احساس کمتری کا بخار
بھارتی حکومت کا رویہ سربجیت کے لیے اسی لیے اتنا شدید تھا کہ وہ ان کا اپنا ایجنٹ تھا۔
زندگی میں ایسا کئی بار ہوتا ہے کہ بہت کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ کیوں؟ کیوں کی گردان ابھرتی رہتی ہے لیکن اس کا جواب نہیں ملتا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا بنگلہ دیش میں ان کے یوم آزادی کی تقریب میں اعزازات وصول کرنے پاکستان سے بھی کچھ بڑی ہستیاں گئیں جہاں بہت محبت اور خلوص سے انھیں اعزازات سے نوازا گیا۔
اگر کوئی اور موقع ہوتا یا اعزازات کسی اور طرح کے ہوتے تو شاید کیوں کیوں کی گردان نہ ابھرتی، نظروں سے دیکھنے والے الجھنوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ ہم ہی غلط ہوں لیکن پھر بھی بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی تلخیاں وقت کے ساتھ بھی کم نہیں ہوتیں جیسے مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستان سے الگ ہونا۔ یہ بھی درست ہے کہ آج کا پاکستان جن اذیتوں، تکلیفوں اور مصائب کا شکار ہے اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی صورت حال معاشی اور امن و امان کے لحاظ سے بہت بہتر ہے، صرف یہی نہیں انعام وصول کرنے کے بعد گزرے ہوئے وقت کی معافی مانگنا ایک اور احساس جرم میں اضافہ کرتا ہے، ویسے ہی پاکستان احساس جرم اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھی بھگت رہا ہے لیکن شاید یہ ہماری قوم کا وطیرہ بن گیا ہے کہ غیروں کی ذرا سی تھپتھپاہٹ سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ اپنے ہی خلاف بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔
ذرا اپنے اردگرد نظر ڈالیے، بھارت کی ہی مثال لیں، سربجیت سنگھ کے مسئلے پر اتنا شدید ردعمل ابھر رہا ہے جیسے سربجیت سنگھ ایک جاسوس دہشت گرد نہیں بلکہ بھارت کا سفارتی نمایندہ ہو یہاں تک کہ سربجیت سنگھ کی رہائی کے لیے کچھ عرصہ پہلے ہی بھارت کے فلمی ستارے سلمان خان تک نے اس کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان سے درخواست کی تھی، جب ایک دہشت گرد اور جاسوس کے لیے بھارت کی عوام اور حکومت کا یہ رویہ ہے تو دوسرے معاملوں میں ان کی انتہاپسندی کس حد تک جانبدار ہوسکتی ہے اس کا ہمیں بخوبی احساس ہے لیکن اس احساس کمتری کا کیا کریں جو ہمارا قومی رویہ بنتا جارہا ہے۔
2008 میں بھی بم دھماکوں اور دہشت گردی کے حوالے سے ایک نوجوان اجمل قصاب کا نام پاکستان سے لے کر بھارتی میڈیا میں اتنا اچھلا جیسے پاکستانی حکومت نے اجمل قصاب کو بندوق تھما کر بھارتی سرحد پر دھکیلا تھا، اس کہانی کو جس انداز سے بھارتی نیوز چینلز نے بُنا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ بھارتی حکومت نے پاکستانی حکومت پر اس طرح دباؤ ڈالا اور ساتھ دوسرے ممالک کو بھی اپنا ہمنوا بنایا، پاکستانی حکومت جس ہڑبونگ کا شکار ہوئی یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے جماعت الدعوۃ پر پابندی عائد کردی، یوں بھارت کچھ اور پھول گیا۔
صرف یہی نہیں سلامتی کونسل کے ذریعے پاکستانی تنظیموں لشکرطیبہ، جماعت الدعوۃ، الرشید ٹرسٹ اور الاختر ٹرسٹ پر پابندی لگوادی، ان جماعتوں کے دفاتر سیل کردیے گئے، سیکڑوں افراد گرفتار ہوئے۔ پاکستان نے بھارت کو اور دنیا کو خوش کرنے کے لیے اپنے ہی لوگ دھڑا دھڑ گرفتار کیے، ایسے لوگوں میں وہ بھی شامل تھے جو بے چارے صرف عوام کی خدمت کر رہے تھے یہاں تک کہ جن دہشت گردوں کی فہرست جلدی جلدی میں تیار کروائی گئی اس میں ایک صاحب برسوں پہلے انتقال کرچکے تھے۔
یہ سب کچھ ایسے ہوا کہ جیسے ممبئی پر پاکستان نے حقیقتاً حملہ کردیا ہو اور اب وہ تاوان کے طور پر جو کچھ کہا جارہا تھا سر جھکائے سب پر عمل کر رہا تھا۔ شرمندگی کا ایک طوفان تھا جو پاکستانی قوم کو نگلے جارہا تھا، ہمارے چینل والے اس چھوٹے گاؤں تک پہنچ گئے جہاں اجمل قصاب رہا کرتا تھا، نجانے اس کے والدین کہاں روپوش ہوئے بعد میں تفتیش کے دوران اجمل قصاب نے خود اقرار کیا تھا کہ اس نے ایک جماعتی تنظیم کو جوائن کیا تھا جہاں اسے دہشت گردی کی تربیت دی گئی تھی لیکن پھر بھی سارا نزلہ حکومت پر گرا اور جس طرح بندوق کی نوک پر پاکستان سے کام کروائے گئے، اس سے پوری قوم ٹینشن میں مبتلا ہوگئی تھی۔
جب کہ سربجیت سنگھ کے معاملے میں صورت حال یہ ہے کہ موصوف 1991 میں پکڑے گئے اور سزائے موت کی اپیلیں مسترد ہونے کے باوجود تاحال کوٹ لکھپت جیل میں تھے، حالانکہ اس کا جرم قابل معافی تو نہ تھا کتنے معصوم لوگوں کا خون اس کی گردن پر ہے لیکن پھر وہی احساس کمتری یا عالم عامہ کی نظروں میں اپنا قد بلند کرنے کے لیے ہمارے ویلفیئر ٹرسٹ اور وکیل سربجیت سنگھ کی حمایت اس طرح کر رہے تھے کہ جیسے وہ معصوم دودھ کا دھلا ہو۔ کوئی پوچھے ان وکیل صاحب سے کہ انگلستان کی سرزمین پر رہتے رہتے کیا اپنی قوم کے خون کی قدر اسی قدر کم ہوگئی؟ بہرحال ہمارے حکام بالا کو دیکھیے سربجیت سنگھ کی بہن اور بیٹیوں کے لیے فوری طور پر ویزوں کا بندوبست کیا گیا، ان کو بھرپور کوریج دی گئی۔
21 نومبر 2012 کی صبح ساڑھے سات بجے اجمل قصاب کو پونا میں یروادا جیل میں پھانسی کی سزا دے دی گئی اور اسی روز ساڑھے نو بجے اسے دفن کرکے اس کی کہانی ختم کردی گئی، چار سال اس کے ٹرائلز چلے اور فوراً پھانسی کا حکم صادر کرکے سزا سنادی گئی۔ پھر سربجیت کو اتنے برسوں معافی کی اپیلیں مسترد ہونے کے باوجود کیوں سزائے موت نہیں دی گئی تھی؟ کیا پاکستانی حکومت کو بھارتی حکومت سے خوف تھا یا عالمی جانب سے اس پر کوئی دباؤ تھا؟ کیا اجمل قصاب اور سربجیت سنگھ دہشت گرد نہ تھے؟ جب کہ سربجیت تو جاسوس بھی ثابت ہوا تھا۔ اگر سربجیت کو پھانسی دے دی جاتی تو پاکستانی جیل میں اس پر حملہ اور بعد ازاں ہلاکت کا واقعہ نہ ہوتا۔
بھارتی حکومت کا رویہ سربجیت کے لیے اسی لیے اتنا شدید تھا کہ وہ ان کا اپنا ایجنٹ تھا۔ ان کے لیے خدمات انجام دیتے گرفتار ہوا تھا جب کہ دسمبر 2001 بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کے الزام میں پکڑے جانے والے کشمیری افضل گورو کو بھی 9 فروری 2013 کو پھانسی دے دی گئی۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں پھانسی کی سزا پر عمل ہونا حیران کن بات ہے لیکن جس طرح اجمل قصاب اور پھر افضل گورو کو بھی نہ بخشا گیا ظاہر کرتا ہے کہ وہ وہی کرتے ہیں جو چاہتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں وہی ہوتا ہے جو دوسرے چاہتے ہیں، ہماری کیا خواہشات کیا احساسات ہیں اس کی ہمیں قطعاً پرواہ نہیں ہوتی، شاید اس لیے ہمارا ملک دہشت گردی کی آگ میں ڈوبتا جارہا ہے کیونکہ ہم نے اپنی لگامیں دوسروں کے ہاتھ تھمادی ہیں اسے ہماری نااہلی کہہ لیں یا خوف۔
نیا پاکستان بنانے کی باتیں ہورہی ہیں، انقلاب کی باتیں ہورہی ہیں، پاکستان کی ترقی کی باتیں ہورہی ہیں۔ دعا ہے کہ جو بھی حکومت آئے تو بہت اچھا کام کرے، پاکستان کو اس مقام تک پہنچائے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے تنزلی کا سفر قائداعظم کی وفات کے بعد شروع کیا تھا لیکن یقین جانیے پاکستان کی پیدائش کے وقت ہی بہت سے ناسور اس کی جڑوں سے چمٹ گئے تھے، ایسے ناسور اپنی غرض کے غلام تھے۔
پاکستان کی ریاست ان کے لیے ایک نئی جاگیر کی مانند تھی، وہ ناسور پلتے پلتے مشرقی پاکستان کی سرحدوں سے ایسا لپٹا کہ اسے لے اڑا۔ تب سے لے کر اب تک دشمنوں کی نظریں پاکستان کی سلامتی کی جانب ہیں، اسے کس طرح کس انداز سے کس جانب سے پریشر ڈالا جائے، اپنی بڑی ریاست کا رعب ڈالا جائے، دنیا کی نظروں میں اسے کیسے گرایا جائے تاکہ کشمیر کے مسئلے پر ہم لب نہ کھول سکیں اور ایسا ہورہا ہے کشمیر کے مسئلے کو تو چھوڑیے ہمارے پانیوں پر بھی بند باندھ دیے گئے ہیں۔اب اور کیا کیا دیکھیں گی یہ آنکھیں دیکھنا۔