی درجن بھر کتابوں کے علاوہ لاتعداد کتابچے اور پمفلٹ وغیرہ لکھے ہیں۔ کئی جریدوں میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کی جو کتابیں اب تک شایع ہوچکی ہیں، ان میں ''پاکستان میں لوکل گورنمنٹ''، ''پاکستان میں مقامی حکومتیں 1947-ء2015ء ماضی حال اور مستقبل''، ''لوگوں کے ساتھ ساتھ، این جی او تحریک کا جائزہ''، ''پاکستان: مقامی حکومتوں کا تجربہ (سیاسی جماعتوں کے منشور) اور مستقبل تجاویز اور سفارشات''، ''پاکستان میں مقامی حکومتی نظام'' اور ''دنیا بھر میں مقامی حکومتوں کے ماڈل'' ان کی اردو میں کتابیں ہیں۔ جب کہ Advanced level Civic Education اور Development of Local Government in Pakistan انگریزی میں ہیں۔
یہاں ہم ان کی دو تصانیف یعنی ٹریڈیونین اور طلبا تحاریک پر ان کی تحریر کردہ کتابوں پر گفتگو کریں گے۔ 268 صفحات پر مشتمل 'مزدوروں کی ٹریڈ یونین اور نظریاتی تحریکیں' میں زاہد اسلام نے مزدور تحریک کا قیام پاکستان کے وقت سے اجمالی جائزہ لیا ہے۔ کتاب کے پہلے باب میں پاکستان کے معاشی وسماجی منظرنامے کا جائزہ، ٹریڈیونینز میں سیاسی رجحانات اور مزدور کے تحریک کے چند نظریاتی ایشوز پر مختصراً گفتگو کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دوسرے باب میں مزدور تحریک کے تعارف کے عنوان سے پاکستان میں مزدور تحریک کی ابتدا، لاہور اور کراچی میں ٹریڈ یونینز اور بائیں بازو کے زیر اثر ٹریڈ یونینز پر بحث کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں مختلف حکومتی ادوار میں مزدور تحریک کے عنوان سے چار ادوار کو زیر بحث لایا گیا ہے، جو ایوب، بھٹو، ضیاالحق اور بعد کے ادوار پر محیط ہے۔
چوتھے باب میں مزدور تحریک کے بڑے بڑے واقعات۔ پانچویں باب میں مزدور تحریک میں تیزی اور سست روی کے رجحانات پر گفتگو کی گئی ہے۔ جب کہ آخری چھٹے باب میںصنعتوں کی نجکاری کے معاملہ کو اٹھایا گیا ہے۔یہ کتاب مزدور تحریک پر ایک طرح کا Discourse ہے، جس میں قیام پاکستان کے وقت سے آج کے دور تک ہونے والے واقعات کو مختصراً پیش کیا گیا ہے۔
اس سلسلے کی چوتھی، مگر مجھے ملنے والی دوسری کتاب پاکستان میں طلبا تحریک کے حوالے سے ہے۔ اس کتاب میں ٹریڈ یونین کی طرح طلبا تحریک کا قیام پاکستان کے وقت سے جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں کراچی، لاہور اور راولپنڈی میںقائم ہونے والی طلبا تنظیموں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ البتہ سابقہ مشرقی پاکستان میں طلبا تحریک کے بارے میں زیادہ مواد موجود نہیں ہے۔ حالانکہ اصل طلبا تحریک 1948ء میں بنگلہ زبان کے مسئلہ پر ڈھاکا یونیورسٹی سے شروع ہوئی تھی۔
مغربی پاکستان میں 1948ء ہی میں دو طلبا تنظیمیں وجود میں آئی تھیں، جن میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (DSF) بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتی تھی۔ دوسری اسلامی جمعیت طلبا (IJT) جماعت اسلامی کے طلبا ونگ کے طور پر سامنے آئی۔
زاہد اسلام نے مختلف ادوار میں طلبا تنظیموں کے بننے اور ان کے نظریات کو مختصراً بیان کیا ہے۔ لیکن ان کے بننے کے اسباب کی تفصیل میں جانے سے گریز کیا ہے۔ شاید وہ اپنے قارئین کو صرف ان تحاریک کی Chronology بتانا چاہتے ہیں۔ یہ بات ہم سب کے علم میں ہے کہ ہر تنظیم کے قیام کے پس پشت ان گنت مقاصد رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 1954ء میں جب کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین اور DSF پر پابندی لگی، تو حسین نقی کی کوششوں سے سرکاری سرپرستی میں قائم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) میں ترقی پسند طلبا نے شمولیت اختیار کرکے اسے ترقی پسند طلبا تنظیم میں تبدیل کردیا۔
اسی طرح 1965ء کے اوائل میں جب NSF تقسیم ہوئی، تو اس کا کاظمی گروپ روس نواز کہلاتا تھا، مگر وہ قومی سوال کو اہمیت نہیں دیتی تھی۔ اس لیے 1960ء کے عشرے میں فیصلہ کیا گیا کہ ہر صوبے میں ایسی ترقی پسند طلبا تنظیمیں قائم کی جائیں، جو ترقی پسندانہ رجحانات کے ساتھ قومیتی سوال کو بھی اہمیت دیں۔ یوں 1967ء میں بالترتیب چار تنظیمیں وجود میں آئیں۔
سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن(SNSF) سندھ کے قومی سوال، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(BSO) بلوچ قومی سوال، پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF) پختون قومی سوال اور نیشلسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (NSO) پنجاب کے قومی سوال کو اجاگر کرنے کے لیے قائم ہوئیں۔ ان طلبا تنظیموں نے طلبا حقوق کے ساتھ قومیتی سوال کو بھی انتہائی شدومد کے ساتھ اٹھایا۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ طلبا تحریک کا دباؤ تھا کہ یحییٰ خان کی حکومت ون یونٹ توڑ کر سابقہ یونٹوں کو بحال کرنے پر مجبور ہوئی۔
ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ 1950ء کے عشرے میں DSF کے قیام کا مقصد تمام شہریوں کے لیے بہتر تعلیمی سہولیات تک رسائی، فیسوں کا مناسب ڈھانچہ اور یکساں نصاب تعلیم تھا۔ اسے کراچی میں ڈاکٹر سرور مرحوم، ڈاکٹر جعفر نقوی، ڈاکٹر ہاشمی مرحوم اور دیگر نے قائم کیا تھا۔ لیکن اس کے یونٹ لاہور اور راولپنڈی میں فوری طور پر قائم ہوگئے تھے۔ راولپنڈی سے عابد حسن منٹو اور ڈاکٹر شیر افگن اس کے فعال اراکین میں شامل تھے۔ DSF نے 1952ء کے آخر میں اپنے مطالبات کا چارٹر حکومت کو پیش کیا۔
اس وقت کے وزیر تعلیم فضل الرحمان کی جانب سے ان مطالبات کو جائز قرار دیے جانے کے باوجود وفاقی حکومت نے انھیں ماننے میں پس وپیش سے کام لیا۔ جس کے ردعمل میں طلبا نے جنوری 1953ء میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا۔ 8 جنوری کو طلبا کا جلوس جب ڈاؤ میڈیکل کالج (کراچی) سے نکل کر صدر میں وزرات تعلیم کے دفاتر کی طرف بڑھا تو شاہراہ عراق پر پیراڈائز مارکیٹ (سابقہ سینما) کے قریب وزیر داخلہ مشتاق گورمانی کے حکم پر پرامن طلبا پر گولی چلائی گئی۔ جس کے نتیجے میں ایک راہگیر سمیت 8 نوجوان موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ اس احتجاجی جلوس میں SIUT کے سربراہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور معروف صحافی غازی صلاح الدین بھی شریک تھے، جو اس وقت ہائی اسکول میں پڑھتے تھے۔
بہرحال زاہد اسلام نے ایک اچھے کام کا آغاز کیا ہے۔ وہ ملک میں مختلف طبقات، حلقوں اور تنظیموں کی جانب سے مختلف ادوار میں سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کے لیے جو جدوجہد کی گئی، اسے سینہ قرطاس پر منتقل کرکے نوجوان نسل تک پہنچا رہے ہیں۔
اس طرح ہماری آج کی نسل کو جو انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی سے مستفیض ہورہی ہے، اس کے علم میں آنا چاہیے کہ اسے اس مقام تک پہنچانے اور اس کے حقوق کی بازیابی کے لیے اس کے بزرگوں نے آج حاصل سہولیات کے بغیر کس طرح جدوجہد کی اور معاشرے کی بہتری کے لیے قربانیاں دیں۔ ہم زاہد اسلام کو ان کی کاوشوں پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور قارئین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان کتب کا مطالعہ ضرور کریں تاکہ انھیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا اندازہ ہوسکے۔