میسکوٹ
ان میسکوٹ کے کھلاڑیوں نے چاہے وہ سندھ میں ہوں یا پنجاب میں عوام کو قرض کا غلام بنادیا ہے۔
میسکوٹ کا لفظ پہلے پہل گھر میں ہی سننے میں آیا جہاں عورتیں آہستہ آہستہ آپس میں گفتگو کر رہی ہوتی تھیں تو کوئی باہر سے آنیوالا مرد یا عورت ان کو دیکھ کر کہتا تھا ''کیا میسکوٹ چل رہی ہے'' اور پھر جب اسکول کالج کا زمانہ آیا تو یہ لفظ عام طور پر سننے میں آنے لگا اس زمانے میں اساتذہ نہ نقل کرواتے تھے نہ طلبا کے ساتھ سگریٹ نوشی کرتے تھے نہ طلبا سے مار کھاتے تھے معاملہ اس کے برعکس تھا لہٰذا طلبا میں ان کے بارے میں ''میسکوٹ'' چلتی رہتی تھی۔
کسی مزاحیہ شعر کہنے والے نے اس لفظ کو باندھا شعر میں یا نہیں مجھے علم نہیں مگر کہانیوں، افسانوں میں اس کا استعمال ہے۔ یہ لفظ ہے ہی بڑا دلچسپ، اس کے تصور سے آپ کم از کم دو افراد کو سر جوڑے صلاح مشورہ کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں اور تصور میں ہی آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ضرور کوئی ایسی بات ہے جو زور سے یا کھل کر نہیں کہی جاسکتی۔
شاعرانہ ''چشمک'' کے تحت ایک شاعر کے کلام پڑھنے کے دوران پشت پر آپ ''میسکوٹ'' دیکھ سکتے ہیں اس کا موضوع شعر پڑھنے والے شاعر کا ''نا اہل'' ہونا بھی ہوسکتا ہے یا اشعار کا یا خیال کا ''سرقہ'' بھی۔ یہ نئی روایت نہیں۔محل سراؤں اور درباروں سے چلی آرہی ہے۔ ریڈیو سے پہلے شاعری بالا خانوں یا محل سراؤں سے ہی معروف ہوتی تھی۔ اب تو خیر ہزار راستے ہیں، سیاست کی طرح اپنا دیوان خود چھاپو خود خریدلو (سیاست دانوں سے معذرت کے ساتھ کہ ان سے اچھی خرید و فروخت بے چارے شاعر نہیں کرسکتے۔)
کسی بھی قسم کا اجتماع ہو ''میسکوٹ'' مردوں میں اگر زن بھی ہیں تو ان میں بھی آپ کو نظر آجائے گی بلکہ عورتوں میں زیادہ کہ یہ وصف ہے ہی ''زنانہ'' مرد تو با آواز بلند بات کرتے بولتے دیکھے گئے ہیں، چاہے سپریم کورٹ کے باہر جھوٹ ہی بولنا ہو اور ضمیر کو سلاکر غلط کو صحیح کہنا ہو یہ فیصلے بھی باقی ہیں کہ کون بولا کیوں بولا کیا بولا؟
تو ''میسکوٹ'' ہمارے معاشرے میں مروجہ ہے اور ہم اس کو بھی ایک معاشرتی چیز سمجھتے ہیں جس طرح دروغ گوئی، کینہ پروری ہمارے معاشرے میں ''ہنر'' کا درجہ پاچکے ہیں اور سیدھے سادے عوام اس ''آئس ہیروئن) کے عادی ہوچکے ہیں وہاں اس میسکوٹ نے بھی جگہ بنالی ہے اور اب تو اس کے نتیجے میں کئی سابق ''شیر، تیر، بلے، کتاب، پتنگ'' آزاد کہلاکر انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں حالانکہ آزاد نہیں یہ وقت ثابت کردے گا۔
اس بار کے الیکشن میں میسکوٹ کا بہت حصہ ہے ایم کیو ایم میسکوٹ کا شکار ہوئی تھی، بندے کا نام سب جانتے ہیں جس پر اختلاف ہوا اس نے بہت طویل میسکوٹ کے بعد وہاں جگہ بنائی مگر پرانے ماننے سے انکاری ہوگئے۔ لندن کی نقل بھی کام نہ آئی، امی اور بیگم کا سلسلہ بھی نہ چلا یہ اس وقت کی بات ہے آج اﷲ کرے حال ٹھیک ہو۔زرداری بلاول میسکوٹ بھی کدھر جائے گی اﷲ جانے مگر بلاول کے ضایع ہونے کا افسوس ہے۔ وہ خود اگر ذاتی جد وجہد کرتے، سونے کا نوالہ اور چاندی کے جوتے چھوڑ دیتے تو پورے پاکستان میں ایک بار پھر بینظیر کی آواز گونجتی اب آواز تو وہ لگتی ہے مگر ساؤنڈ بکس زرداری ہے اور یہ بات عوام سمجھ گئے ہیں۔ جیت بھی جائیں تو وہ بات نہیں ہوگی گھر میں تو سب ہی جیت جاتے ہیں مزا تو تب ہوتا کہ غنیم کے قلب میں جیت کر دکھاتے۔ نوابشاہ، لاڑکانہ، لیاری یہ کوئی جیت نہیں ہوگی یہ تو سب کو پتہ ہے کہ کس کے اکثریتی علاقے ہیں اور کون جیتے گا۔
الیکشن سے پہلے ہی ہم نتائج کی طرف چلے گئے واپس آتے ہیں۔ میسکوٹ کی طرف تو بچپن جوانی کے ساتھ ساتھ کھیلوں کا عروج ہوا اور فٹ بال میں میسکوٹ ایک گڈے کی شکل میں آیا جو کسی ٹیم کی جرسی پہنے اس کی حوصلہ افزائی کرتا اور ادھر ادھر گراؤنڈ میں گھوم کر عوام کو کھیل کی طرف متوجہ رکھتا ہے تاکہ وہ اپنی میسکوٹ نہ کرسکیں جو وہ اس کے باوجود کرتے ہیں۔
پھر کرکٹ میں بھی ہر ''PL'' میں میسکوٹ موجود ہے یہ ایک معاوضے پر کام کرنے والا ہوتا ہے جو یہ لباس پہنتا ہے اور یہ میسکوٹ ہماری سیاسی دس سالہ تاریخ میں تین ہیں۔ ایک میسکوٹ ذرا سا ادھورا ہے وہ ہیں یوسف رضا گیلانی جو آصف زرداری کے خلاف خط نہ لکھنے کی پاداش میں سپریم کورٹ کے حکم پر میسکوٹ بن گئے اور پھر آصف زرداری نے اپنا دوسرا میسکوٹ پرویز اشرف اتار دیا گراؤنڈ میں۔
ان سیاسی شعبدہ گروں کے اس میسکوٹ سسٹم کو عوام کو سمجھنا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے نا اہل کیا تو ایک میسکوٹ کی تلاش ہوئی بھائی نے پیشکش کی مگر بھائی کو یہ موقع نہیں دیا بھروسا نہیں ہوتا سیاست میں اور دونوں سیاسی بھائی بھی ہیں تو عباسی میسکوٹ نے یہ کام پورا کیا الیکشن ری پلے ملزمان کے نام ECL میں نہیں ڈالے مگر میسکوٹ بچ گیا۔
چکر چلاکر سینیٹ اور قومی اسمبلی سے خود کو صدارت کا اہل کرواکر بیٹھے ہی تھے کہ کورٹ نے کرسی سے اٹھادیا۔ اب ایک اور میسکوٹ کی ضرورت پیش آئی اور یہاں چالاکی سے بھائی شہباز کو حقیقی میسکوٹ بنادیا اور آپ الطاف حسین ثانی بن گئے ''گھریلو لیگ'' کے نثار کو نثار کرکے مریم کا بول بالا کر لیا۔ اب سارے فیصلے نا اہل ہی کررہے ہیں ''صدارتی میسکوٹ'' کے تلے کہ وہ کرسی پر رکھا ''گڈا'' ہے اور کچھ نہیں مگر لوگ سمجھ رہے ہیں دیکھ رہے ہیں بڑا صوبہ اب سیاسی طور پر بڑا اپنا نہیں رہا، پرندے اڑ گئے نئے آب و دانہ کے لیے دوسروں نے لوگوں کے ذہن کھول دیے ہیں لوگوں کے بڑے حصے اور علاقے کو آج تک کچھ نہیں ملا یہ تو جاتی امرا بناکر بیٹھ گئے۔
ان میسکوٹ کے کھلاڑیوں نے چاہے وہ سندھ میں ہوں یا پنجاب میں عوام کو قرض کا غلام بنادیا ہے ناقابل معافی جرائم ہیں ان کے عوام کو اپنا انتقام لینا چاہیے ووٹ کی صورت۔
پختونخوا اور بلوچستان کا حال معلوم ہے افغانیوں کے ہمدرد وہاں ہیں جن کی ہمدردیاں پاکستان سے نہیں ہیں، افغانستان کا دم بھرتے ہیں، روٹی پاکستان کی کھاتے ہیں اور یہ سلسلہ بزرگوں سے چلا آرہاہے۔ پی ٹی آئی نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا ہے لوگ اب ان کی بات نہیں سنتے۔
فاٹا کا کردار آیندہ اہم ہوگا یہ اس کو بھی غلام رکھنا چاہتے ہیں انگریز آقاؤں کی طرح مگر ان لوگوں نے جدوجہد کرکے حقوق حاصل کرلیے تو دوستو پاکستانیو! میسکوٹوں والوں پر نظر رکھو، ان کی کارکردگی جو گھر تک ہے اس پر نظر رکھو سوچو سمجھو یہ ملک آپکے ووٹ کی ضرب سے سیاسی دہشتگردی سے آزادی چاہتا ہے یہ نازک موقع ہے ملک خطرے میں ہے سیاسی خطرات منڈلارہے ہیں آپکی غلطی آپ کے بچوں کا اور ملک کا مستقبل تاریک کردے گی۔
ہوشیار باش، وقت کم ہے اور راستہ تنگ دیکھ بھال کر سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو۔