اسٹریٹ چلڈرن
اسٹریٹ چلڈرن بہت آسانی سے کرپٹ لوگوں کا آلہ کار بن جاتے ہیں ان کو زور زبردستی سے برے کام کروائے جاسکتے ہیں۔
بچے ہر قوم کا سرمایہ، ہر قوم کا مستقبل۔ ان کی دیکھ بھال ان کی تعلیم و تربیت اہم ذمے داری ہے مگر ہمارے ملک میں ہمارے شہروں میں اس کا حساب کتاب الٹا ہی ہے قدم قدم پر نوزائیدہ بچوں سے لے کر نوجوان بچوں تک سڑکوں پر رلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گداگری سے لے کر چوری چکاری تک ان معصوم بچوں کا استعمال کیا جاتا ہے اور آتے جاتے حکمران طبقے سے بلکہ تمام شہری ان مناظر کو دیکھتے رہتے ہیں اور دن بہ دن ان مناظر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ایک مسلم ملک میں رہتے ہیں، رمضان شریف میں اس ملک میں زکوٰۃ، خیرات کروڑوں کے حساب سے ہوتی ہیں، یہاں ایدھی فاؤنڈیشن ہے یہاں چھیپا ہے سیلانی اور بہت سی ایسی این جی اوز موجود ہیں جو بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں۔ مگر بچوں کی فلاح و بہبود نظر نہیں آتی۔
سگنل پر گاڑی رک جائے یا کھانے پینے کی جگہوں پر بچوں کی ایک فوج نظر آتی ہے جو گداگری جیسے پیشے سے منسلک ہے، یقینا یہ سارے بچے اپنی مرضی و رضا سے یہ کام نہیں کر رہے ۔ بہت سارے بچوں سے یہ کام زبردستی کروائے جاتے ہیں، یہ بے چارے ڈرے سہمے ایک ایسی مافیا کا رکن بن جاتے ہیں جس پر حکومت آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے، کہیں سے اغوا کیے بچے،کہیں سے اپنے گھر کو بھولے بچے اور اللہ جانے کس کس سطح پر غلیظ انداز میں ان معصوم بچوں کا استعمال، مگر سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کا کام عوام کی دولت ہی لوٹنا رہ گیا ہے یا پھر وہ اپنے فرائض بھی نبھائے گی؟
ریاست کا اولین فرض اور ذمے داری شہریوں کی زندگی کی حفاظت ان کے حقوق اور ان کی بنیادی ضروریات کا حصول مگر اس ملک کو ایسی اندھیر نگری بنایا جا رہا ہے کہ جہاں معصوم بچے بھی ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں کبھی قصور کا اسکینڈل کبھی اونٹوں کی سواری کے لیے بچوں کا اسکینڈل، کبھی گندی فلموں کے لیے بچوں کا استعمال، استغفراللہ۔
کیا ہم اتنے گرے ہوئے ہیں کہ چھوٹے بچوں کو ملازم رکھ کر ان پر گرم استریاں لگائیں، کھانے کے وقت ان کو دور بٹھا کر کھانا کھائیں، اپنے بچوں سے ان کو گالیاں دلوائیں، ظلم کی انتہا دیکھیے کہ چھوٹے بچوں سے لے کر بڑے تک قدم قدم پر شاپنگ سینٹرز ہو یا کھلے بازار ہوں، جس طرح ان کو ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے یہ ایک بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ایسا مسئلہ جس سے کہ آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں، ان اسٹریٹ چلڈرن کے مسئلے کو ایڈریس کرنا ہوگا اور آنے والی حکومتوں میں اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔
تعلیم کے ساتھ ہنر سکھانے کے ادارے بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں بنیادی تعلیم نہ صرف ہر شہری کے لیے حاصل کرنا ضروری رکھا جائے کم ازکم 5 کلاس تک تعلیم حاصل کرنا حکومتی سطح پر ہر شہری کو حاصل کرنا لازمی قرار دیا جائے چاہے وہ شہری ہو یا دیہاتی بالکل اسی طرح دین کی بنیادی تعلیم کلاس اسے شروع کی جائے قرآن پاک کا پڑھنا بالکل درسی کتابوں کی طرح کلاس اسے لازمی قرار دیا جائے، تمام اندرونی علاقہ جات میں بھرپور ذمے داریوں سے کام ہونا ضروری ہے۔
آنے والا ہر بچہ اس ملک کا مستقبل ہے اپنے حال اور مستقبل کو بہترین بنانا ہم سب پر لازم ہے۔ ایسے لوگ جو غیر قانونی بچوں کی اسمگلنگ یا پھر غیر قانونی طور پر کسی بھی شکل میں ملوث پائے جائیں ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے اور کسی بھی رعایت کے قابل نہ سمجھا جائے۔
فٹ پاتھ اسکول ہو یا ٹینٹ اسکول بجائے ان اسکولوں کو ختم کیا جائے ان اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے شوق اور لگن کو دیکھتے ہوئے گورنمنٹ کی سطح پر ان اسکولوں کو مناسب جگہ دی جائے اور جو لوگ ان بچوں پر دیانت داری سے کام کر رہے ہیں ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، بدقسمتی سے اس ملک میں لوگ اپنی خواہشات کو پروان چڑھانے کے لیے ایسے ایسے کردار اپنا لیتے ہیں جو بعد میں جب کھلتے ہیں تو افسوس صد افسوس ہی کہنا پڑتا ہے اور نہ جانے کتنے سیکڑوں لوگوں کا نقصان کر جاتے ہیں۔بالکل اسی طرح اگر کچھ این جی اوز یا کچھ گروپ ان بچوں کی فلاح کے کام میں مصروف ہیں تو ان لوگوں پر مکمل چیک رکھا جائے اور ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ان کو سہولیات دی جائیں۔
ریاست کی ایک اہم ذمے داری بے گھر بچوں کو اچھا حال اور مستقبل دینا نہ کہ ان کو تباہ و برباد کردیا جائے۔ ہم ایک ترقی پذیر ملک سہی مگر ملک دنیا کا ساتواں ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک ہے۔ ساتواں ایٹمی پاور والا اسلامی ملک، پھر اس ملک میں غلامانہ ذہن رکھنے والے حکمران کیسے بن جاتے ہیں۔
وزارتوں میں بیٹھ کر یہ لوگ کیسے زکوٰۃ خیرات بھی ہضم کر جاتے ہیں؟ اس ملک میں زلزلے ہوں یا سیلاب یا پھرکوئی بھی ناگہانی آفت، یکجہتی کے شاندار مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ پھر کیسے ہم روزانہ آتے جاتے انسانیت کی تذلیل ہوتے دیکھتے ہیں کیسے ان معصوم بچوں کو دن میں کئی بار اپنی گاڑیوں کے پیچھے دوڑتے دیکھتے ہیں، کبھی پھول بیچتے ہوئے،کبھی شیشے صاف کرتے ہوئے، کبھی اخبار بیچتے ہوئے، جوتے صاف کرتے ہوئے اور اسی طرح کے مختلف رول، گندے کپڑے پہنے یہ بچے دھوپ و پیاس میں بھی جانوروں کی طرح دوڑے جا رہے ہیں، اتنی انسانیت کی تذلیل کیا یہ ریاست کی ذمے داری نہیں کہ وہ ان تمام بچوں کے لیے ادارے بنائے، ان کے رہنے، کھانے پینے اور تعلیم کا انتظام کرے۔
وہ مساجد جہاں مدرسے بھی قائم ہیں اور کلاس اول سے لے کر بڑی کلاسوں تک کے طالب علم تعلیم حاصل کرتے ہیں انھی مساجد کے باہر نمازوں کے وقت اور خاص طور پر جمعے کی نماز کے وقت کثیر تعداد میں چھوٹے بچے گداگروں کی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔
ہم سب کو ایک عام شہری سے لے کر سیٹ پر بیٹھے ہوئے وزیر سمیت سوچنا ہوگا کہ اسٹریٹ چلڈرن کیوں ہیں؟ کس طرح اس سنگین مسئلے کو حل کیا جائے، کس طرح ان کو بنیادی تعلیم اورکوئی ہنر سکھایا جائے کہ یہ بچے بھی اپنی ضرورتوں کے لیے خودکفیل ہوسکیں۔ بے گھر والے یہ معصوم بچے نہ جانے کتنے کتنے اذیت ناک لمحوں سے گزرتے ہیں۔ سوچیے اور محسوس کیجیے ان کے دکھ کو ان کے احساسات کو، اور اللہ پاک کے اصول کو اللہ کے احکامات کی پیروی کیجیے۔
رسول پاکؐ نے ایک بہترین معاشرہ اور بہترین انسان بننے کے طور طریقے سکھا دیے ہیں جوکہ بہت آسان اور سہل ہیں، مگر ہم ایسا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں جو جانوروں سے بھی زیادہ بدتر ہے، اپنے ہی طور طریقے سے ایسی روایات ڈال رہے ہیں جو آگے جاکر ہم سب کے لیے نقصان دہ ہے اسٹریٹ چلڈرن میں اضافہ ہماری بے حسی کی شاندار مثال ہے۔
ان معصوم بے گھر بچوں کوکبھی نشے کا عادی بنایا جاتا ہے، کبھی ان کے جسموں سے خون نکالا جاتا ہے کبھی ان کے جسم کے اعضا بیچے جاتے ہیں اور لکھ پتی بنا جاتا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ میڈیا کے اس پاور فل دور میں بھی یہ بچے بری طرح استعمال ہو رہے ہیں، مزاروں کے باہر، اسپتالوں کے باہر، مساجد کے باہر گوکہ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں یہ نہ ہوں۔ کھانے پینے کی شدید قلت، ناکافی علاج معالجہ ان اسٹریٹ چلڈرن کی تعداد دن بہ دن بڑھا رہا ہے۔
اسٹریٹ چلڈرن بہت آسانی سے کرپٹ لوگوں کا آلہ کار بن جاتے ہیں ان کو زور زبردستی سے برے کام کروائے جاسکتے ہیں حکومتی سطح پر بیدار ہونے کا مقام ہے کہ پورے ملک میں ایسے مردہ ضمیر لوگوں کو پکڑا جائے اور انھیں سزائے عبرت دی جائے جو اس قوم کے معصوم بچوں کے حال و مستقبل سے کھیل رہے ہیں ان کے لیے شیلٹر، کھانے پینے کا انتظام، صفائی، ہنر، تعلیم گوکہ کسی بھی سطح سے شروع کی جائے مگر کی جائے۔
ہماری دیہی خواتین کو بھی بچوں کے بارے میں تعلیم سے آگاہ کیا جائے، جس طرح پولیو کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کئی سالوں سے اقدامات ہو رہے ہیں بالکل اسی طرح اسٹریٹ چلڈرن کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں، ان بچوں کو معاشرے کا کارآمد شہری بنایا جائے نہ کہ پھپھوند لگی لکڑی کی طرح ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی طور طریقے والے آئین والے ملک میں اگر بچوں کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ ہو اور حکومت خاموش تماشائی بن جائے تو کہاں کا اسلامی ملک اور کہاں کا اسلامی آئین۔