سوشل میڈیا کا پھیلاؤ سیاست سے انتخابات تک

 دنیا میں سماجی میڈیا سیاسی اور انتخابی عمل پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے


سید بابر علی July 08, 2018
پاکستان میں سوشل ویب سائٹس کی صورت عام آدمی کے ہاتھ میں احتجاج اور اظہار رائے کا ہتھیار آگیا۔ فوٹو: فائل

چھے جون 2010 کو دو پولیس اہل کار مصری شہر الیگزینڈرا کے مضافاتی علاقے سیدی غبیر میں واقع ایک انٹرنیٹ کیفے سے ایک نوجوان کو حراست میں لے کر باہر نکلتے ہیں۔

دونوں پولیس اہل کار باہر نکلتے ہی اس نوجوان کو زدوکوب کرنا شروع کردیتے ہیں، ان کی بربریت صرف مار پیٹ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وہ اِس نوجوان کو پولیس کار میں ڈالنے سے پہلے متعدد بار اس کا سر آہنی دروازے، دیوار اور سیڑھیوں کے جنگلے پر مارتے ہیں۔ یہ پولیس اہل کار زندگی کی قید سے آزاد ہوجانے والے اس نوجوان پر بہیمانہ تشدد جاری رکھتے ہیں۔

گرفتار ہونے والے نوجوان کا نام خالد محمد سعید تھا۔ موسیقی کا دلدادہ یہ وجیہہ جوان کچھ عرصے قبل ہی امریکا سے کمپیوٹر پروگرامنگ کی تعلیم حاصل کرکے وطن واپس لوٹا تھا۔ حسنی مبارک کے 'مصر' میں پولیس گردی ایک معمولی بات تھی، لیکن خالد کا قتل حسنی مبارک کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ خالد محمد سعید کے سر اور جبڑے کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں اور جسم پر موجود ان گنت زخموں سے چور جسم کی تصاویر خالد کے بھائی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر پوسٹ کردیں۔ فیس بک پر 'ہم سب خالد محمد سعید ہیں' کے نام سے بننے والے گروپ نے پورے مصر میں احتجاج کا ایسا سلسلہ شروع کیا جس نے نہ صرف مصر بلکہ پوری عرب دنیا کا سیاسی منظرنامہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا۔ سوشل میڈیا پر بننے والے گروپ 'ہم سب خالد محمد سعید ہیں' نے پوری دنیا میں مصری پولیس کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کردیا۔

اور چند دنوں میں ہی دنیا بھر میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زاید افراد نے اس گروپ میں شمولیت اختیار کرلی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بربریت کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔ الیگزینڈرا شہر میں احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس واقعے کے انیس دن بعد بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے اس وقت کے مصری نژاد سربراہ محمد البرادی تعزیت کے لیے خالد کے گھر گئے اور پولیس کی اس وحشیانہ اور سفاکانہ کارروائی کی پُرزور مذمت کی۔ مصر کے تحریر اسکوائر سے شروع ہونے والا یہ احتجاج لندن، امریکا اور دنیا کے بیش تر ممالک میں قائم مصری سفارت خانوں تک پہنچ گیا۔ مصری فوج کی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل سمیع حافظ اینان نے قاہرہ میں فوج تعینات کردی۔ سوشل میڈیا سے شروع ہونے والی اس بغاوت نے محض سات آٹھ ماہ کے عرصے میں ہی تیس سال سے اقتدار پر قابض آمر حسنی مبارک کو مسند اقتدار سے اتروا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ یہ سوشل میڈیا کی طاقت کا پہلا مظہر تھا۔

آج کے دور میں سوشل میڈیا کی افادیت اپنی جگہ مُسَلّم ہوچکی ہے، اور یہ ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جس نے ایک عام آدمی کو بھی با اختیار بنا دیا ہے۔ اگر صرف پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو شاہ زیب قتل، معصوم بچی زینب کے ساتھ ہونے والی بربریت اور خدیجہ صدیقی کی روح تک کو گھائل کردینے والے ملزم کی بریت تک ایسے کئی واقعات ہیں جنہیں اسی سوشل میڈیا نے پُرزور طریقے سے اجاگر کیا اور بااثر ملزمان تک کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ دنیا بھر کی سیاسی جماعتیں اور سیاسی راہ نما اپنے مقاصد کے حصول اور اپنے موقف کو فوری طور پر عوام تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کر رہے ہیں۔ سیاست دانوں نے باضابطہ طور پر اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں بنا رکھی ہیں جن میں شامل افرا پُرکشش مراعات کے عوض سوشل میڈیا پر ان سیاست دانوں کے حق میں مہم چلاتے ہیں۔ منفی پروپیگنڈے اور مخالفین کے خلاف مہم چلانے کا کام کرتے ہیں۔

یہ رجحان پاکستان میں بھی تیزی سے فروغ پاچکا ہے۔ تاہم دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کا سو شل میڈیا کا شعبہ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرتا ہے لیکن پاکستان میں سماجی میڈیا کی ٹیموں کا کام سیاسی مخالفین پر ذاتی نوعیت کے گھٹیا اور رکیک الزامات لگانے تک محدود ہے۔ لچرپن کی اس دوڑ میں پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے کارکنان پیش پیش ہیں، جو عموماً سوشل میڈیا جیسے مفید اور موثر پلیٹ فارم کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کے بجائے رکیک الزامات اور جھوٹے پروپیگنڈے کے سہارے اپنی مہم چلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی مخالف سیاسی راہ نماؤں، مقابل جماعت کے امیدواروں خصوصاً خواتین امیدواروں کی کردارکشی میں تیزی آگئی ہے۔ پاکستان میں جہاں جمہوریت ارتقا کی منزلیں طے کر رہی ہے، وہیں زیادہ سے زیادہ سیاست داں بھی اب سوشل میڈیا کو اپنے اپنے نظریات کے فروغ کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سوشل میڈیا کا سیاست میں کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر انتخابات اور انتخابی سیاست میں سماجی ویب سائٹس کا اثر تیزی سے بڑھ رہا ہے اور سوشل میڈیا اب سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے فیصلوں اور حکمت عملیوں پر بھی اثرانداز ہونے لگا ہے۔ اس کے ساتھ سماجی میڈیا الیکٹرانک میڈیا کے پہلو بہ پہلو رائے عامہ پر بھی محدود پیمانے پر اثرات مرتب کر رہا ہے۔

معاشرتی مسائل، رائے عامہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکا اور دنیا کی تشکیل دینے والے آبادی کے رجحانات کے متعلق معلومات فراہم کرنے والے امریکی تحقیقی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں سوشل نیٹ ورکس کے استعمال میں غیرمعمولی رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔ اس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک دونوں ہی شامل ہیں۔ یہ امر طے شدہ ہے کہ سوشل نیٹ ورکس کو استعمال کرنے والے افراد کی بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے اور اس میں اسمارٹ فونز بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ سروے کے مطابق،''عالمی سطح پر سب سے زیادہ اسمارٹ فون صارفین سوشل ویب سائٹس کا استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح کی ٹیکنالوجی نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقے میں بہت مقبول ہے۔ زیادہ تر ممالک میں سوشل ویب سائٹس استعمال کرنے والے صارفین یا تو طلبہ ہیں یا پھر ان کی عمریں تیس برس سے کم ہیں اور یہی لوگ زیادہ تر اسمارٹ فون کا استعمال کرتے ہیں۔'' سروے میں شامل دیگر ممالک کے ایک تہائی افراد سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں، جب کہ بھارت کے چھے اور پاکستان کے تین فی صد صارفین ایسی ویب سائٹس استعمال کرتے ہیں۔ میکسیکو، برازیل، تیونس، اردن، مصر، ترکی، روس، بھارت اور پاکستان کے زیادہ تر انٹرنیٹ صارفین کی تعداد سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے، جب کہ جرمنی اور جاپان میں انٹرنیٹ صارفین کی نصف سے بھی کم تعداد سوشل ویب سائٹس استعمال کرتی ہے۔

پاکستان میں جہاں سوشل میڈیا کا منفی استعمال ہوا ہے وہیں اس کا مثبت استعمال بھی مؤثر شکل میں سامنے آیا ہے۔ جب آصف علی زرداری نے عرفان اللہ مروت کو پاکستان پیپلز پارٹی شامل کیا تو ان کی دونوں بیٹیوں بختاور بھٹو اور آصفہ بھٹو نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اس فیصلے پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ان کی ٹوئٹس عرفان اللہ مروت کو پاکستان پیپلز پارٹی سے نکلوانے کا سبب بنی۔ واضح رہے کہ عرفان اﷲ مروت سندھ کے سابق وزیراعلیٰ جام صادق علی کے دور میں صوبے کے وزیرداخلہ تھے اور ان پر سرکاری اہل کاروں کے ذریعے پیپلزپارٹی کی دو خاتون راہ نماؤں کے ساتھ بدترین سلوک کرنے کا الزام ہے۔ اسی طرح اپنے زمانے کی مشہور پاکستانی اداکارہ شبنم کے ساتھ زیادتی میں ملوث ملزم فاروق بندیال نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد عمران خان کے ساتھ لی گئی تصویر سوشل میڈیا پر جاری کی۔ اس تصویر نے ایک نیا طوفان برپا کردیا اور عوامی دباؤ پر عمران خان نے فاروق بندیال کو فوری طور پر اپنی جماعت سے باہر نکال دیا۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے سوشل ویب سائٹس پر سامنے آنے والے اپنے کارکنوں اور حامیوں کے ردعمل کے بعد پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کے لیے دیے گئے نام واپس لے لیے، جس پر اسے شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان میں عام آدمی اینڈرائڈ فون اور سوشل میڈیا کے تال میل کو احتجاج اور اپنے مسائل اجاگر کرنے کے لیے استعمال کرنے کا چلن اپنا چکا ہے۔ چناں چہ حکومت، اداروں، وزراء اورمنتخب نمائندوں کی کارکردگی کا پول بہ آسانی کُھل جاتا ہے۔ اس طرح سیاست دانوں کے بلندبانگ دعووں کو بے نقاب کرنا آسان ہوگیا ہے۔

آج سوشل میڈیا یا سماجی رابطے کی ویب سائٹس دنیا بھر میں سیاست اور اظہارِرائے کے ایک نئے اور بہت طاقت ور ٹول کے طور سامنے آئی ہیں۔ پوری دنیا میں سوشل میڈیا کو ریاستوں، سفارت کاروں اور سیاسی راہ نماؤں کے درمیان رابطے کے لیے ایک موثر ٹول کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کئی سربراہان مملکت اپنے حریف اور حلیف ہم عصروں کو دھمکانے یا سپورٹ کا یقین دلانے کے لیے ٹوئٹر پر ٹوئٹ کا کھیل جاری رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کی جانے والی کسی مشہور شخصیت کی ایک پوسٹ یا ٹوئٹ ایک لمحے میں دنیا بھر کو تشویش میں مبتلا کر دیتی ہے تو دوسرے ہی لمحے حصص بازاروں میں سرمایہ کاروں کے اربوں ڈالر ڈوب جاتے ہیں۔ سیاست دانوں کے لیے سماجی رابطے کا پسندیدہ پلیٹ فارم ٹوئٹر ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک وجہِ شہرت ان کی متنازع ٹوئٹس ہیں۔

پاکستان میں سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ اب سوشل میڈیا پاکستانیوں کے لیے ایک موثر ہتھیار بن چکا ہے۔ اسی طرح جب پارلیمان کا مشترکہ اجلاس شروع ہوتا ہے تو ساتھ ہی پاکستانی ٹوئٹر جاگتا ہے اور پارلیمان میں خطابات کی ہر اہم بات اور نکتہ ٹوئیٹ کیا جاتا ہے اور مقررین کا نام فوری ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر جاتا ہے۔ اب پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد روایتی میڈیا کی نسبت سوشل میڈیا پر زیادہ اعتبار کرتی ہے، کیوں کہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں آپ آپ کسی سے کسی بھی وقت سوال کر سکتے ہیں، ثبوت مانگ سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ بات کرنے والا کس قدر معتبر ہے اور اس کی بات میں کس قدر وزن ہے۔ ساتھ ہی عام آدمی اس میڈیا کے ذریعے اپنی رائے، احتجاج، کوئی منظر یا خبر سامنے لاسکتا ہے۔ نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ فوج کا شعبہ تعلقات عامہ بھی ٹوئٹر اور فیس بک کے ذریعے عوام سے رابطے میں رہتا ہے اور پالیسی امور پر بیان جاری کرتا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پالیسی امور پر بات کرنے کے عمل کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔

سوشل میڈیا کی سیاسی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2016 میں امریکا میں ہونے والے انتخابات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم پر 44 ملین ڈالر اور ان کی مخالف ہیلری کلنٹن نے 28 ملین ڈالر خرچ کیے۔ اس مہم میں جھوٹ اور جعلی سازی کے ہتھ کنڈے بھرپور طریقے سے استعمال کیے گئے، جس میں ڈونلڈٹرمپ کے حامی بازی لے گئے، اس کا نتیجہ آج ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں دنیا بھر کے سامنے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی سوشل میڈیا کے سبب ڈونلڈ ٹرمپ جیسا بدخو، متعصب اور امنِ عالم کے لیے مہلک شخص دنیا پر حکم رانی کر رہا ہے۔ اگر چہ ٹرمپ کی فتح کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں، مگر ان میں سب سے اہم کردار سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا ہے، فیس بک، ٹوئٹر، بلاگز اور فورمز پر ٹرمپ کے حق میں شایع ہونے والے ہزاروں جعلی مضامین اور جعلی خبروں نے ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے لیے راہ ہموار کی۔ ان جعلی خبروں اور مضامین کو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں اصلی خبروں سے زیادہ لائک اور شیئر کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر خبر کی تصدیق کیے بنا اسے دوسرے لوگوں سے شیئر کرنے کی روایت نے ہی ٹرمپ جیسے شخص کے صدر بننے کے لیے راستہ صاف کیا۔

سوشل میڈیا کی ویب سائٹس نہ صرف دنیا بھر میں سیاسی راہ نماؤں کی کام یابی کے لیے راہ ہموار کر رہی ہیں بل کہ یہ پلیٹ فارم دنیا بھر میں فسادات کا سبب بھی ہیں۔ دنیا بھر میں اس وقت ہزاروں کی تعداد یں جعلی ویب سائٹس، جنہیں ''hoaxنیوز'' ویب سائٹ بھی کہا جاتا ہے، لوگوں کو اپنی سائٹ تک لانے کے لیے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہیں۔ ان ویب سائٹس کا بنیادی مقصد معاشی اور دیگر فوائد حاصل کرنے کے لیے انٹرٹینمنٹ اور درست معلومات کے بجائے کسی مخصوص سیاسی، مذہبی جماعت کے حق یا مخالفت میں پروپیگنڈا یا رائے عامہ ہموار کرنا ہوتا ہے۔ 2016 میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں انہیں جعلی نیوز ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں مہم چلائی گئی۔

رومانیہ کی جعلی رپورٹس کو فروغ دینے والی ایک ویب سائٹ 'اینڈنٖگ دی فیڈ' نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے جعلی مضامین اور بوگس رپورٹس کی مدد سے ٹرمپ کے حق میں بھرپور مہم چلائی۔ امریکی صدارتی انتخابات سے تین ماہ قبل ہی سے فیس بک کے دس مقبول ترین مضامین میں سے چار اسی ویب سائٹ کے رہے۔ یہ جعلی مضامین صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں لکھے گئے تھے۔ دنیا بھر میں ویب سائٹس کی ٹریفک (ویب سائٹ وزٹ کرنے والے افراد کا ان سائٹس کا استعمال کرنا) کے لحاظ سے درجہ بندی کرنے والی ویب سائٹ الیگزا کے مطابق صرف نومبر 2016 ہی میں اس ویب سائٹ پر تقریباً 34 لاکھ ویوز رہے، جب کہ زیادہ تر ٹریفک فیس بک سے آیا۔ انٹرنیٹ پر روس نواز اکاؤنٹ 2016کے امریکی انتخابات میں صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ہوگئے۔ اگست 2016 میں امریکا کے معروف آن لائن اخبار 'دی ڈیلی بیسٹ' نے فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے سینٹر فار سائبر اینڈ ہوم لینڈ سیکیوریٹی کے سنیئر فیلو کلنٹ واٹس اور اینڈریو ویسبرڈ کا ایک مضمون شایع کیا، جس میں انہوں نے روس کی جانب سے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے لیے فیبریکیٹڈ مضامین کی مقبولیت کا ذکر کیا۔ اپنے موقف کے حق میں انہوں نے کچھ دستاویزی ثبوت بھی فراہم کیے اور بتایا کہ روس نواز ٹوئٹر اکاؤنٹس پر روسی حکومت کی نگرانی میں چلنے والی انگریزی زبان کی دو بڑی میڈیا آرگنائزیشنز 'رشیا ٹوڈے' اور 'اسپیوٹنک نیوز' کس طرح غلط معلومات پھیلا رہی ہیں۔ کلنٹ کا کہنا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے ایکٹیو میزرز کو سہل کردیا ہے اور کریملن میں ہونے والا آپریشن بھی ایکٹیو میزرز کی ایک قسم تھی، جب کہ نومبر 2016 میں برطانوی اخبار گارجین میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر ٹرمپ کی حمایت کرنے والے امریکی شہری نہیں بل کہ روسی تھے، جنہیں اس کام کے لیے اچھا معاوضہ دیا گیا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد ہزاروں میں تھی۔

گذشتہ ڈھائی سال کے عرصے میں 7ہزار سے زاید ٹرمپ نواز اکاؤنٹس بنائے گئے، جنہوں نے دائیں بازو کی جماعتوں کو اپنے پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا اور رائے عامہ تبدیل کرنے کے لیے ہر صدارتی مباحثے کے بعد ہزاروں ٹوئٹر اکاؤنٹس نے #Trumpwon کا ہیش ٹیگ استعمال کیا۔ اسی حکمت عملی کے تحت روس نے بل کلنٹن کو بدنام کرنے کے لیے سوشل میڈیاکا استعمال کیا تھا۔ سائبر سیکیوریٹی سے متعلق امریکی فرم 'فائر آئی' کا بھی دعویٰ ہے کہ روس نے امریکی انتخابات میں سوشل میڈیا کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور 2016کا یہ آپریشن روس کی سائبر وار فیئر میں ایک اہم پیش رفت تھی، جب کہ ایف بی آئی نے نومبر 2016 میں ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا، ''ہمیں یقین ہے کہ جعلی خبریں پھیلانے میں روس ملوث ہے، اور روس کی مدد سے 2016کے انتخابات پر اثرانداز ہونے والی جعلی اور پروپیگنڈے پر مبنی خبریں پھیلائی گئیں۔''

پاکستان میں عوام سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ٹوئٹر اور فیس بک کے ذریعے اپنے سیاسی نظریات کا کھلے عام پرچار کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں سے وابستہ صارفین اپنے مخالفین کو بھی آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ یہ سماجی ویب سائٹس کے مقبولیت کا نتیجہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا کے ادارے بھی اپنی خبروں کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا پر انحصار کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان کی نسبت امریکا، یورپ اور دیگر ممالک میں سوشل میڈیا کا کردار روس، چین، ایران اور مشرق وسطیٰ جیسے ملکوں کی قدرے مختلف ہے۔ پاکستان میں کچھ عرصے قبل تک بلاول بھٹو زرداری اور عمران خان کو ٹوئٹر کا سیاست داں کہا جاتا تھا لیکن آج کم و بیش تقریباً ہر سیاست داں خود یا اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے عوام سے رابطے میں رہنے اور سیاسی دکان چمکانے کے لیے فیس بک اور ٹوئٹر جیسے سوشل پلیٹ فارمز کا استعمال کر رہا ہے۔ سیاست داں اپنا موقف اخبارات ، ٹی وی اور دیگر روایتی ذرایع ابلاغ کے بجائے سوشل میڈیا کے ذریعے زیادہ بھرپور طریقے سے عوام تک پہنچا رہے ہیں۔

اور اس کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا خصوصاً الیکڑانک میڈیا اپنے رپورٹر کے بجائے متعلقہ سیاست داں کی ٹوئٹ کو زیادہ قابل اعتبار سمجھ کر اسی کی بنیاد پر عوام کو خبر دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ قابل ذکر رہنے والے سیاست دانوں میں سرفہرست عمران خان ہیں۔ کبھی ان کی طلاق کی خبر ٹاپ ٹرینڈ پر رہتی ہے تو کبھی ان کی تیسری شادی کی خبر سوشل میڈیا کی زینت بن جاتی ہے، اور کبھی مزار پر حاضری دیتے ہوئے ان کا تعظیمی عمل، جسے ان کے مخالفین نے سجدہ اور انھوں نے چوکھٹ چومنا قرار دیا، سماجی میڈیا پر بحث کا موضوع بن جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے راہ نما خرم دستگیر مُلک کے ان سیاست دانوں میں شامل ہیں جنھوں نے سوشل میڈیا کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے، جب کہ اسمبلی سے براہ راست ٹوئٹ کرنے کے رجحان کی ابتدا سابق رکنِ پارلیمان ماروی میمن نے کی تھی، جو اسمبلی کی پوری کارروائی اجلاس کے دوران ہی سوشل میڈیا پر شیئر کر دیتی تھیں۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف، متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نما ڈاکٹرفاروق ستار، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، پاکستان پیپلزپارٹی کے راہ نما نبیل گبول، جماعتِ اسلامی کی سمیعہ راحیل قاضی اور عوامی نیشنل پارٹی کی بشریٰ گوہر بھی سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے پاکستانی سیاست دانوں میں نمایاں ہیں۔

عوام جواب مانگتے ہیں!!!!

ملک بھر میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں نے اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے، لیکن اس بار ان امیدواروں کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ اور اس خطرے کا نام ہے سوشل میڈیا، جی ہاں نہ صرف بڑے شہروں بلکہ چھوٹے شہروں اور دیہات میں بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار موبائل فون کے کیمروں سے اس طرح چُھپ رہے ہیں جس طرح صدر بش کو پڑنے والے جوتے کے بعد سیاست داں عوامی اجتماعات میں چوکنّا رہنے لگے تھے۔ کئی ارکان اسمبلی کے خلاف ہونے والے احتجاج، جواب طلبی، تنقید اور کارکردگی پر اٹھنے والے سوالات کی ویڈیوز سوشل میڈیا کی زینت بن کر ان کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہی ہیں۔ بہت سی ویڈیوز میں تو ووٹرز نے اپنے 'عظیم' لیڈروں کی اتنی شان دار 'عزت افزائی' کی ہے کہ اگر ان لیڈروں میں تھوڑی سی بھی غیرت ہو تو وہ تاعمر سیاست سے تائب ہوجائیں، لیکن وہ سیاست ہی کیا جس میں 'عزت ' ہو۔



حال ہی میں سو شل میڈیا پر سابق اپوزیشن لیڈر اور رکن قومی اسمبلی سید خورشید شاہ کی ایسی ہی ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں وہ اپنے ووٹرز کو تنبیہہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ :خبردار! اگر تم میں سے کسی نے ہمارے کہنے کے علاوہ کسی اور کو ووٹ دیا، جہاں ہم کہیں گے وہیں ووٹ دینا ہے۔ اس ویڈیو پر سید خورشید شاہ کی شان میں وہ 'قصیدے ' پڑھے گئے جنہیں احاطئہ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ اس سے قبل پنو عاقل میں ایک نوجوان نے سید خورشید شاہ سے شکوہ کیا کہ 'آپ دس سال حکومت میں رہے لیکن ہمارے علاقے میں نہ پانی ہے اور نہ ہی کوئی سڑک بنی ہو ئی ہے، لیکن خورشید شاہ نے اپنی کارکردگی کا حساب دینے کے بجائے مسکراتے ہوئے فرمانے لگے کہ اب تم اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر لگا دینا۔ اگر سیاست دانوں کے پاس ایسی تنقید کا معقول جواب ہو تو انھیں کسی وڈیو کے سوشل میڈیا پر آنے سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

سوشل میڈیا پر 'عزت' حاصل کرنے والوں میں سابق وزیراعظم شاید خاقان عباسی بھی شامل ہیں جنہیں ان کے آبائی حلقے کہوٹہ میں لوگوں نے گھیر کر حکومتی کارکردگی پر سوالات اٹھانے شروع کردیے، اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم ادھوری چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے میں ہی بہتری سمجھی۔ لیکن سوشل میڈیا پر وائر ل ہونے والی اس ویڈیو نے سب کو حقیقت سے آگاہ کردیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے راہ نما اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو بھی اپنے آبائی حلقے پی ایس 80 میں ووٹرز سے جان چھڑانا مشکل ہوگیا۔ اور انہوں نے اپنی 'عزت افزائی ' کا غصہ ویڈیو بنانے والے ایک ووٹر کے موبائل فون پر نکالا اور اور ووٹرز کے گھیرے سے بھاگ نکلے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے راہ نما ڈاکٹر فاروق ستار کو نیو میمن مسجد بولٹن مارکیٹ میں نمازِجمعہ کی ادائیگی کے بعد عوام نے گھیر لیا اور سوالات کی بوچھاڑ کردی، غم و غصے کے شکار ایک بزرگ نے فاروق ستار کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ 25 سال اقتدار میں رہتے ہوئے آپ نے ہمارے مسائل کے حل کے لیے کیا کیا؟ 25 سالوں سے کھالیں چھین رہے ہو اس کا حساب کون دے گا؟ لیکن فاروق ستار نے تحمل کے ساتھ عوام کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے میڈیا کا سہارا لیا اور پریس کانفرنس کرڈالی۔ لیکن سوشل میڈیا پر ان کی اس ویڈیو پر جو درگت بنی اور انہیں جن القاب و آداب سے نوازا گیا وہ قارئین خود سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔

نیا پاکستان بنانے کی دعوے دار جماعت پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار بھی عوام کی عدالت سے فرار اختیار کرنے میں ناکام رہے۔ پی ٹی آئی کے راہ نما خرم شیر زمان اپنے حلقہ پی ایس 110میں انتخابی مہم کے دوران ووٹرز کے ہتھے چڑھ گئے اور انہیں کھری کھری سننی پڑیں۔ اور وہ ووٹرز سے رٹی رٹائی باتیں کرنے کے بعد روانہ ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر سیاست دانوں اور امیدواروں کے احتساب کا یہ سلسلہ جاری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں