انتخابات اور ملک کو درپیش بیرونی خطرات
اِس ملک کے اصل مالکوں اور مقتدر حلقوں نے اگلے انتخابات کا منظر نامہ پہلے سے تیار کر لیا ہے۔
یہ بات بڑے وثوق سے اور ٹھوس بنیادوں پہ کی جاسکتی ہے کہ اگر ہمارا ملک پاناما لیکس اور اُس کے بعد ہونے والے واقعات کی زد میں نہ آیا ہوتا تو ہماری معاشی اور اقتصادی صورتحال اتنے گمبھیر اعدادوشمار پیش نہیں کررہی ہوتی جتنے وہ ابھی پیش کررہی ہے۔ ہمارے خزانوں میں اِس وقت محض دو ماہ کی ادائیگیوں کے لیے پیسہ باقی رہ گیا ہے، اگر ہنگامی بنیادوں پر کوئی انتظام نہیں کیا گیا تو ہم بین الاقوامی طور پر دیوالیہ قرار دیے جاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقتصادی ماہرین آنے والی نئی حکومت کے لیے ابھی سے شدید خطرات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
نئی حکومت کے پاس کشکول لے کر عالمی مالیاتی اداروں کے پاس جانے کے سوا اورکوئی راستہ باقی دکھائی نہیں دے رہا اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ مالیاتی ادارے اب ہمیں نرم اور آسان شرائط پر قرضے دینے کے لیے راضی نہیں ہونگے۔ وہ ہماری مجبوریوں سے مکمل فائدہ اُٹھاتے ہوئے اتنی سخت شرائط پر نئے قرضے دیں گے کہ عوام چلا اٹھیں گے۔
قوم اِس وقت الیکشن کے ہنگاموں میں مگن ہے۔ اُسے اپنے گرد بڑھتے ہوئے خطرات کا احساس اور ادراک ہی نہیں ہے۔ دو سال پہلے ملک کے حالات اتنے خراب نہیں تھے۔ بلکہ ایک روشن اور بہترمستقبل ہماری راہیں تک رہا تھا۔ مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے بادل چھٹ چکے تھے۔ قوم زوال و پستی کی گہرائیوں سے نکل کر عروج و بلندی کی جانب دیکھ رہی تھی۔ سی پیک اور اُس سے منسلک منصوبے ہماری ترقی وخوشحالی کی نوید سنا رہے تھے۔
توانائی کا بحران بھی کسی حد تک حل ہوچکا تھا۔ ملک بھر سے دہشتگردوں کا نیٹ ورک ختم کرکے امن و امان قائم کردیا گیا تھا۔ کراچی کی رونقیں بھی بحال کردی گئیں تھی۔ اسٹاک مارکیٹ دنیا کی چند ایک کامیاب مارکیٹوں میں شمار ہونے لگی تھی۔زرمبادلہ کے ذخائر بھی تیزی سے بڑھ رہے تھے، مگر پھر اچانک ساری صورتحال بدل گئی۔ اِن ساری کامیابیوں کو رِیورس گیئر لگ گیا۔قوم ایک بار پھر انحطاط پذیری کے جانب بڑھنے لگی۔ معیشت ہچکولے کھانے لگی۔روپیہ گراوٹ کاشکار ہونے لگا۔
زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے لگے۔ ملکوں کی معاشی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے عالمی ادارے تنبیہ کرنے لگے۔ اُن کی جانب سے مقررکردہ ہمارا معاشی رینک استحکام کی بجائے منفی ہونے لگا۔ یہ سب کچھ بلاسوچے سمجھے اچانک یونہی نہیں ہوگیا۔ اِس کے پیچھے ملکی اور غیر ملکی سازشیں کارفرما ہیں۔
پاناما کیس میں صرف ایک نوازشریف ہی ملزم نہیں تھا۔بلکہ یہ کہاجائے تو قطعا غلط نہیں ہوگا کہ پاناما لیکس میں میاں صاحب کا تو نام ہی نہیں تھا۔ہاں البتہ اُن کے بیٹوں کانام ضرور شامل تھا، لیکن ہمارے دیگر جن 480 لوگوں کانام اُس میں شامل تھااُن میں سے کسی کے خلاف بھی ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کہ گئی۔ بس ایک میاں نواز شریف کو اقتدار سے قبل از وقت معزول کرکے اُن کے خلاف مقدمات کی بھر مار کردی گئی۔معزولی کا فیصلہ پہلے سنادیا گیا اور مقدمات بعد میں شروع کیے گئے۔جن کی سماعت ہنوز جاری ہے۔
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب کسی ملک میں اچھی بھلی چلتی ہوئی حکومت کو اچانک معزول یاچلتا کر دیا جائے تو وہاں پھر سیاسی استحکام ہرگزباقی نہیں رہتا۔ ملکی نظام پر لوگوں کا اعتماد مجروح اور متزلزل ہو جاتا ہے۔ سرمایہ دار اور بزنس مین مایوس ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب کے جاتے ہی ہماری معیشت نے بھی کامیابی کا اپنا سفر روک لیا۔مرکز میں گرچہ اُنکی پارٹی کی حکومت ہی قائم رہی لیکن لوگوں کے دلوں سے وسوسے اور خوف کے سائے ختم نہ ہوسکے۔ سی پیک کا منصوبہ بھی اپنی رفتار قائم نہ رکھ سکا۔
چینی حکومت نے اُن منصوبوں کے لیے جس حکومت سے بات چیت اور معاہدے کیے تھے جب وہی اپنا وجود قائم نہ رکھ سکی تو پھروہ بھلا کس پر اعتبار کریں۔ جس ملک میں سیاسی استحکام نہ ہووہاں غیر ملکی سرمایہ کاری ممکن نہیں نہ کوئی بھی بڑا منصوبہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ معاشی خوشحالی محض اِک خوابِ ہی کا درجہ رکھتی ہے۔ ہمارے یہاں ستر سال سے یہی کچھ ہوتا آیاہے۔ یہاں کبھی بھی سیاسی استحکام ہونے ہی نہیں دیا گیا ۔جب کبھی اِسکے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں کوئی سازش اور کوئی انہونی اپنا کام دکھا جاتی ہے۔
دو سال پہلے ہم ایسی ہی کامیابیوں کی اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ ملک تیزی سے ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن تھا۔ تمام سیاسی تجزیہ نگار اور ماہرین نواز حکومت کی پالیسیوں کے معترف تھے۔ وہ اُسے اگلے 5سال بھی حکومت کرتا دیکھ رہے تھے۔ تمام ملکی و غیر ملکی سروے یہی عندیہ دے رہے تھے مگرپھر کرشمہ سازوں نے سارا منظر نامہ ہی پلٹ کررکھ دیا۔ نواز شریف کو زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دیا جاچکا ہے۔اُنکی جماعت دو تہائی اکثریت توکجا سادہ اکثریت حاصل کرنے کی بھی قابل اور اہل نہیں رہی۔
اِس ملک کے اصل مالکوں اور مقتدر حلقوں نے اگلے انتخابات کا منظر نامہ پہلے سے تیار کر لیا ہے۔25جولائی کو پولنگ کروانے کا سارا کھیل اورڈرامہ بس یونہی ازراہ جمہوریت کھیلا جائے گا۔ حکومت صرف اُس غیر معروف گروہ یاگروپ کو دی جائے گی جس کے بارے میںابھی کوئی وہم و گمان بھی نہیں کر رہا۔
ہمارے لیے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے کہ دنیا پر اپنی چوہدراہٹ قائم کرنیوالی عالمی قوتوں کوایک اسلامی ملک کی ترقی وخوشحالی، کسی طورگوارہ نہیں۔ اُنہیں ہمارا ایٹمی قوت بن جانا ہی ابھی تک ہضم نہیں ہوپایا تھا کہ ہم نے سی پیک منصوبے جیسے عظیم منصوبے سے خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کی داغ بیل ڈال دی۔دنیا اِس منصوبے سے قطعاً خوش نہیں ہے۔ وہ اِسے سبوتاژکرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہے۔ وہ اِسے روکنے کے لیے ہر قسم کا ہتھکنڈہ استعمال کرنے کے درپے ہے۔
پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ بھی اُنکی ایسی ہی کاوشوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کا وہ بیان بھی اپنے اندر چھپے ایسے ہی رازوں کی چغلی کھاتا ہے کہ وطن عزیزکو آنے والے دنوں میں شدید بیرونی خطرات لاحق ہیں جنکی خبر اور علمیت اِس ملک کی صرف تین شْخصیات کو معلوم ہے۔
ایک آرمی چیف، دوسرے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور تیسرے بحیثیت وزیرداخلہ وہ خود ہیں۔اُنہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں قوم کو گرچہ آنیوالے خطرات سے آگاہ توکردیا لیکن نجانے کیوں کھل کر اُس پر لب کشائی سے گریزاں ہیں۔ بہتر ہوتا کہ انھیں اگر اِن غیر ملکی سازشوں کے بارے میں کچھ پتہ ہے تووہ آرمی چیف کو اعتماد میں لے کر قوم کے سامنے رکھ دیتے۔ایسا نہ ہوکہ پھر کوئی بڑا سانحہ ''سقوط ڈھاکا'' کی مانند ہو جائے اور قوم کو بروقت اُسکا علم ہی نہ ہو۔
پاکستان کے خلاف ممکنہ غیر ملکی سازشوں کی بُو تو ہمیں یو این او میں جنوبی ایشیا کے لیے نامزد امریکی ایمبیسڈر مسز ہیری نکّی کے اُس بیان سے بھی آرہی ہے جس میں اُنہوں نے بھارت کو ایک طرف ایران کے ساتھ چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے وہاں کچھ اہم معاملات پر خیال آرائی جولائی کے مہینے کے اختتام تک موخرکردی ہے۔اُن کے خیال میں جولائی کے مہینے میںجنوبی ایشیا کے اِس خطے میں کوئی بہت بڑی تبدیلی یا کوئی بہت اہم واقعہ ہونے جارہا ہے۔وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئیں کہ شاید زیادہ واضح باتیں کرنے سے یہ خفیہ منصوبہ کہیں طشت ازبام نہ ہوجائے۔
جولائی کے اِس مہینے میں ہمارے اندازے کے مطابق صرف پاکستان میں آنے والی نئی حکومت کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔ مسز ہیری نکّی کے اِس بیان سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے الیکشن کے نتائج عالمی طاقتوں کے لیے کتنی اہمیت کے حامل ہیں۔امریکا اور اُس کے حواری قطعاً یہ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان میں پھرکوئی ایسی حکومت آئے جو اُسے ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن کرے۔