بکاؤ ہیں یہاں بہت خریدار نہیں ہے
ایسے ہی مواقع پر ہمارے ایک بزرگ کہا کرتے تھے کہ کاش ’’شرم‘‘ کوئی کتا ہوتا تو ایسے لوگوں کے پیچھے لگا دیتا۔
اور یہ بالکل سچ ہے کہ آج کل مصر کا بازار جو بمقام پاکستان لگ رہا ہے کھمب کا میلہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں بہت سارے بھائی ایک دوسرے سے اور ماں باپ سے ''بچھڑ'' بھی جائیں گے اور بچھڑے ہوئے اپنے ''سگے'' ماں باپ یا بہن بھائیوں سے ''مل'' بھی جائیں گے اور ویسے ہی اس مصر کے بازار میں بہت سارے ''یوسف'' بھی ادھر ادھر یعنی خرید و فروخت ہو جائیں گے۔ جب کہ عوام کی بڑھیا اپنی سوت کی انٹی لیے ویسے ہی بھٹکتی رہ جائے گی جٍیسے پہلے تھی اور سوت کی یہ انٹی لیے ہوئے ستر سال کی بوڑھی ہو گئی۔
ہم نہ تو یوسف ہیں نہ خریدار اس لیے صرف ''سیر'' ہی کریں گے اور سیر ہی کر کے جائیں گے زیادہ سے زیادہ ہو سکتا ہے کہ وہ ''چادر'' گم کر دیں جس کے لیے یہ سارے میلے ٹھیلے ہو رہے ہیں۔ جہاں تک خرید و فروخت کی بات ہے تو ہمیں ایک انڈین فلم کا مکالمہ یاد آرہا ہے۔ ہیرو کو ایک مالدار حسینہ کی گاڑی سے ٹکر لگتی ہے تو وہ ہیروئن کے ساتھ مکالمہ بازی کرتا ہے۔ تم امیر لوگ سمجھتے ہو کہ تم کچھ بھی کرو اور پیسے دے کر بچتے رہو گے تمہارا خیال ہے کہ تم اپنے پیسے سے سب کچھ کر سکتے ہو سب کچھ خرید سکتے ہو کسی کی بھی قیمت لگا کر خرید لوگے؟ تو نکالو نا پرس۔
بہت ساری اپنے کمالات سے کمائی ہوئی دولت بھی ہے، حاجی ابن حاجی ابن حاجی بھی ہیں جس کا قافیہ ''پاجی'' سے بھی ملتا ہے اور ''گرگٹ''کے سارے رنگ بھی لیکن اس مرتبہ شاید خریدار بھی سمجھ چکے ہیں کہ یہ چلتر باز کبوتر ہے سو بار بھی خریدو تو ایک دن اڑ کر ضرور کسی اور کوٹھے پر اترے گا ہزار بار بھی ملو تو آشنا نہ لگے۔
بیچارے پچھلے دنوں اپنی گزشتہ پارٹی کو دوسری مرتبہ داغ مفارقت دے کر ایک اور پارٹی میں تیسری مرتبہ شامل ہوئے لیکن صرف چند روز کے بعد پتہ چلا کہ ٹکٹ تو ملنے والا ہے نہیں اور بغیر ٹکٹ وہ ''سفر'' کرکے ''صفر'' ہونے کو تیار نہیں، چاہے گاڑی تیزگام ہی کیوں نہ ہو۔ ادھر خریدار بھی سارے ختم ہو چکے تھے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ بکنے والے بے کارواں ہو کر رہ جائیں اور اتنے بڑے میلے میں کوئی خریدار ہی نہ ملے۔
اس موقع پر آپ کی حیرت بھی بجا اور ہماری بھی کہ کیا کسی ڈاکٹر نے اس کو کہا ہے کہ ضرور ہی ایم پی اے، ایم این اے بنو ویسے بھی نہ دولت کی کمی ہے نہ شہرت کی اور نہ مہارت کی لیکن کھجلی بھی آخر کھجلی ہوتی ہے اور اس کے خاندان کے ایک نوخیز ٹھیکیدار کا قول زریں ہے کہ ایسا ہوا کہ ہم نے اس سے ایک مرتبہ پوچھا کہ یہ تمہارا خاندان کمال کا خاندان ہے کہ سب کے سب کسی نہ کسی پارٹی میں شامل ہوتے ہیں اور سب کے سب کسی بھی پارٹی میں نہیں ہوتے ہیں یا منٹوں کے نوٹس پر اندر باہر یا ان آؤٹ بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ خود پی پی پی میں تھا، باپ مسلم لیگ میں، سسر اے این پی، سالا جماعت اسلامی میں اور بھائی اے این پی میں، ایک بزرگ چچا جمعیت العلماء میں موجود تھا۔
ہمارے طعنے کو طعنے کے بجائے فخریہ لیتے ہوئے بولا، بھئی ہم سیاست دان نہیں ٹھیکیدار ہیں اور جان بوجھ کر ایک ایک آدمی ہر پارٹی میں رکھتے ہیں کہ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو۔ہمارے ٹھیکے چلتے رہیں۔ایک بہت پرانا واقعہ ریڈیو پاکستان کے زمانے کا یاد آیا ایک شخص جو گلوکاری کرتا تھا اور عرفیت اس کی ''ملا'' کی تھی اور سنا بھی یہی تھا کہ خاندانی لحاظ سے ملا ہے، باپ اب بھی پیش امام ہے لیکن یہ اس کے برعکس پیشے میں آگیا ہے، آخر کار ایک دن ہم نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ یہ تم جو گاتے بجاتے ہو (خاصا پاپولر اور مشہور بھی تھا) تو تمہارا باپ کچھ نہیں کہتا۔ بولا ،کیوں نہیں۔اس نے کہا کہ میں نے باپ کو نرمی سے سمجھایا کہ دیکھو یہ بے وقوف اور احمق عوام ہیں آپ انھیں دین سے لوٹیں اور مجھے گانے سے لوٹنے دیں۔
اس کے بعد اب والد صاحب کچھ بھی نہیں کہتے۔ خیر تو حاجی صاحب بلکہ حاجی ابن حاجی ابن حاجی صاحب اس مرتبہ کچھ پیچھے رہ گئے اور ڈھنگ کا خریدار نہیں مل رہا ہے اور اس کے بغیر کھجلی مٹ نہیں سکتی۔ لیکن آخر جب ایک شخص کینٹین کے ٹیبل مین سے چیئرمین اور پھر چر چر چرمین تک پہنچا ہو تو کسی ہنر سے پہنچا ہوگا ۔ چنانچہ خود تو خریدار پارٹی میں ٹھہر گیا اور بھائی کو ٹکٹ خریدنے کے لیے دوسری طرف دوڑا دیا۔ اور ایک دینی پارٹی مل ہی گئی۔ فوراً مسلمان بھی ہو گئے داڑھیاں بھی رکھ لی گئیں اور ''علماء'' بھی ہو گئے۔
رفتہ رفتہ وہ میری ''بتی'' کے شیطاں ہو گئے
پہلے خاں، پھر خان جی پھر خان خاناں ہو گئے
دن بدن بڑھتی رہیں استاد کی استادیاں
پہلے گل پھر گل بدن پھر گل بہ داماں ہو گئے
اسی دن سر راہ ملے تو ہم پہچان ہی نہیں پائے کہاں وہ کلین شیو انگریزی چہرہ اورکہاں یہ داڑھی میں ملبوس عربی چہرہ۔ بولا؟ ہاں مگر تمہیں کیسے پتہ تم تو کبھی اس طرف آتے نہیں ہو۔ مسجد کی بھی میں نے بنیاد رکھ دی ہے اور ایک دینی مدرسہ بنانے کا بھی ارادہ ہے۔ ہم کہہ بھی کیا سکتے تھے۔
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز ''قدت'' رامی شناسم
ایسے ہی مواقع پر ہمارے ایک بزرگ کہا کرتے تھے کہ کاش ''شرم'' کوئی کتا ہوتا تو ایسے لوگوں کے پیچھے لگا دیتا۔ اور پھر اس سے جو ایک اورحقیقت بھی ثابت ہوتی ہے کہ ''دولت'' انسان کو سوائے ''گرانے'' کے اورکچھ نہیں کرتی۔ جتنی جتنی بڑھتی جاتی ہے اتنا ہی انسان گرتا اور پست ہوتا چلا جاتا ہے اور اب کچھ ہی دن میں آپ اس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھ لیں گے کہ کتنے بڑے بڑے اور بہت بڑے بڑے اس غریب مفلس اورکس مپرس ''ووٹر'' کے آگے جبہ سائی کرتے ہیں داڑھی ٹھوڑی پکڑ تے ہیں اور جھکتے ہیں تف ہے ایسی دولت پر ایسی عزت پر اور ایسی شہرت پر ۔
قدر سنگ سررہ رکھتا ہوں
کتنی ارزاں ہے ''گرانی'' میری